خبریں

نوح: انہدامی کارروائی پر پابندی لگاتے ہوئے ہائی کورٹ نے پوچھا – کیا یہ نسلی تطہیر کا کوئی طریقہ تھا

کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح تشدد کے بعد  متاثرہ علاقے میں جاری انہدامی کارروائی پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نےکہا کہ لاء اینڈ آرڈر  کے مسئلے کا استعمال ضروری قانونی ضابطوں کی پیروی کیے بغیر عمارتوں کو گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

نوح تشدد میں جلائی گئی ایک گاڑی۔ (تصویر: اتل ہووالے/دی وائر)

نوح تشدد میں جلائی گئی ایک گاڑی۔ (تصویر: اتل ہووالے/دی وائر)

نئی دہلی: پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے نوح علاقے میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد شروع ہوئی  انہدامی کارروائی  کو روکنے کا حکم دیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے علاقے میں پرتشدد جھڑپوں کے بعدہوئی  انہدامی کارروائی  کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ سماعت کے دوران، عدالت نے خصوصی طور پر حکومت سے سوال کیا کہ کیا یہ کارروائی  اس کی طرف سے ریاست میں ‘نسلی تطہیر’ (ایتھنک کلینزنگ) کا کوئی طریقہ تھا؟ نسلی تطہیر  سے مراد کسی مخصوص کمیونٹی یا گروہ کو کسی علاقے سے نکالنا ہوتا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، جسٹس گرمیت سنگھ سندھاوالیا اور جسٹس ہرپریت کور جیون کی بنچ نے کہا کہ ‘ظاہری طور پر انہدامی کارروائی  کے کسی حکم اور نوٹس کے بغیرلاء اینڈ آرڈر کے مسئلے کا استعمال قانون کے ذریعے قائم کردہ ضابطوں پر عمل کیے بغیر عمارتوں کو گرانے کے لیےکیا جا رہا ہے۔’

بتایا گیا کہ عدالت کے حکم کے بعد نوح کے ڈپٹی کمشنر دھیریندر کھڑگٹا نے عہدیداروں سے کارروائی روکنے کو کہا۔ ہریانہ میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے  اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ نوح اور گڑگاؤں میں بھی املاک کا شدید  نقصان ہوا تھا۔

خبروں کے مطابق، گزشتہ چار دنوں میں 750 سے زائد عمارتیں منہدم کی گئیں۔ جن لوگوں کے مکانات گرائے گئے ،ان میں سے کئی نے دعویٰ کیا کہ انہیں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔کئی رہنماؤں نے مقامی انتظامیہ پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔ تاہم انتظامیہ کا کہناتھا کہ وہ ‘غیر قانونی تعمیرات’ اور تجاوزات کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور کسی شخص کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔

اس سے پہلے ہریانہ حکومت کے اس اقدام کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ ہریانہ میں سوموار (31 جولائی) کو نوح میں ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ‘شوبھا یاترا’ کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں اب تک چھ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ تشدد دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گیا، اور 1 اگست کو تشدد کے دوران گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں کم از کم 14 دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا، جن میں سے زیادہ تر مسلمانوں کی تھیں۔