فکر و نظر

تاریخی مساجد اور مسلم دور کی یادگاریں نشانے پر

اب پارلیامنٹ کی طرف سے پاس کیے گئے مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کو کالعدم کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیم وشو ہندو پریشدکے نشانے پر  ملک بھر میں 25ہزار مساجد و قبرستان اور وقف کی جائیدادیں ہیں، جو ان کے مطابق عہد قدیم میں ہندو عبادت گاہیں تھیں۔

تصاویر: پی ٹی آئی، وکی میڈیا کامنس۔

تصاویر: پی ٹی آئی، وکی میڈیا کامنس۔

جنوبی ایشیاء میں جہاں اس وقت پاکستان ایک سیاسی اور آئینی بحران سے گزر رہا ہے، سری لنکا ایک بدترین اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا ہے، وہیں ہندوستان میں حکمراں  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے ہمنوا اصل ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ہندو توا کا چورن کامیابی کے ساتھ بیچ کر ایک کے بعد ایک جذباتی نان ایشوز ابھار کر ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کررہی ہے۔

حجاب پہننے، حلال گوشت کی فروخت، مساجد میں اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکروں کا استعمال جیسے تنازعے تھمنے کے بعد اب بس سانس ہی لے رہے تھے کہ ہندو قوم پرستوں نے یکے بعد دیگرے مسلم دور کی شاہکار یادگار تاج محل، دہلی میں سلاطین کی یادگار قطب مینار، وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقہ انتخاب بنارس یا وارانسی میں موجود تاریخی گیان واپی مسجد اور آگرہ سے 50کلومیٹر دور متھرا کی عید گاہ مسجد پر دعویٰ کرکے بتایا کہ یہ سبھی عمارتیں عہد قدیم میں ہندو عبادت گاہیں تھیں، اس لیے ان کی وہی حیثیت واگذار کرائی جائے۔

تاج محل پر دعویٰ کسی ایرے گیر ے سیاسی اٹھائی گیرے نے نہیں، بلکہ ریاست اتر پردیش میں حکمراں  بی جے پی کے عہدیدار اور ترجمان رجنیش سنگھ نے درج کروایا۔ ان کا کہنا ہے کہ تاج محل کی بنیاد ایک مندر تیجو محل پر رکھی گئی ہے۔

حیرت تو یہ ہے کہ جے پور کے شاہی گھرانہ کی مہارارنی دیا کماری، جو فی الوقت بی جے پی کی رکن پارلیامنٹ ہے، نے اس میں سر ملاکر دعویٰ کیا کہ مغل بادشاہ شاہجہان نے ان کے خاندان سے یہ زمیں زبردستی ہتھیا لی تھی۔ مغل دور میں اگر کسی نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، تو یہ جے پور کا شاہی گھرانہ تھا۔ اس کے اراکین مغلوں کے سپہ سالار، وزیر، دیوان اور افسران تھے اور اپنی بیٹیاں مغل حکمرانوں کو رشتے میں دیتے تھے۔

دیا کماری کی ایک الیکشن مہم میں نے ان کے ہمراہ کور کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ مسلمان علاقوں میں وہ اپنے خاندان کے مغل فرمانرواں کے ساتھ تعلقات کو خوب بیچتی تھیں۔ مسلمان دیہاتی بھی ان کا استقبال سادگی میں یہ نعرے لگاتے ہوئے کرتے تھے۔’دیکھو دیکھو کون آئی ہے، ماما جی کی بیٹی آئی ہے۔’

 ماما جی کا مطلب راجہ مان سنگھ، جو جہانگیر کے ماموں تھے۔

کاش اس راجپوت خاندان کے بجائے مغلوں نے ہندوستان کے اصل باشندوں دلتوں، اور دیگر پسماندہ طبقات کو بااختیار بنایا ہوتا اور اسلام کے آفاقی سماجی برابری اور انصاف کے پیغام کو پھیلایا ہوتا،، تو جنوبی ایشیا کاسماجی نقشہ ہی الگ ہوتا۔

خیر فی الوقت جس قضیہ نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو مضطرب کر کے رکھ دیا ہے، وہ جنوبی ایشیا کے قدیم شہر دریائے گنگا کے للتہ گھاٹ سے چند فاصلے پر واقع گیان واپی مسجد ہے۔ یہ ایک طرح سے بابری مسجد کا ری پلے ہو رہا ہے۔  ایسا لگتا ہے کہ اس کے مسلمانوں کے ہاتھ سے جانے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ  وارانسی کے سول جج روی کمار دیواکے ذریعے مقرر کی گئی سروے ٹیم کی  پورٹ تیار ہونے سے قبل ہی عدالت نے تسلیم کرلیاکہ مسجد کے وضو خانہ میں ایک بڑا شیو لنگ موجود ہے۔اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے بھی اسے شیو لنگ ہی کہہ دیا۔مورتی اور شیو لنگ میں واضح فرق ہوتا ہے۔

مورتی  یا مجسمہ کسی بھگوان کی شکل و شباہت کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ شیو لنگ پتھر سے بنا ایک ستون ہوتا ہے۔ اس کی کوئی واضح شکل و شباہت نہیں ہوتی ہے۔ ہندو عقیدہ کے مطابق یہ بھگوان شیو کے عضو مخصوص کو ظاہر کرتا ہے۔  وضو خانہ کے اندر ملے جس پتھر کو شیو لنگ بتایاگیا اس میں اوپر سے نیچے تک سوراخ ہیں اور اوپری حصہ چار پانچ حصوں میں کٹا ہوا ہے۔ مسجد کمیٹی کادعویٰ ہے کہ وہاں فوارہ لگا تھا اور اس کی بنیاد کوشیو لنگ بتایاجارہا ہے۔

اس مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے سترہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی۔

مؤرخین کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی کے واپسی کے بعد جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑاؤ ڈالا، تو اس کے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کے لیے گئیں۔ رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں، تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانہ کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا، تو اس کے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں نظر آئیں۔

نیچے جا کر پتہ چلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اس کے کپڑے تار تار تھے۔ اورنگ زیب نے  یہ کیس کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر، اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اس کے اوپر  مندر کو ازسر نو تعمیر کرادیا۔

مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی، کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ ہندوستان میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی(علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔

ادھر متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کے خلاف دائر پٹیشن بھی ضلع عدالت نے منظور کر لی ہے۔متھرا کی شاہی عید گاہ کی مسجد کے لیے بھی دعویٰ کیاگیا ہےکہ جس تقریباً ساڑھے تیرہ ایکڑ زمین پر یہ عید گاہ مسجد بنی ہوئی ہے وہ زمین مسلمانوں کی نہیں ہے۔

اس معاملے میں ہندو فریق کی جانب سے یہ دعویٰ نہیں کیا گیا ہے کہ مندر توڑ کریہ عید گاہ مسجد بنائی گئی تھی۔ مسجد کی زمین کو ٹھاکر جی (بھگوان کرشن) کی ملکیت بتایا کر مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کو کرشن جنم بھومی مندر کے حوالے کیا جائے۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ متھرا کی عید گاہ مسجد کے سلسلہ میں کئی سال قبل فریقین کے درمیان ایک سمجھوتہ بھی ہوا تھا جس کے مطابق دونوں عباد ت گاہیں قائم رہیں گی۔ اس سلسلہ میں کوئی تنازعہ کھڑا نہیں کیا جائے گا۔ اب کہاجارہا ہے کہ وہ سمجھوتہ غلط تھاا س لیے ہندو فریق اب اسے نہیں مانتے۔

 جب ہندوستان کے اتر پردیش صوبہ کے ایودھیا شہر 1992 میں بابری مسجد کو مسمار کیا گیا، تو مجھے یا د ہے کہ کئی افراد کا استدلال تھا کہ اس جگہ کو ہندوؤں کے حوالے کیا جانا چاہیے تاکہ اس سے دونوں فرقوں کے درمیان نفرتیں کم ہو جائیں گی اور اس کے بدلے دیگر مساجد کے تحفظ کی گارنٹی لی جاسکتی ہے۔

چونکہ انہی دنوں پارلیامنٹ نے مذہبی مقامات ایکٹ 1991بھی پاس کیا تھا، جس کی ر و سے بابری مسجد کے بغیر دیگر تمام عبادت گاہوں کی پوزیشن جو 1947میں تھی، جو ں کی توں برقرار رکھی جائےگی، اس لیے  یہ بھی دلیل دی جا رہی تھی کہ اب بقیہ تمام مساجد کو قانونی تحفظ فراہم ہو گیا ہے، اس لیے مسلمانوں کو اب گھبرانے یا خواہ مخواہ ایشو بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

مگر اب پارلیامنٹ کی طرف سے پاس کیے گئے اس قانون کو کالعدم کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیم وشو ہندو پریشدکے نشانہ پر  ملک بھر میں 25ہزار مساجد و قبرستان اور وقف کی جائیدادیں ہیں، جو ان کے مطابق عہد قدیم میں ہندو عبادت گاہیں تھیں۔

دراصل  الہ آباد ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ نے جس طرح بابری مسجد کے قضیہ سے متعلق اپنے فیصلوں میں قانون کو طاق پر رکھ کر عقیدہ کو بنیاد بنا کرمسمار شدہ مسجد کی زمین ہندو فریقین کے سپرد کی، اس سے شہہ پا کر ہندو تنظیمیں دیگر عبادت گاہوں پر حق جتا رہے ہیں۔ بابری مسجد کے کیس میں بھگوان رام کر فریق بنا کر اس کی طرف سے عرضی دائر کی گئی تھی۔  بالکل اسی طرح ان دونوں کیسوں میں بھی بھگوان وشیویشوراور بھگوان کرشن کو فریق بنا کر عرضی دائر کی گئی ہے۔

ایک عجیب و غریب استدلال میں سپریم کورٹ نے باضابطہ رام لللا کو فریق مان کر مسجد کی زمین اسی کے سپرد کی اور سماعت کے دوران یہ بھی تسلیم کیا کہ چونکہ رام لللا نابالغ ہے اسی لیے وشو ہندو پریشد کی سرپرستی میں ان کے وکیل سی ایس ویدیا ناتھن ان کا کیس لڑیں گے۔

مستقبل میں شاید ہی کوئی یقین کرے گا کہ 21ویں صدی میں دنیا کے کسی جمہوری ملک کی سپریم کورٹ نے ایک اساطیری شخصیت کو فریق بنا کر اس کے دلائل ریکارڈ پر لاکر اس کے حق میں فیصلہ بھی سنادیا۔

مگر یہ اب ایک کھلی حقیقت ہے کہ قانون اور آئین کی پروا کیے بغیر عدالت نے کہا کہ لاء آف لیمٹیشن کا اطلاق ہندو دیوتاؤں پر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان دیوتاؤں کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتہ ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔

یہ بھی اب حقیقت ہے کہ سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کو ریٹائرمنٹ کے بعد اسی فیصلہ کی وجہ سے ا یوان بالا یعنی راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا۔

بنارس کی عدالت میں جب ہندو انتہا پسندوں کے وکیل نے گیان واپی مسجدپر دعویٰ درج کیا، تو پارلیامنٹ کے 1991کے قانون کا حوالہ دےکر اس کو پہلی سماعت کے دوران ہی خارج کردینا چاہیے تھا۔ مگر کورٹ نے کیس کو سماعت کے لیے نہ صرف منظور کیا بلکہ ایک سروے ٹیم بنا کرمسجد کے احاطہ کے سروے کرانے کا حکم دے دیا تاکہ معلوم کیا جائے کہ وہاں کسی مندر کے آثار تو نہیں ہیں۔

کیونکہ ہندو وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد دراصل پاس کے ویشویشور مند ر کا حصہ ہے۔  بالکل اسی طرح آثار قدیمہ کو بابری مسجد کی جگہ پر کھدائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ اس کی بنیادوں کے نیچے کسی مندر کے آثار پتہ کیے جائیں۔ خیر بابری مسجد کی بنیادوں کے بارے میں آثار قدیمہ نے یہ تو رپورٹ دی کہ 16ویں صدی میں جب مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی، اس وقت وہاں کو ئی عمارت موجود نہیں تھی۔

ہاں اس جگہ پر جو آثار ملے، ماہرین کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ 11ویں یا 12ویں صدی کے ہوسکتے تھے۔ یعنی مسجد کی تعمیر سے قبل 400سال تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی، جس کو مبینہ طور پر مسمار کرکے مسجد بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

دستور میں موجود قانون حد یعنی لاء آف لیمیٹیشن کو نظر انداز کرکے آثار قدیمہ یا اساطیری شخصیات کو فریق بنا کر اور عقیدہ کی بنیاد پر عدالتی فیصلے دینا نہایت ہی خطرناک رجحان ہے۔ دنیا میں شاید ہی کو ئی ایسی عمارت یا جگہ ہوگی، جس کے نیچے کسی نہ کسی قدیم تہذیب کے آثار نہ پائے جائیں گے۔ اس کو اگر واقعی بنیاد بنایا گیا تو ہندوستان میں شاید ہی کوئی مندر بچ جائےگا، کیونکہ ایک وقت پوری آبادی نے بدھ مت اختیار کیا تھا۔ جب آدی شنکر آچاریہ نے ہندو ازم کا احیا کیا تو بدھ عبادت گاہوں کو مسمار کرکے مندر تعمیر کروائے گئے تھے۔

ایک اندازہ کے مطابق زمین کی عمر 4.54بلین سال کے لگ بھگ ہے اور اس میں انسانی آبادی کا وجود 50ہزار سال سے ہے۔ اس دوران کئی تہذیبوں یا انسانی آبادیوں نے اس کو آباد کیا۔ پھر تلاش معاش کی وجہ سے یا تو ہجرت کرکے دیگر علاقوں کی طرف چلے گئے یا جنگوں یا آفات سماوی کی وجہ سے نیست نابود ہو گئے۔ لہذا دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ہوگا، جہاں کھدائی کرکے کچھ نہ کچھ آثار برآمد نہیں ہوں گے۔

اسی لیے اس اندیشہ کے پیش نظر کہ کوئی شخص کسی جائیداد یا جگہ پر یہ دعویٰ کرے کہ ہزار یا کئی سو سال قبل یہ اس کے آباو اجداد کی ملکیت تھی، دنیا کے تمام ملکوں کے دستور میں قانون حد یعنی لاء آف لیمیٹیشن شامل کیا گیا ہے، جس کی رو سے ایک خاص مدت کے بعد کوئی بھی عدالت ملکیتی دعویٰ کا کوئی بھی کیس سماعت کے لیے منظور نہیں کرسکتی ہے۔

 اس قانون کی عملداری کی ایک واضح  مثال لاہور کا شہید گنج گوردوارہ ہے۔ 1762ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 1849ء میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

پریوی کونسل نے لاء آف لیمیٹیشن  کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ 1850ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ 1880ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار لاء آف لیمیٹیشن کا حوالہ دےکر  عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔

پاکستان بننے کے 74سال بعد بھی یہ گوردوارہ آب و تاب کے ساتھ لنڈا بازار میں کھڑا ہے۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر کسی پاکستانی سیاستدان نے برطانوی عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک او ر اس کے موجودہ حکمرانوں کے لیے شہید گنج گوردواے کا قضیہ ایک سبق ہے۔