اب تک جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے 13 متاثرہ مساجد کا دورہ کیا ہے، اور بتایا ہے کہ صرف پلول میں 6 مساجد نذر آتش کی گئیں، ہوڈل میں تین مساجد ، سوہنا میں تین مساجد، اور ایک مسجد گروگرام میں جلائی گئی۔ وفد کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد کے دوران مذہبی کتابوں کو جلایا گیا اور تبلیغی جماعت کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔
غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح تشدد کے بعد متاثرہ علاقے میں جاری انہدامی کارروائی پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نےکہا کہ لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے کا استعمال ضروری قانونی ضابطوں کی پیروی کیے بغیر عمارتوں کو گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
نوح تشدد کے باعث جاری کشیدگی کے درمیان حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گڑگاؤں میں اتوار کو ایک ‘ہندو مہاپنچایت’ کاانعقاد کیا گیا،جس میں مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ دنوں ایک مسجد پر حملہ کرنے والے لوگ بے قصور ہیں۔
ہریانہ کے نوح میں31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا اور کچھ نیوز ویب سائٹ پر ایسے دعوے کیے جا رہے تھے کہ نلہر مہادیو مندر میں پھنسی خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا، پولیس نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
اس ہفتے ہریانہ کے نوح میں تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ نے جمعہ کو مکان اور املاک کو مسمار کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ ایک طرف کچھ اہلکار کہہ رہے ہیں کہ توڑ پھوڑ کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے تو دوسری طرف کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ کچھ املاک کے مالکان تشدد میں ملوث تھے۔
سوموار کو نوح میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد ریاست کے وزیر داخلہ انل وج نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم فسادیوں نے نلہر مہادیو مندر میں تقریباً 3-4 ہزار لوگوں کو یرغمال بنایا تھا۔ مندر کے پجاری نے دی وائر کو بتایا کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں پھنسے ہوئے تھے۔
ہریانہ کے نوح اور گڑگاؤں علاقوں میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان منگل کو گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں بریانی بیچنے والی دکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور بسئی روڈ کے پٹودی چوک پردکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔ دریں اثنا،گڑگاؤں ضلع کے تمام پٹرول پمپوں پر کھلے ایندھن کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
ویڈیو: دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند بتا رہے ہیں کہ کس طرح ہندو تہواروں کا استعمال فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ویڈیو: ہریانہ اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سےگڑگاؤں کےبنجارہ مارکیٹ کو ہٹایا جا رہا ہے۔اس مارکیٹ میں گھر کی سجاوٹ کا سامان ملتا ہے۔یہاں سامان بیچنے والے لوگ اس واقعہ سے پریشان ہیں۔ ان کی تشویش ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی کیسے کمائیں گے۔
گزشتہ دو اگست کوگڑگاؤں کے کچھ مقامی لوگوں نے اتر پردیش سے آئے دو مہاجر مزدوروں کو اغوا کرکے ان پر ایک لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگاتے ہوئے بے رحمی سے پیٹا تھا۔اس کی وجہ سے 21 سالہ انج گوتم کی موت ہو گئی اور ان کے بہنوئی سنجے بری طرح زخمی ہو گئے۔
تیسرے شخص کی حالت بہت نازک ہے اور ان کا علاج چل رہا ہے۔ ابھی اس معاملے میں کیس درج کیا جا نا باقی ہے۔
ویڈیو:دی وائر ویڈیو سیریز ’سڑک سے سنسد – میرا ووٹ میری بات‘ کی اس کڑی میں کہانی نوح گاؤں کے میو مسلمانوں کی۔نیتی آیوگ کے ذریعے ملک کے سب سے پسماندہ 101 ضلعوں کی فہرست میں یہ حصہ بھی آتا ہے۔یہاں کے لوگ غریبی ،تعلیم اور بنیادی سہولیات کی […]
ماحولیاتی شعبہ کی غیر سرکاری تنظیم گرین پیس انڈیا اور AirVisual کی طرف سے حال ہی میں کیے گئے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ دہلی سے نزدیک گروگرام دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہے۔
گروگرام میں اس سے پہلے بھی نماز پڑھنے کو لے کر تنازعہ ہوچکا ہے ،لیکن نئے معاملے میں تنازعہ مسجد میں ہونے والی اذان کو لے کر ہے۔
غنڈوں نے مسلم نوجوان کو دکان میں رکھی کرسی سے باندھ دیا۔ اور پھر نائی سے اس کی داڑھی زبردستی کٹوا دی۔
ملک کی سیکولر سیاست کی ان ‘متنازعہ‘ احاطوں پر اوڑھی گئی خاموشی نے ہندوتوا کے لئے راستہ آسان کر دیا ہے۔ آج کے وقت میں ہندوتوا کے سامنے کسی بھی قسم کا کوئی چیلنج نہیں ہے۔
گزشتہ جمعہ کو گڑگاؤں میں نماز کے دوران خلل ڈالنے والے شر پسند عناصر کو مقامی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔