فکر و نظر

اسرائیلی فلمساز کا مودی حکومت کے منہ پر طمانچہ

اسرائیلی فلمساز کے تبصرہ پر جس طرح حکومت بھڑک اٹھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناکام فلمساز اگنی ہوتری کی فلم پر تنقید کو خود ہندوستان پر حملہ تصور کیا جائےگا۔ حیرت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کسی فلم پر ایک سند یافتہ فلمساز کی تنقید کوبرداشت نہیں کر پارہی ہے۔

اسرائیلی فلمساز نادو لیپڈ۔ (تصویر: Martin Kraft/Wikimedia Commons, CC BY-SA 4.0)

اسرائیلی فلمساز نادو لیپڈ۔ (تصویر: Martin Kraft/Wikimedia Commons, CC BY-SA 4.0)

جرنلزم میں سینماٹو گرافی کا مضمون پڑھنے کے باوجود، فلموں کی تکنیک وغیرہ کے بارے میں میرے معلومات واجبی سی رہی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ کے سینما گھر صمد ٹاکیزکے سامنے سے گزرنا بھی ہمارے گھر کے بزرگ ایک ایسا جرم گردانتے تھے، جس کی تلافی ممکن نہیں تھی۔

اس سڑک سے بس جان ہتھیلی پر رکھ کر ہی گزرنا پڑتا تھا، کہیں کسی جان پہچان یا محلہ والے کی نظر پڑ گئی اور اس نے گھر والوں کو بتایا تو آسمان ٹوٹ جائےگا۔ بالی ووڈ کی کلاسک فلموں، دو بیگہ زمین، مدر انڈیا یا بوٹ پالش وغیرہ سے میرا واسطہ تو دہلی آنے کے بعد ہی پڑا اور معلوم ہوا کہ یہ کتنا طاقتور میڈیم ہے۔

سال 2010میں فلسطین اور اسرائیل کے دورہ کے دوران غازہ سرحد پر واقع اس ملک کے شہر نگار یعنی سدیرات شہر پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں ایک فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہے، او ر ہماری گائیڈ نے اس فلم کے نوجوان یہودی پروڈیوسر اور ہدایت کارکو متعارف کرکے بتایا کہ وہ سیاسی و سماجی نظام کو اپنی فلموں کا موضوع بنارہے ہیں۔

ہاں یہ وہی فلم ساز نادو لیپڈتھے، جنہوں نے پچھلے  دنوں ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے فلموں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر ایک ایسا زور دار طمانچہ مارا کہ اس کی گونج کئی برسوں تک بالی ووڈ اور ہندوستانی ایوانوں میں گونجتی رہے گی۔

انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (آئی ایف ایف آئی) میں بین الاقوامی جیوری کی سربراہی کرتے ہوئے انہوں نے بھری محفل میں وزیروں کی موجودگی میں مودی حکومت کی ایما پر بنائی گئی فلم کشمیر فائلز کو ‘بیہودہ’ اور پروپیگنڈہ’ والی فلم قرار دیا۔

سدیرات شہر کا آرٹ اور فلم کے حوالے سے اسرائیل میں وہی مقام ہے، جو ہندوستان میں ممبئی یا پاکستان میں لاہور کا ہے۔ اس شہر کے ایک ریستوراںمیں لیپڈ ہمیں بتا رہے تھے کہ وہ اپنی فلموں کے ذریعے اسرائیلوں کو بتانا چا ہ رہے ہیں کہ ان کے لیونگ رومز میں ایک بہت بڑا ہاتھی سماجی ناانصافی اور عدم مساوات کی شکل میں داخل ہو چکا ہے، جس کا تدارک کرنا پڑےگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل کا احاطہ کرنے کے نام پر اسرائیلی فلمساز فلسطینیوں کو ایک کردار کے روپ میں پیش کرکے تختہ مشق بناتے ہیں، جیسے بس وہی ان کے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کہہ رہے تھے کہ جب اسرائیلی آئینے میں دیکھتے ہیں تو انہیں بس فلسطینیوں کا عکس نظر آتا ہے اور اس دوران وہ اپنا عکس دیکھنا بھول جاتے ہیں، جو وہ ان کو اپنی فلموں کے ذریعے دکھانا چاہتے تھے۔

اس سال ساحلی صوبہ گوا میں منعقد بین الاقوامی فلم میلہ کے مقابلہ میں 15فلمیں پیش کی گئی تھیں۔ لیپڈ کا کہنا تھا کہ 14فلمیں تو معیار اور تکنیک پر پوری اتر رہی تھیں، مگر آخری فلم، کشمیر فائلز جس کو سرکاری دباؤکی وجہ سے شامل کیا گیا تھا، اس باوقار میلہ کے وقار کے منافی تھی۔

گو کہ کشمیر فائلز 1990 کی دہائی میں کشمیر سے مقامی ہندو آبادی یعنی پنڈتوں کی ہجرت کی داستان پر مبنی ہے، مگر اس میں پوری مقامی مسلمان آبادی کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں اس فلم کی اسکریننگ کے بعد کئی جگہوں پر مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز واقعات بھی پیش آئے۔

 تل ابیب میں پیدا ہونے والے اور پیرس میں مقیم 47 سالہ فلمساز کے تبصرے نے تو جیسے ایوانوں میں آگ لگا دی۔تبصرہ کرنے والا اسرائیلی اور یہودی تھا، اس لیے اس کو سازش کے زمرے میں بھی نہیں ڈالا جا سکتا تھا۔ مگر ہندو قوم پرستوں کی ٹرول آرمی نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی سفارت خانہ پردھاوا بول کر ایسا دباؤ بنایا کہ اسرائیلی سفیر ناور گیلون کو معافی مانگنی پڑی اور اپنے ہی ملک کے فلمساز کو تنقید کا نشانہ بنانا پڑا۔

یہ شاید پہلا موقع ہوگا، جب کسی ملک کی حکومت کو اس طرح سامنے آکر ایک فلم پر تبصرہ کے لیے معافی مانگنی پڑی ہوگی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق حکومت کی طرف سے ہی ایک سخت پیغام تل ابیب کواور سفارت خانے کودیا گیا۔ ان کو بتایا گیا کہ فلم پر اس طرح کے تبصرہ کو  ‘غیر دوستانہ’ قدم تصور کیا جائے گا، جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑے گا۔ ایک سفارت کار کو ایک فلمساز کے بیان کے لیے کٹہرے میں کھڑا کرنا شاید دنیا کی سفارتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا۔

اس متنازعہ فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار وویک اگنی ہوتری ا ور ایک اداکار انوپم کھیر نے تو اس کو یہودیوں کے ہولوکاسٹ سے جوڑ لیا۔ انصاف تو یہ ہے کہ 30سال کے عرصہ میں 250افراد کی ہلاکت کیسے ہولوکاسٹ یا جینوسائڈ کے زمرے میں ڈالی جاسکتی ہے؟

اسی دوران پھر جو ایک لاکھ کے قریب کشمیری مسلمان بھی ہلاک ہو چکے ہیں، ان کو کس زمرے میں ڈالا جائےگا۔

مودی حکومت کی ایما پر اسرائیلی سفیر نے لیپڈ پر الزام لگایا کہ اس نے ہندوستان کی مہمان نوازی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔  سفیر کو برسرعام کہنا پڑا کہ فلم پر لیپڈ کی سخت تنقید اس کے اسٹاف کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔

مگر ایک عبرانی نیوز ویب سائٹ وائی نیٹ سے فون پر بات کرتے ہوئے لیپڈ نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ اس نے کہا جو کچھ اس فلم فیسٹیول میں ہو رہا تھا یا اس کے بیان کے بعد جو طوفان کھڑا ہوا ہے، وہ پاگل پن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر فائلز ایک ایسی فلم تھی، جس کو چاہے حکومت نے نہیں بنایا ہو، مگر اس کو آگے بڑھانے میں سرکاری مشینری پیش پیش تھی، جو ایک بنیادی جواز فراہم کرتی ہے کہ کشمیر میں جاری ہندوستانی پالیسی میں فاشزم کا عنصر نمایا ں ہے۔

لیپڈ نے کہا یہ فلم پروپیگنڈہ، فاشزم اوربیہودہ پن کا بدترین امتزاج تھی۔ میں اسرائیل میں اس طرح کی فلم کا تصور نہیں کر سکتا ہوں۔ مگر اب یہ خدشہ لاحق ہے کہ اس سے متاثر ہوکر کوئی اسرائیلی فلم ساز آئندہ ڈیڑھ دو سال میں کہیں ایسی فلم نہ بنا ڈالے۔

لیپڈ کا کہنا تھا کہ جیوری ممبر اور اس کے سربراہ کے بطور وہ حیران و پریشان تھے کہ اس فلم کو کیسے پینورما سیکشن کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ان کاکہنا تھا وہ ایک فلمساز کی حیثیت سے اس فیسٹیول میں آئے تھے، نہ کہ اسرائیل کے نمائندے کے بطور۔ اگر میں اسرائیل کی نمائندگی کرنا چاہتا تو میں سفارت کاری میں آ جاتا۔ مجھے  اکثر اپنے ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

تل ابیب یونیورسٹی میں فلسفہ کی ڈگری اور لازمی فوجی خدمات دینے کے بعد ادب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ پیرس چلے گئے تھے۔ بعد میں اس نے یروشلم کے سیم سپیگل فلم اسکول سے سنیماٹو گرافی کی تعلیم حاصل کی۔ان کی فلمیں عبرانی زبان میں ہیں، اور تمام اسرائیلی سیاست اور اس کے اندر کے تضادات کو نمایا ں کرتی ہیں۔

ان کاکہنا ہے کہ جب کہ آپ کی زندگی واضح طور پر آپ کے ملک کی سیاست سے متاثر ہے، تو فلموں میں آپ کیسے ان کے بارے میں بات نہ کرکے صرف عشق و محبت وغیرہ کو ہی موضوع بنا سکتے ہیں۔سیاست یا انسداد دہشت گردی کے موضوع پر جو فلمیں اسرئیل میں بنتی بھی ہیں، ان میں بھی بس فلسطینوں کو ہی ویلین کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔

 لیپڈ کی پہلی فلم2011  میں ریلیز ہونے والی پولیس مین تھی۔جس کی شوٹنگ کے دوران ہم سدیرات میں موجود تھے۔  یہ دراصل اسرائیلی کے ایلیٹ انسداددہشت گرد یونٹ کے اہلکاروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس یونٹ کا ایک اہلکار کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔

جب ایک آپریشن میں کسی دہشت گر د کو مارنے کے وقت کئی بے قصور افراد اور بچے مارے جاتے ہیں، تو اس کینسر زدہ اہلکار کو تیار کیا جاتا ہے کہ وہ قصور اپنے سر لے تاکہ باقی اہلکار بری ہوجائیں۔ اسی طرح ایک ارب پتی کی بیٹی کے اغوا کا واقعہ پیش آتا ہے۔ آپریشن کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اغوا کا واقعہ کسی بائیں بازو کے ایک یہودی گروپ نے انجا م دیا تھا، جو ملک میں تبدیلی چاہتا تھا۔ یہ کسی فلسطینی کا کیا دھرا نہیں تھا، جن پر دہشت گردی کا الزام ڈالا جاتا ہے، بلکہ اسرائیل کے اندر کے سسٹم سے پریشان آوازیں تھیں۔

ان دنوں اس ملک میں ہزاروں لوگ زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ان کی دوسری فلم کنڈرگارٹن، جو ایک استاد اور کم عمر طالب علم کی کہانی پر مبنی ہے، پر ان کو 2014میں اسی فلم فیسٹیول میں بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ ملا۔ اس فلم نے دنیا میں 20سے زائد بین الاقوامی ایوارڈ جیتے۔

سال 2019 میں ان کی تیسری فلم سین نانیمز اسرائیل کے ایک سابق فوجی کے بارے میں ہے جو پیرس فرار ہو کر اپنے ماضی سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے 69ویں برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں مقابلے میں بہترین ٹائٹل کاانعام حاصل کیا۔2016 میں، انہیں کانز فلم فیسٹیول کے انٹرنیشنل سیکشن کی جیوری کا رکن نامزد کیا گیا۔ وہ  فرانس کا آرٹ کے شعبہ میں اعلٰی ترین اعزاز شیولیئر ڈیس  بھی وصول کر چکے ہیں۔

اس نامور فلمساز کے تبصرہ پر جس طرح حکومت بھڑک اٹھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناکام فلمساز اگنی ہوتری کی فلم پر تنقید کو خود ہندوستان پر حملہ تصور کیا جائےگا۔ حیرت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کسی فلم پر ایک سند یافتہ فلمساز کی تنقید کوبرداشت نہیں کر پارہی ہے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

ایک کشمیری فلم میکر سنجے کاک کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ  1998 میں وندھاما میں 23 اور 2003 میں ندیمرگ میں 24 کشمیری پنڈت مرد و وعورتو ں کو قتل کیا گیا، مگر اس کے باوجود کم از کم 4000 کشمیری پنڈتوں نے کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ وہ کشمیر میں محفوظ بستیوں میں نہیں بلکہ پوری وادی میں اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ ابھی تک چین سے رہتے آئے  ہیں۔ ان کے مسلمان پڑوسیوں کے لیے بھی زندگی آسان نہیں ہے۔

کاک کے مطابق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ 1990 سے پہلے قبل  وادی میں پانچ سے سات لاکھ کشمیری پنڈت رہتے تھے۔ جبکہ مردم شماری یا سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزا ر کے قریب تھی۔ کشمیر فائلز کے بعد جو طوفان بد تمیزی برپا ہوا، بتایا گیا کہ چار ہزار کے قریب پنڈت مارے گئے، مگر جموں و کشمیر پولیس کے مطابق ان کے پاس 89 مقتولین کا ریکارڈ ہے۔

ہندوستان کی وزارت داخلہ کے مطابق  1990 سے 2022تک مہلوکین کی تعداد 270 ہے۔ کشمیری پنڈتوں کی تنظیمیوں کے مطابق یہ تعداد سات سو کے لگ بھگ ہے۔ ایک طرف یہ فلم بتاتی ہے کہ اس نے ایک سچائی کو دنیا کے سامنے رکھا ہے اور یہ کئی سو افراد کی تحقیق پر مبنی فلم ہے، دوسری طرف اس کے پہلے ہی شارٹ میں ڈس کلیمر بھی دیا گیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ فلم… تاریخی واقعات کی درستگی یا حقیقت کا دعویٰ نہیں کرتی۔مگر ایک  ایسا ہیجان برپا کر دیا گیا کہ تھیٹر میں فلم دیکھنے کے بعد ا یک ویڈیو میں ایک شخص فلم ختم ہونے کے بعد  چیختے ہوئے کہتا ہے کہ میری ہندو بھائیوں سے اپیل ہے کہ ان (مسلمانوں) سے ہوشیار رہیں، یہ کبھی بھی ہم پر حملہ کرسکتے ہیں۔

                بقول سنجے کاک کشمیر کی تین دہائی کی حالیہ تاریخ میں سے چند خوفناک واقعات کو چن کر، اور انہیں ایک خوفناک داستان کی صورت میں پیش کرکے دوربین سے بڑھا چڑھا کر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک عسکری کمانڈر کو ایک عورت کو کچے ہوئے چاول نگلنے پر مجبور کرتا ہے، جس میں اس کے مقتول شوہر کا خون لگا ہوتا ہے۔ یہ واقعہ 1990 میں بی کے گنجو کے وحشیانہ قتل کا حوالہ دیتا ہے۔ اس کو چاول کے ڈرم میں چھپتے ہوئے مار دیا گیا تھا۔ خون میں بھیگے ہوئے چاولوں کے ساتھ اس کو نیا موڑ دیا گیا۔

اس فلم کی ریلیز کے بعد جب گنجو کے بھائی سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ اس نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سنا  اور نہ ہی اس کی بھابھی نے کبھی اس کا ذکر کیا تھا۔ فلم میں دکھایا گیا کہ راشن ڈپو میں، پریشان حال کشمیری پنڈت خواتین کے ایک گروپ کو ان کے مسلمان پڑوسیوں نے اناج تک رسائی سے انکار کر دیا۔یعنی کشمیری مسلمانوں پر نسلی و فرقہ وارانہ منافرت کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو اپنے ناظرین کو ایک تو شدید تشدد کے مناظر سے دوچار کرتی ہے، دوسرا تھیٹر میں ہندو قوم پرست جماعتوں کے نمائندے ایک ہیجا ن برپا کردیتے ہیں۔

کاک کا کہنا ہے کہ اگرچہ خوفناک سانحات کئی لوگوں کے ساتھ پیش آئے، لیکن زیادہ تر کشمیری پنڈت خاندانوں کو ان کے مسلمان پڑوسیوں نے دھوکہ نہیں دیا۔ مندروں اور گھروں میں توڑ پھوڑ یا لوٹ مار نہیں کی گئی۔ اگرچہ میڈیا، بیوروکریسی اور پولیس اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہے ہوں گے، جیسا کہ فلم بتاتی ہے، مگر پوری آبادی پنڈتوں کے ظلم و ستم میں ملوث نہیں تھی۔

 یہ صحیح ہے کہ اکثریتی فرقہ یا برادری پر اقلیتی برادری کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر جس جگہ پرفوج اور پولیس کے ظلم و ستم کی شکار اکثریتی برادری خود ہی ادھار کی زندگیاں گزار رہی ہو، وہ کیسے پنڈتوں کی زندگیوں کی ضمانت دے سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1990 کی دہائی میں کشمیر میں جو کچھ ہوا وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تنازعہ نہیں تھا۔ یہ ہندوستانی ریاست کے خلاف بغاوت تھی۔ یہ راتوں رات برپا نہیں ہوئی، بلکہ اس کی ایک خونچکاں تاریخ تھی، جواکثریتی فرقہ کے لہوسے مزیں ہے۔

 کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی طوائف الملوکی کے ساتھ خوف کی فضا طاری ہوگئی تھی۔ عسکریت پسندی پر کسی کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث، آوارہ، اوباش اور غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد توبغیر کسی مقصد، محض ہیرو بننے کی غرض سے یا کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت میں شامل ہوگئے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری تنظیمیں تھیں۔

اس طوائف الملوکی کو مزید ہوا دینے میں ہندوستانی ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ 1989 میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے ہندوستان کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کرادیا۔ہند نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموں اور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔اس انارکی کا خمیازہ کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔

بقول سنجے کاک اگر غور سے دیکھا جائےتو کشمیر فائلز فلم  ایک  بڑے ایجنڈے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ اس فلم کے آخر میں اس کے مرکزی کردار، کرشنا کی طرف سے دیے گئے ایک طویل مونولوگ میں  بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان کی تمام عظمت کشمیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور یہیں پر قدیم زمانے میں ہر چیز پروان چڑھی۔ مسلم سلاطین کے دور کو ایک تاریک دور بتایا گیا ہے اور کشمیر کا وطن، نہ صرف کشمیری پنڈتوں بلکہ تمام ہندوؤں کے لیے مقدس ہے۔

یعنی اس خطہ کو ہندوتوا کے فلسفہ کے منبع  طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم ایک تہذیبی پروجیکٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو کشمیری آبادی کی انفرادیت اور تشخص کو کچلنے اور چھینے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔

کوئی ان سے پوچھے اگرتیس سالوں میں ڈھائی سو افراد کا قتل نسل کشی یا ہولو کاسٹ ہے، تو اسی مدت کے دوران ایک لاکھ کشمیری یا سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق 40 ہزار مسلمانوں کی ہلاکت کس زمرے میں ڈالی جاسکتی ہے؟جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں 1500 کے قریب غیر پنڈت ہندو، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان خطوں میں آبادی کا کوئی انخلا  کیوں نہیں ہوا؟  1947میں  جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی، جس کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔

دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948کی ایک رپورٹ کے مطابق ان فسادات میں چند ماہ کے اندر دو لاکھ37ہزار افراد ہلاک ہوئے۔جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردارادا کیا۔ وہ خود مسلمانوں پر گولیاں چلارہے تھے۔

اودھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار اودھے سنگھ اور مہاراجہ کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ خود اس قتل عام کی نگرانی کررہے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ انہی دنوں اس کے برعکس وادی کشمیر میں عام کشمیر ی مسلمان پنڈتوں کو بچانے کے لیے ایک ڈھال بنے ہوئے تھے۔

ویسے کشمیر میں ہندو اور مسلمان میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ الگ الگ بستیوں کے بجائے دیہاتوں و قصبوں میں دونوں فرقے ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی کی خانقاہوں، شیخ نورالدین ولی اور سرینگر شہر کے قلب میں کوہ ماراں پر شیخ حمزمخدوم کی درگاہوں پر کشمیری پنڈتوں کا بھی جم غفیر نظر آتا تھا۔ کشمیر ی کی معروف شاعرہ لل دید، تو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ہندو تھی یا مسلمان۔ اس کا پورا کلام ہی وحدانیت پر مشتمل ہے۔

کشمیر میں اسلام کی آمد 14ویں صدی میں اس وقت ہوئی،جب بدھ مت اور برہمنوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی جاری تھی۔ اس دوران جب بلبل شاہ اور بعد میں میر سید علی ہمدانی نے اسلام کی تبلیغ کی، تو عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اس کو لبیک کہا۔ یہ شاید واحد خطہ ہوگا، جہاں ہندوں کی اعلیٰ ذاتوں نے بھی جوق در جوق دائرہ اسلام میں پناہ لی۔ لیکن برہمنوں کا ایک قلیل طبقہ بدستور اپنے دھرم پر ڈٹا رہا۔

اسی صدی میں جب شہمیری خاندان کے سلطان سکندر کے وقت ایک کشمیری برہمن سہہ بٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام سیف الدین رکھا، تو اس نے کشمیری برہمنوں کے اقتدار کو نشانہ بنا کر ان کو تختہ مشق بنایا، جس کی وجہ سے اکثر پنڈتوں نے ہجرت کی۔ مگر سلطان سکندر کے فرزند زین العابدین جنہیں بڈشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی اس پالیسی کو ختم کرواکے، ان کشمیری پنڈتوں کو واپس لینے کیلئے وفود بھیجے اور ان کو دربار میں مراعات اور عہدے بخشے۔

اپنی خود نوشت سوانح حیات آتش چنار میں شیخ عبداللہ رقم طراز ہیں کہ کشمیر پنڈتوں کے اقلیتی کمپلکس کو ابھارنے میں مغل بادشاہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ کشمیری مسلمان امراء سے خائف رہتے تھے۔ مغل فرمانروا اکبر نے آدتیہ بٹ کو کشمیر کی جاگیروں کی نگہداشت پر مقرر کیا۔ کشمیر کے شمالی و جنوبی خطوں یعنی کمراز و مراز کے گورنر کشمیری پنڈت بنائے گئے۔

معروف مؤرخ جادو ناتھ سورکار لکھتے ہیں کہ مغل دور میں بہت کم کشمیر ی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نظر آتے ہیں۔ امور سلطنت میں مغل حکمران، کشمیری پنڈتوں پر زیادہ اعتبار کرتے تھے۔ ملکہ نو ر جہاں کی ذاتی محافظ دستے کا سربراہ میرو پنڈت ایک کشمیری برہمن تھا۔ پنڈتوں کی بالادستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری رہی۔ اس کے دور میں مہیش شنکر داس پنڈت کا طوطی بولتا تھا۔ افغانوں کا دو ر حکومت تو کشمیر میں ظلم و ستم کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر ان کے دربار میں بھی کشمیری پنڈت ہی حاوی تھے۔

بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ حاجی کریم داد خان کا پیش کار پنڈت دلا رام تھا۔ افغان دور میں تو قبائلی علاقوں میں کشمیر ی پنڈت نند رام نکوکے نام پر سکے ڈھالے گئے تھے، جو غالباً 1810تک جاری تھے۔ مؤرخ جیالال کلم کا کہنا ہے کہ افغان دور میں کشمیری پنڈت حکومت پر چھائے رہے اور سیاسی طاقت ان کے ہاتھوں میں تھی۔ جب ایک افغان صوبیدار عطا محمد خان نے اس کے خلاف بغاوت کی اور کشمیری مسلمانوں کو بھی سیاسی طاقت میں حصہ دینے کی سعی کی تو کشمیری پنڈت امراء اس کے خلاف کابل پہنچے اور اپنے ساتھ ایک بڑا لشکر لا کر اس کو کچل دیا۔

افغانوں کے زوال کے بعد پنڈت بیربل در نے سکھوں کو کشمیر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی۔ مہانند جو در،سکھ دربار کا خاصا معتمد اور حاکم تھا۔ جب سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا، تو ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ نے بیربل کاک کے بیٹے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنا کر بھیجا۔جس نے شال بافی صنعت پر ٹیکس لگا کر، کشمیری کاریگروں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔

انگریز سرویر جنرل والٹر لارنس، جو ان دنوں کشمیر میں تھے، لکھتے ہیں کہ کشمیر کی ساری سیاسی قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ”مسلمان کاشت کار یا مزدور ہے اور اس کو برہمنوں کے آرام و آسائش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے۔ “

مگر جب اسی دو ر میں کشمیری پنڈتوں کو پہلی بار پنجاب سے آئے انگریزی جاننے والے ہندو افسران سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا، تو انہوں نے اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کیا، جس کا مقصد تھا کہ صرف ریاستی باشندوں کے نوکری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ چونکہ مسلمان ان دنوں ان پڑھ تھے، اور ان کا سرکاری نوکریوں کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا، اس لیے ان کے ساتھ کسی مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا، تو ان ہی پنڈتوں نے اسی اسٹیٹ سبجکٹ قانون کے خلاف زمیں و آسمان ایک کر دیے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو پنڈتوں کا ایک بڑا حصہ  احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

اگر اس مسئلہ کو ہندوستان کی عینک یا مفادات کے ذریعے بھی دیکھا جائے تو کشمیری پنڈت، کشمیر کی اکثریتی آبادی اور نئی دہلی کے درمیان ایک مضبوط پل کا بھی کام کرسکتے تھے۔ مگر بقول شیخ عبداللہ ان میں سے اکثر کو حکمرانوں کی خدمت اور اپنے ہم وطنوں کی جاسوسی کرنے میں ہی سکون ملتا رہا ہے۔ جو ان کو اپنے وطن سے بیگانہ کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔وقت ہے کہ پنڈتوں کو اپنا دامن دیکھ لینا چاہیے کہ آخر دونوں فرقوں کے بیچ نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟