خبریں

مہوا موئترا نے حکومت سے معیشت کی حالت کے بارے میں پوچھا: اب ’اصلی پپو‘ کون ہے

ٹی ایم سی ایم پی  مہوا موئترا نے لوک سبھا میں اقتصادی اشاروں اور اقتصادی صورتحال کے علاوہ کئی  دوسرےمسائل پر مودی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کسی کو کمتر ثابت کرنے کے لیے’پپو’ لفظ  کااستعمال کیا گیا تھا۔ آج اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ ‘اصلی پپو’ کون ہے۔

لوک سبھا میں ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا۔ (تصویر: اسکرین گریب/سنسد ٹی وی)

لوک سبھا میں ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا۔ (تصویر: اسکرین گریب/سنسد ٹی وی)

نئی دہلی: ترنمول کانگریس ایم پی  مہوا موئترا نے اقتصادی اشاروں  اور معیشت کو سنبھالنے کے سرکار کے طور طریقوں کو لے کر منگل کو سرکار کو نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ اب ‘اصلی پپو’ کون ہے؟

لوک سبھا میں 2022-23 کے لیے گرانٹس کے ضمنی مطالبات اور 2019-20 کے لیے اضافی مطالبات پرسوموار کوا دھوری رہ گئی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئےمہوا موئترا نے کہا، کسی کوکمتر ثابت کرنے کے لیے ‘پپو’ لفظ کا استعمال کیا گیا تھا۔ اعداد و شمار سے ظاہرہے کہ ‘اصلی پپو’ کون ہے۔

مہوا نے کہا، ‘ای ڈی کا استعمال اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو ہراساں کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ بتایا جانا چاہیے کہ ای ڈی کے معاملوں میں سزا کا فیصد کتنا ہے؟ کیا صرف لوگوں کوپریشان کرنے کے لیےاس ایجنسی کا استعمال ہو رہا ہے؟ اصلی پپو کون ہے؟

انہوں نے سوال کیا کہ حکومت اضافی ریونیو پیدا کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے، بالخصوص ٹیکس سے قطع نظرسرکاری  ریونیو کے لیے کیا کر رہی ہے؟

موئترا نے کہا، ‘وزیر خزانہ نرملا  سیتا رمن نےسوموار کو وقفہ سوال کے دوران ذکر کیاکہ کس طرح ابھرتے بازاروں میں غیر ملکی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کی آمد کا 50 فیصد ہندوستان آ رہا ہے، لیکن حکومت نے گزشتہ جمعہ کو ایک سوال کے جواب میں ایوان میں بتایا تھا کہ پچھلے نو سالوں میں لاکھوں لوگوں نے ہندوستان کی شہریت ترک کر دی ہے۔ موئترا نے کہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے لوگ شہریت  کیوں چھوڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘اس حکومت میں 2014 سے لے کر گزشتہ نو سالوں میں ہندوستانی شہریت ترک کرنے والے ہندوستانیوں کی کل تعداد 12.5 لاکھ سے زیادہ ہے۔ کیا یہ صحت مند اقتصادی ماحول یا صحت مند ٹیکس کی علامت ہے؟ اب پپو  کون ہے؟’

موئترا نے کہا، ‘ہم عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حکومت کی نااہلی پر سوال اٹھانا ہمارا حق ہے۔ جواب دینا حکومت کا  فرض ہے۔وہ  ‘کھسیانی  بلی’ کی طرح  برتاؤ نہ کرے۔

حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج بالخصوص ہماچل پردیش کے انتخابی نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘حکمران پارٹی کے صدر اپنی آبائی ریاست کو نہیں بچا سکے، انہیں وہاں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب ‘اصلی پپو’ کون ہے؟

معلوم ہو کہ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کا تعلق ہماچل پردیش سے ہے۔

مہوا نے کہا کہ سرکار وہ ہونی چاہیے جو ‘مضبوط اخلاقیات’، ‘مضبوط امن و امان’ اور ‘مضبوط معیشت’ کو یقینی بنائے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، مہوا نے بی جے پی لیڈروں پر حقیقی اعداد و شمار پر توجہ دیے بغیر نوٹ بندی کے ‘فائدوں’ کے بارے میں جھوٹ پھیلانے کا الزام لگایا۔

موئترا نے کہا، ‘آپ نے کیش لیس ڈیجیٹل اکانومی کے مقاصد حاصل نہیں کیے ہیں۔ آپ نے اپنے ‘دھماکہ’ اعلان کے چھ سال بعد بھی جعلی کرنسی کو ختم کرنے کے مقصدکو حاصل نہیں کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چلن میں رہی کرنسی نومبر 2016 کے 18 لاکھ کروڑ روپے سے دوگنی ہو کر نومبر 2022 میں 32 لاکھ کروڑ روپے ہو گئی ہے۔

ٹی ایم سی ایم پی نے مزید کہا، ‘ہر فروری میں حکومت لوگوں کو یقین دلاتی ہے کہ ملک کی معیشت بہت اچھی طرح سے چل رہی ہے۔ ہم سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے، سب سے زیادہ ماہرعالمی کھلاڑی ہیں، سب کو روزگار، سلنڈر، بجلی اور پکے گھر مل رہے ہیں۔ یہ جھوٹ آٹھ سے دس ماہ تک چلتا رہتا ہے اور اس کے بعد سچ لنگڑا کر سامنے آ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آج دسمبر چل رہا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ اسے بجٹ کے تخمینوں سے اوپر اضافی 3.26 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔’

قومی شماریات کے دفتر (این ایس او) کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئےانہوں نے دعویٰ کیا کہ اکتوبر میں صنعتی پیداوار میں چار فیصد کی کمی  واقع ہوئی، جو کہ 26 ماہ میں سب سے کم ہے۔ جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر، جو اب بھی سب سے بڑا روزگار پیدا کرنے والا  رہا ہے، 5.6 فیصد تک سکڑ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 72 ارب ڈالر کی کمی واقع  ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا،صنعتی پیداوار کا اشاریہ (آئی آئی پی) بنانے والے 17 صنعتی شعبوں میں منفی شرح نمو ریکارڈ کی گئی ہے۔ این ایس او کی طرف سے جاری کردہ آئی آئی پی کے اعداد و شمار کے مطابق،اکتوبر 2022 میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کی پیداوار میں 5.6 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ ایک سال پہلے  مہینے میں 3.3 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی تھی۔

مہوا نے الزام لگایا کہ آج ملک میں ‘دہشت کا ماحول’ ہے جہاں تاجروں اور اونچی –نیٹ ورتھ والے افراد کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کے سروں پر ای ڈی کی تلوار لٹکی ہوئی  ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)