ویڈیو: اتراکھنڈ کے روڑکی ضلع کے دادا جلال پور گاؤں میں 16 اپریل کو ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس کے دوران پتھراؤ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ متاثرین سے بات چیت۔
اتراکھنڈ کے روڑکی ضلع کے دادا جلال پور گاؤں میں 16 اپریل کو ہنومان جینتی پر نکلی ایک شوبھا یاترا کے دوران پتھراؤ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں زیادہ تر مسلمانوں کو بھگوان پور کا علاقہ چھوڑنا پڑا ہے ۔ جو پیچھے رہ گئےہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔
واقعہ آگرہ کا ہے۔دھرم جاگرن سمنویہ سنگھ نام کےگروپ نے ساجد نامی شخص پر ایک ہندو لڑکی کو اغوا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ حالاں کہ بعد میں سوشل میڈیا پر آئے ایک ویڈیو میں مذکورہ خاتون نے اپنی جان کو خطرہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس نےاپنی مرضی سے شادی کی ہے۔
دہلی اسمبلی میں فلم کشمیر فائلز پر وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے بیان کے خلاف بی جے وائی ایم نے تیجسوی سوریہ کی قیادت میں 30 مارچ کو وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کیا تھا۔ اس دوران بی جے وائی ایم کے ارکان نے بیریکیڈ توڑ کر وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے مین گیٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
دو بی جے پی ایم ایل اے انل بناکے اور اڈگر ایچ وشواناتھ نے کرناٹک کے کچھ حصوں میں مندروں کے میلے اور دیگر مذہبی تقریبات میں مسلم تاجروں پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا ہے ۔ وشوناتھ نے اسے ‘پاگل پن’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی بھگوان یا مذہب اس طرح کی چیزیں نہیں سکھاتا۔ وہیں بناکے نے کہا کہ ہر شخص اپنا کاروبار کر سکتا ہے، یہ فیصلہ لوگوں کاہے کہ وہ کہاں سے کیاخریداری کریں۔
بھرت ناٹیم رقاصہ مانسیہ وی پی کو 21 اپریل کو ترشور کے کدلمانکیم مندر میں ایک تقریب میں پرفارم کرنا تھا، لیکن انہیں منظوری نہیں ملی، کیونکہ مندر کی روایت کے مطابق غیر ہندو احاطے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی مانسیہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی۔
وویک رنجن اگنی ہوتری بی جے پی کے پسندیدہ فلمساز کے طور پرابھر رہے ہیں اور انہیں پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
ویڈیو: ‘کشمیر اور کشمیری پنڈت’ کتاب کے مصنف اشوک کمار پانڈے نے فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے اس بات چیت میں سمجھایا کہ 1990 میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آزاد ہندوستان کی سب سے بڑی ٹریجڈی میں سےایک تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح فلم کو اقلیتوں میں عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے بھی وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے انخلاء کا باعث بننےوالے حالات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے تئیں نفرت کا جذبہ نہ رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دہلی فسادات اور گجرات 2002 کے فرقہ وارانہ تشدد کے لیے ذمہ دار حالات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
ملک کے 28 سینئر صحافیوں اور میڈیا پرسن نے صدر جمہوریہ، سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ججوں، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر قانونی اداروں سے ملک کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہورہےحملوں کو روکنے کی اپیل کی ہے۔
واضح ہو کہ آئی اے ایس افسر نیاز خان نے ‘دی کشمیر فائلز’ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر ہوئےمسلمانوں کے قتل عام کو دکھانے کے لیے ایک فلم بنائی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کیڑے مکوڑے نہیں بلکہ انسان ہیں اور ملک کے شہری ہیں۔
جس طرح سے وزیراعظم مودی کے کٹر حامی انوپم کھیر اور متھن چکرورتی کو لے کر وویک اگنی ہوتری نے 1990 میں وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کی کہانی بیان کی ہے، وہ نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کا جینا دوبھر کرایا جا رہا ہے۔
کپواڑہ ضلع سے نقل مکانی کرنے والے ایک ممتاز کشمیری پنڈت کارکن سنیل پنڈتا نے فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 20 مارچ کو فلم کی حمایت میں نکالی گئی ریلی کے دوران بی جے پی کارکنوں نے انہیں ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔
اتر پردیش کے سدھارتھ نگر ضلع کے ڈمریا گنج سے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے راگھویندر پرتاپ سنگھ کو حالیہ انتخابات میں ایس پی امیدوار سیدہ خاتون سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہندو یوا واہنی کے رہنما راگھویندر پرتاپ سنگھ کو اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی کئی مواقع پر مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی کرتے دیکھا گیا تھا۔
کرناٹک کےشیوموگامیں ‘کوٹے مری کمبا جاترا’ کی آرگنائزنگ کمیٹی نے بی جے پی، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے دباؤ میں دکانیں الاٹ کرنے کے لیے ایک ہندوتوا گروپ کو ٹھیکہ دیا ہے ۔ اس سے پہلے دکانیں مسلمانوں کو بھی دی جاتی تھیں، لیکن ہندوتوا تنظیموں نے اس کے خلاف مورچہ کھول دیا تھا۔
یوم پیدائش پر خاص:استاد بسم اللہ خاں ایسے بنارسی تھے جو گنگا میں وضو کر کے نماز پڑھتے تھے اور سرسوتی کو یاد کر کے شہنائی کی تان چھیڑتے تھے ۔اسلام کے ایسے پیروکار تھے جو اپنے مذہب میں موسیقی کے حرام ہونے کے سوال پر ہنس کر کہتے تھے ،کیا ہو اسلا م میں موسیقی کی ممانعت ہے ،قرآن کی شروعات تو’ بسم اللہ‘ سے ہی ہوتی ہے۔
معروف ایکٹر نانا پاٹیکر نے یہ بات فلم ’دی کشمیر فائلز‘ سے متعلق صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ حالاں کہ، پاٹیکر نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ابھی فلم نہیں دیکھی ہے اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر پائیں گے، لیکن کسی فلم کے سلسلے میں تنازعہ پیدا ہونا اچھی بات نہیں ہے۔
بی جے پی حامی اور پولرائز کرنے والے اس کے مواد نے فیس بک کے الگورتھم پر سستی شرح پر اشتہارات حاصل کرنے میں مدد کی، جس کی وجہ سے بی جے پی کی رسائی میں میں غیرمعمو لی اضافہ ہوا۔
لوک سبھا میں وقفہ صفر کے دوران کانگریس صدرسونیا گاندھی نے الجزیرہ اور دی رپورٹرز کلیکٹو کی فیس بک الگورتھم سے متعلق رپورٹس کا حوالہ دیا، جن میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کے مقابلے سستی شرحوں پر سوشل میڈیا کمپنی کو اشتہارات دے رہی اور اپنا پروپیگنڈہ کر رہی تھی۔
سستی شرحوں پرفیس بک نے ہندوستان میں اپنے سب سے بڑے سیاسی کلائنٹ – بھارتیہ جنتا پارٹی کو کم لاگت والے سیاسی اشتہارات کے ذریعے زیادہ ووٹروں تک پہنچنے میں مدد کی۔
فیس بک نے کئی سروگیٹ ایڈورٹائزر کو خفیہ طور پر بی جے پی کی پروپیگنڈہ مہم کو فنڈ کرنے کی اجازت دی،جس کے باعث بنا کسی جوابدہی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پارٹی کی رسائی کو ممکن بنایا گیا ۔
خصوصی رپورٹ: مکیش امبانی کی ملکیت والی ریلائنس کی مالی اعانت سے چلنے والی کمپنی نے 2019 کے عام انتخابات اور کئی اسمبلی انتخابات کے دوران فیس بک پر خبروں کی شکل میں بی جے پی کے حق میں ایسے اشتہارات چلائے جو پروپیگنڈہ اور فرضی نیریٹو سے بھرے ہوئے تھے۔
کیا معلوم کہ انتخابات کے بعدلکھنؤ برقرار رہتا ہے یانہیں؟ اس کی تہذیب کوفرقہ پرستوں سے شدیدخطرہ لاحق ہے۔اس شہر میں جہاں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے تھے، اب اپنے مخصوص علاقوں میں منتقل ہورہے ہیں۔ دیواریں کھنچ رہی ہیں۔ ہندو اب ہندو علاقے میں ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ جن مسلمانوں کے مکان ہندو اکثریتی علاقوں میں ہیں، وہ ان کو بیچ کر مسلم محلوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
سال 2021 میں اقلیتوں کے خلاف ہیٹ کرائم میں اضافہ ہوا، لیکن میڈیا خاموش رہا۔ اس سال کی ابتدا اور زیادہ نفرت سے ہوئی، لیکن اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں بلند ہوئی۔ اقلیتوں اور خواتین سے نفرت کی مہم کا نشانہ بننے کے بعد میں اپنے آپ کو سوچنے سے نہیں روک پاتی کہ کیا اب بھی کوئی امید باقی ہے؟
واقعہ چھتیس گڑھ کے کوربا ضلع کا ہے۔اس واقعہ سےمتعلق مبینہ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ کے چاروں طرف کھڑے ہو کر کچھ لوگ ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور مسلمانوں کو کام نہ دینے کا عہد لے رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق، کلیدی ملزم ہندو تنظیم سے وابستہ ہے۔
مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کے پس پردہ ، اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ اس قوم کو اس قدر ذلت دی جائے، ان کےعزت نفس کو اتنی ٹھیس پہنچائی جائے کہ تھک ہارکر وہ ایک ایسی’شکست خوردہ قوم’کے طور پر اپنے وجود کو قبول کر لیں، جوصرف اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کو مجبور ہے۔
معاملہ چھتیس گڑھ کےسرگجا ضلع کا ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو میں کئی گاؤں والے ایک جگہ پر مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کا حلف لیتے ہوئےنظر آ رہے ہیں۔ سرگجا کےپولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ پولیس نے معاملے کی جانچ شروع کر دی ہے۔ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کی شناخت کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا۔
وزارت تعلیم نے’آزادی کا امرت مہوتسو’کے زیر اہتمام30صوبوں میں سوریہ نمسکار کا ایک منصوبہ بنایا ہے،جس میں 30000 اسکولوں کو شامل کیا جائے گا۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا کہ اسلام اور ملک کی دیگر اقلیتیں نہ تو سورج کو دیوتا مانتی ہیں اور نہ ہی اس کی عبادت کو درست خیال کرتی ہیں۔اس لیے حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسی ہدایات واپس لےکر ملک کی سیکولر اقدار کا احترام کرے۔
مرادآباد کےعیدگاہ علاقے کےرہائشی ہر رات اپنے مسائل پر گفت و شنیدکے لیے اکٹھا ہوتے ہیں۔اس دوران سیاسی اور اقتصادی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
ایودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجن کو لگتا تھا کہ اس کے نام پرفرقہ وارانہ تعصب کی بلا اب ان کےسر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی،اور سیاسی طور پراس کا غلط استعمال بند ہو جائےگا، ملک کی سیاسی قیادت ان کی معصوم امیدوں پر پانی پھیرنے کو تیار ہے۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لیڈر کےطور پرمنیش تیواری یا سلمان خورشید کےعزائم نہیں ہیں یا اس کو پورا کرنے کے لیے وہ کتاب لکھنے اور اس کے سوا جو کرتے ہیں، اس کی نکتہ چینی نہیں کی جانی چاہیے ۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کےرہنماؤں کےطور پر انہیں اپنےخیالات کوپیش کرنے کی اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ رائٹر کےطورپر پارٹی لائن سے ذرا سا بھی الگ جا سکیں؟
ویڈیو: گزشتہ13نومبر کو امراوتی میں بی جے پی کی جانب سے بلائے گئے بند کے دوران جگہ جگہ بھیڑ نے پتھراؤ کیا تھا۔ مسلمانوں کی دکانوں کو آگ لگا کر تباہ کر دیا گیا۔ ہندو مندروں کو بھی مبینہ طور پر نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ویڈیو: کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بیان دیا ہے کہ جب آپ کے پاس ہندو دھرم ہے تو ہندوتوا کی کیا ضرورت ہے۔اس بیان نے ہندوتوا بنام ہندو دھرم کے پرانے مدعے کو ایک بار پھر بحث میں واپس لا دیا ہے۔ دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی نے اس ویڈیو میں اس موضوع پرتفصیل سے بات کی ہے۔
ویڈیو: دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند بتا رہے ہیں کہ کس طرح ہندو تہواروں کا استعمال فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ہندوتواکو ایک قومی خطرہ نہیں بلکہ مقامی یا انتخابی سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں ہمارے یہاں خطرے کا مطلب؛ ایٹم بم،دشمن کے جنگی طیارےاور لمبی لمبی داڑھیوں والے آدمی تھے۔ دوسروں کو پیٹ کر جبراً جئےشری رام بلوانے والے لوگ محض شر پسند نظر آتے […]
معاملہ نیمچ ضلع کےجاود تحصیل کا ہے۔پولیس نے بتایا کہ دو درجن نقاب پوشوں نےمبینہ طور پر ایک درگاہ پر دھماکہ خیز مواد سے حملہ کر کےاس کو نقصان پہنچایا ہے، ساتھ ہی اس کے خادم اور زائرین کی لاٹھی ڈنڈوں سے پٹائی کی۔ حملہ سنیچر کی شب تقریباً11 بجے سے اتوار کی صبح تین بجے تک چلا۔
اتر پردیش کےعلی گڑھ ضلع کا معاملہ۔اہل خانہ نے ایف آئی آر پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لڑکے12ویں میں پڑھتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں کے بیچ محض ‘بات چیت’ کر رہے تھے۔ اس کو لےکر بےوجہ کسی نے شکایت درج کرائی ہے۔شکایت درج کرانے والے بی جے پی رہنما نے کہا کہ ویڈیوکی وجہ سے لوگوں میں غصہ ہے اور اس کی وجہ سےمذہبی منافرت پھیل سکتی ہے۔
مبینہ طور پر‘تبدیلی مذہب کا سب سے بڑاریکٹ’چلانے کےالزام میں یوپی اے ٹی ایس نے اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو گزشتہ 21ستمبر کو میرٹھ سے گرفتار کیا تھا۔ صدیقی کے وکیل نے کہا ہے کہ پولیس ثبوت کے طور پر ان کے یوٹیوب چینل کو پیش کر رہی ہے جو پہلے سے ہی عوامی ہے اور اس میں کچھ بھی مجرمانہ یاملک کے خلاف نہیں ہے۔
یوگی حکومت کے متھرا میں میٹ بین کے فیصلے کی قانونی حیثیت پر کوئی تنازعہ نہیں ہے کیونکہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے سے موجود ہے، لیکن اس کے اصلی ارادے اورممکنہ نتائج پر یقینی طور پر بحث ہونی چاہیے کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر لوگوں کےحقوق ، ان کےروزگار اور سلامتی سےوابستہ ہے۔
راہی معصوم رضا نے ٹوپی شکلا کے پیش لفظ میں لکھا کہ ٹوپی شکلا میں ایک بھی گالی نہیں ہے مگر یہ پورا ناول ایک گندی گالی ہے جسے میں ڈنکے کی چوٹ پر بک رہا ہوں۔