خبریں

امریکی کمیشن نے چوتھی بار ہندوستان کو ’خصوصی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی

یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2022 میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال بدتر ہوتی چلی گئی۔ ریاستی اور مقامی سطحوں پر مذہبی طور پرامتیازی پالیسیوں کو فروغ دیا گیا۔

یو ایس سی آئی آر ایف کا لوگو۔ (بہ شکریہ: متعلقہ ویب سائٹ)

یو ایس سی آئی آر ایف کا لوگو۔ (بہ شکریہ: متعلقہ ویب سائٹ)

نئی دہلی: لگاتار چوتھے سال یو ایس سی آئی آر ایف نےصلاح دی  ہے کہ اس سفارش کو 2020 سےقبول نہیں  کیے جانے کے باوجود، امریکی انتظامیہ کو ہندوستان کو ‘خصوصی تشویش والے ملک’ (کنٹریز آف پرٹیکلر کنسرن– سی پی سی)کے طور پر نامزد کرنا چاہیے۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے مذہبی آزادی پر اپنی سالانہ رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ سے کئی دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کی حالت پر ہندوستان کو ‘خصوصی تشویش والے ملک’ کے طور پر نشان زد کرنے کے لیے کہا۔

رپورٹ کے مطابق،یو ایس سی آئی آر ایف نے سوموار کو پیش کی گئی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اس نے ایران اور پاکستان سمیت  12ممالک کو سی پی سی کے طور پر دوبارہ نامزد کرنے کی سفارش کی ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے افغانستان، نائیجیریا، سیریا، ویتنام اور ہندوستان کے لیے پانچ اضافی سی پی سی اسٹیٹس کی سفارش کی۔ پہلی بار یو ایس سی آئی آر ایف نے سری لنکا کو ‘خصوصی واچ لسٹ’ یا ایس ڈبلیو ایل میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

یو ایس سی آئی آر ایف کی 2023 کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال بدتر ہوتی چلی گئی۔ ریاستی اور مقامی سطح پر مذہبی طور پر امتیازی پالیسیوں کو فروغ دیا گیا اور نافذ کیاگیا۔جس میں تبدیلی مذہبی، بین المذاہب تعلقات، حجاب پہننے، اورگئو کشی کو نشانہ بنانے والے قانون شامل ہیں، جو مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور آدی واسیوں (شیڈولڈ ٹرائب) کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں اور ان پرمنفی اثر ڈالتے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے افغانستان، نائیجیریا یاسیریاکے ساتھ ساتھ ہندوستان کو سی پی سی اسٹیٹس کے لیے نامزد نہیں کیا ہے، جبکہ ‘یو ایس سی آئی آر ایف نے ایسا کرنے کی سفارش کی ہے اور ان ممالک میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی نوعیت اور شدت کو دستاویزی صورت میں پیش کرتے ہوئے رپورٹ بھی دی تھی۔

غورطلب ہے کہ یو ایس سی آئی آر ایف 2020 سے ہندوستان کو اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کر رہا ہے۔ ہندوستان کے علاوہ امریکی محکمہ  کافی حد تک نائیجیریا اورسیریا کے لیے بھی یو ایس سی آئی آر ایف کی سفارشات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ ان دونوں کو بالترتیب 2009 اور 2014 سے ‘خصوصی تشویش والے ممالک’ کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

مزید برآں، امریکہ نے 2022 سے افغانستان کے بارے میں ایسے ہی مشورے دینے سے انکار کر دیا ہے، جبکہ یہ  ملک اب طالبان کی حکومت کے ماتحت ہے۔ طالبان کی ‘خصوصی تشویش کی اکائی ‘ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے، لیکن افغانستان کو ‘خصوصی تشویش’ والے ملک کے طور پر نامزد نہیں کیاگیا ہے کیونکہ اس کا مطلب سرکاری طور پریہ  تسلیم کرنا ہوگا کہ وہاں طالبان کی حکومت ہے۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے یاد دلایا کہ نومبر 2022 میں اس نےاس بات پر شدیدمایوسی کا اظہار کیا تھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ہندوستان اور نائیجیریا کو ‘خصوصی تشویش’ والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے میں ناکام رہا۔

قابل ذکر ہے کہ یو ایس سی آئی آر ایف، عالمی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور انکشاف کرنے کے لیے  ذمہ دار ایک خود مختار اور کراس پارٹی وفاقی حکومت کا ادارہ ہے، جس کی ہدایات کو ماننے کے لیے امریکی محکمہ خارجہ پابند نہیں ہے۔

اتفاق سے امریکی محکمہ خارجہ کے پاس ان ممالک پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی چھوٹ ہے جنہیں ‘خصوصی تشویش’ والے ممالک کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر محکمہ نے ‘خصوصی تشویش’ والے ممالک کے طور پر نامزد 12 میں سے چار ممالک کو پابندیوں سے چھوٹ دی ہے۔

سوموار کو رپورٹ جاری کرتے ہوئے یو ایس سی آئی آر ایف کی صدر نوری ترکل نے بائیڈن انتظامیہ سے اپیل کی  کہ – خاص طور پر خصوصی تشویش والے ممالک کو خصوصی واچ لسٹ  کے لیے سفارش کیے گئےممالک کو نامزد کرنے اور چار ‘خصوصی تشویش والے’ نامزد ممالک کے بارے میں امریکی پالیسی کا جائزہ لینے کے لیے ‘ جن کے لیے کوئی کارروائی کرنے پر چھوٹ جاری کی گئی تھی۔

سالانہ رپورٹ کے انڈیا سیکشن میں یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا کہ ہندوستان کے آئین نے ملک کو ایک سیکولر، جمہوری ریاست کے طور پر قائم کیا ہے اور اس میں جوآئینی دفعات ہیں جو مذہب کی آزادی فراہم کرتی ہیں۔ ان سیکولر اصولوں کے باوجود 2014  کے بعد سے حکومت ہند – بی جے پی کی قیادت میں – اقلیتی گروہوں کی مذہبی آزادی کو مجروح کرنے والی قومی اور ریاستی سطح کی پالیسیوں کی سہولت اور حمایت کرتی ہے۔

مزید، کمیشن نے کہا کہ حکومت نے تنقیدی آوازوں ، خاص طور پر مذہبی اقلیتوں اور  کی جانب سے وکالت کرنے والوں کی نگرانی، ہراسانی، املاک کو مسمار کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت نظر بندی کے ذریعے کو دبانا جاری رکھا اور غیر سرکاری تنظیموں کو غیر ملکی کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کے تحت نشانہ بنایا۔

پچھلے سالوں کی طرح یو ایس سی آئی آر ایف نے ہندوستان کے حوالے سے امریکی حکومت کو چار سفارشات کیں۔ ہندوستان کو ‘خصوصی تشویش والے ملک’ کے طور پر نامزد کرنے کے ساتھ اس نے امریکی حکومت سے جاری مذہبی آزادی کی جاری خلاف ورزیوں کی مذمت کرنے اور ہندوستانی سرکاری اہلکاروں اور ایجنسیوں پر ہدفی پابندیاں عائد کرنے کی بھی اپیل کی۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے امریکی کانگریس سے امریکہ اور ہندوستان کے باہمی تعلقات میں مذہبی آزادی کے مسائل کو اٹھانے اور شنوائی ، بریفنگ، خطوط اور کانگریسی وفود کےتوسط سے خدشات کو اجاگر کرنے کی بھی اپیل کی۔

اکتوبر 2019 میں ایشیا پیسیفک پر اقوام متحدہ کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی نے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے بعد کشمیر میں وسیع پیمانے پر مواصلاتی بلیک آؤٹ اور اس وقت کے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کے پس منظر میں ہندوستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر ایک متنازعہ سماعت کی تھی۔

اس سے قبل یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی 2022 کی سالانہ رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ امریکی محکمہ خارجہ ہندوستان کو ‘خصوصی تشویش’ والے ممالک کی فہرست میں ڈالے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘2021 میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال کافی خراب ہو گئی تھی۔ 2021 میں حکومت ہند نے ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دیتے ہوئے ایسی پالیسیوں کو مشتہر کیا جس سے مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اس نے یہ بھی کہا تھا، (ہندوستانی) حکومت نے موجودہ اور نئے قوانین اور ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف متعصب تبدیلیوں کے ذریعے قومی اور ریاستی سطح پر ہندوراشٹر کے اپنے نظریاتی وژن کو منظم کرنا جاری رکھا۔

تاہم، ہندوستان نے کمیشن کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اقلیتوں کی حالت پر اس کے تبصرے متعصبانہ اور جانبدارانہ ہیں۔