گراؤنڈ رپورٹ

اتراکھنڈ: کیو ں پرولا کے مسلمان بی جے پی لیڈر ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں؟

اترکاشی ضلع کے پرولامیں ہندوتوا تنظیموں کے ذریعےمسلمانوں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچائے جانے کے بعد متعددمسلم خاندان قصبے سےجا چکے ہیں۔ ان میں بی جے پی کے اقلیتی محاذ سے وابستہ لیڈران بھی شامل ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ریاستی حکومت مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتی تو ایسا نہیں ہوتا۔

15 جون کو مجوزہ 'مہاپنچایت' کے وقت پرولا میں بند مقامی بازار ۔ (تصویر: اتل ہووالے/دی وائر)

15 جون کو مجوزہ ‘مہاپنچایت’ کے وقت پرولا میں بند مقامی بازار ۔ (تصویر: اتل ہووالے/دی وائر)

نئی دہلی: اتراکھنڈ کے اترکاشی ضلع کے پرولا میں مسلمانوں نے اپنے خلاف کھلے عام تشدد کی اپیل  کے بعد شہر سے نقل مکانی کا انتخاب کیا ہے۔ ایک مقامی تاجرمحمد سیف نے کہا، ’30 سال تک ہم یہاں سکون سے رے، لیکن اب ہمیں اپنا گھر چھوڑنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔’

سیف اور ان کے اہل خانہ نے شہر میں اپنا دو منزلہ مکان اور ہارڈویئر کی دکان خالی کر دی ہے۔ سیف جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی یہی حشر ہوا ہے۔ انہیں بھی اپنے آبائی گھر خالی کرنے پڑے ہیں، کیونکہ ان کے اپنے پڑوسی ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔

مقامی لوگوں نے دی وائر کو بتایا کہ بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ 26 مئی کواس وقت  شروع ہوا، جب ایک 24 سالہ مسلم نوجوان کو ایک لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کا ملزم پایا گیا۔

اس سے کشیدگی بڑھ گئی کیونکہ مقامی ہندو گروپوں نے الزام لگایا کہ اغوا ‘لو جہاد’ کا معاملہ تھا۔ نفرت کی مہم کو تیز کرتے ہوئے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل نےپرولا میں ایک مہاپنچایت بلائی تھی ، جس کا مقصد شہر کو مسلمانوں سے ‘صاف’ کرناتھا۔

تشدد اور توڑ پھوڑ سے بھاگنے والے مسلمان ہر طبقے  سے ہیں ، حتیٰ کہ ان میں وہ مسلمان بھی شامل ہیں جنہوں نے ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حق میں لڑائی لڑی،اورجنہوں نے بی جے پی لیڈر اور ان کے کارکن کے طور پرکام کیا۔

‘بی جے پی نے دھوکہ دیا’

سونو میر بی جے پی کے زبردست حامی تھے۔ وہ خود کو قانون کے تحت ایک برابرکے ہندوستانی شہری کے طور پر دیکھتے تھے، لیکن آج مسلمان ہونے کی وجہ سے پرولاواقع اپنے گھر سے 200 کلومیٹر دورجلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ الزام لگاتے ہوئے کہ بجرنگ دل کے کارکنوں نے ان کی موبائل فون کی دکان میں توڑ پھوڑ کی، میر کہتے ہیں،جب ہم نے دیکھا کہ کیا ہو رہا ہے، تو ہمارے پاس بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

اترکاشی ضلع میں بی جے پی کے اقلیتی محاذ کے چار بار صدر رہ چکے میر نے کہا کہ اگر ریاستی حکومت مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتی، تو اس سے بچا جا سکتا تھا۔

انہوں نے 21 سال تک اتراکھنڈ کی بی جے پی یونٹ میں مختلف عہدوں پر کام کیا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ مودی کی حکومت حقیقت میں ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ لائے گی، جیسا کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اب ان کا ماننا ہے کہ خطے میں ہندوتوا گروپوں کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں اچانک اضافہ کا مقصد ریاست میں 2023 کے آخر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو متاثر کرنا ہے۔

بی جے پی کے ایک اور کٹر حامی، جو مسلمان بھی ہیں اور اترکاشی ضلع میں بی جے پی کے اقلیتی سیل کے صدر ہیں، خود کو بچانے کے لیے راتوں رات شہر چھوڑ کربھاگے۔

محمد زاہد ملک (46 سالہ)نےدیکھا کہ حالات تیزی سے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں اس شہر میں رہتے ہوئے 30 سال ہوچکے ہیں، لیکن انہوں نے اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا۔

ملک نے کہا،’مسلمان کا نام اب مسلمان نہیں جہادی رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارا نام ہی بدل دیا گیا ہے، ہمارا نام ہی جہادی کر دیا ہے ان لوگوں نے!

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی زندگی کسی سے کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مقامی مسلمانوں کونقل مکانی  کی دھمکی دینے والے ایک پوسٹر کو دیکھ کر بھاگے ملک کولگتا ہے  کہ ریاست کی بی جے پی قیادت ان کی نقل مکانی  پرپوری طرح سے خاموش ہے۔ وہ ان کی خاموشی سے مایوس ہیں۔

‘کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے’

ملک یاد کرتے ہیں کہ پوسٹروں کے سامنے آنے سے دو دن پہلے اترکاشی کے قریب ایک اور قصبہ برکوٹ میں بھی ہنگامہ ہوا تھا۔ بجرنگ دل نے شہر میں ایک بڑا مظاہرہ کیا تھا اور مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر حملہ کر دیا تھا۔ وہاں مسلمانوں کی کم از کم 30-40 دکانوں اور املاک میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔

برکوٹ کے ایک مقامی رہائشی طاہر حسن اس منظر کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،ایسا لگا کہ مشتعل لوگوں اور بھگوا جھنڈوں کا کوئی سمندر ہماری طرف آرہاتھا۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ خوش قسمت تھے کہ برکوٹ کے باہررہنے کی جگہ  مل گئی۔کئی اور مسلمان  جو شہر سے بھاگے، وہ معاشی طور پر کمزور تھے۔

گزشتہ 13 جون کی دو پہر جب محسن خان اور ان کے اہل خانہ شہر سے بھاگنے پر مجبورہوئےتو ساتھ میں سامان کے نام پر صرف تن پرپہنے ہوئےکپڑے تھے۔خان اپنی حفاظت کے خوف سےاس وقت جہاں رہ رہے ہیں اس کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، لیکن جب ان کے پاس اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے پیسے کی کمی ہوئی ، تو انھوں نے ملک اور دیگر مقامی رہنماؤں سے رابطہ کیا۔

پرولا۔ (تصویر: اتل ہووالے/دی وائر)

پرولا۔ (تصویر: اتل ہووالے/دی وائر)

خان نے کہا، ایسا نہیں ہے کہ ہم برکوٹ میں نئے مسلمان ہیں، لیکن کچھ لوگ مسلمانوں کے گھرکو خالی کرانے کے لیے لو جہاد جیسے لفظوں کااستعمال کرتے ہیں۔ آج میرے پاس پیسے نہیں ہیں، کھانے کو کچھ نہیں ہے، کیونکہ میں مسلمان ہوں۔

دی وائر نے بی جے پی کے اقلیتی محاذ کے اتراکھنڈ کے سربراہ انتظار حسین سے بھی رابطہ کیا، جن کا ماننا تھا کہ مقامی مسلمانوں کو پرولا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔

ملک اور میر نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو ہندوتوا ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے کا انتظار نہیں کر سکتے تھے۔

‘کبھی نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان یہاں سے  جائیں’

پرولا کے مین بازار علاقے میں رہنے والی مونالی رانا اپنے شہر کی ریلیوں سے پریشان ہیں۔ اکثر ایک مسلمان کی دکان سے اپنا موبائل ری چارج کرانے والی رانا کے لیے دونوں  برادریوں کے درمیان دشمنی ایسی بات ہے، جو انہوں نے پہلے نہیں دیکھی۔

دسمبر 2021 میں ہری دوار میں ہوئی ‘دھرم سنسد’ کے وقت سے ہی اتراکھنڈفرقہ وارانہ انارکی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ اس ‘دھرم سنسد’ میں کھلے عام ہندوستانی مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ رانا کا کہنا ہے کہ دونوں برادریوں کے درمیان مذہب کے معاملے پر اتنا جھگڑا کبھی نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا، ‘کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ہندو یا مسلمان چلے جائیں، ہم نے کوئی پوسٹر نہیں چپکائے، یہ سب باہری  لوگ تھے۔’

تاہم، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذمہ دار صرف بیرونی عناصر نہیں ہیں۔ ریاستی حکومت نے حال ہی میں جنگل کی زمین پر ‘غیر قانونی’ مذہبی ڈھانچوں اور دیگر تجاوزات کو ہٹانے کے لیے انسداد تجاوزات مہم شروع کی تھی۔ یہ مہم اپریل 2023 میں ان  خبروں کے ٹھیک بعد شروع کی گئی تھی ، جن میں میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ چاردھام یاترا کے لیے مشہور ریاست میں مزارات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی ہفتہ وار اشاعت پنججنیہ کو بتایا کہ ریاست میں جنگلات کی زمین پر تجاوزات کرکے ایک ہزار سے زیادہ غیرقانونی مزاربنائے گئے ہیں۔ انہوں نے اسے ‘مزار جہاد’ کا نام دیا تھا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)