گجرات کے کئی اسکولوں کو حال ہی میں بچوں سے عید کی تقریبات میں شرکت کے لیے کہنےپر معافی مانگنی پڑی ہے۔ ضلع کچھ کے ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ یہ علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
نئی دہلی/کچھ: 30 جون کو کچھ کے مُندرا شہر میں واقع ایک پرائیویٹ اسکول کے طالبعلموں کا ایک ویڈیو وائرل ہوا۔ ویڈیو میں طالبعلموں نے بقرعیدکے موقع پر ہوئے ایک ڈرامے میں گول ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ اس ڈرامے کے وائرل ویڈیو میں اسکول کے بعض طالبعلموں کو سر پر رومال رکھ کر نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبات بھی نماز کے لیے کھڑی نظر آرہی ہیں۔
ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد کچھ مقامی لوگ برہم ہوئے اور الزام لگایا کہ ہندو بچوں پر اسلام ‘تھوپا’ گیا اوراس ویڈیو نے ہندوؤں کے جذبات کو ‘مجروح’ کیا ہے۔ اس کے بعد پرنسپل پریتی واسوانی کو معطل کر دیا گیا۔
ڈسٹرکٹ پرائمری ایجوکیشن آفیسر (ڈی پی آر او) سنجے پرمار نے دی وائر کو بتایا کہ ویڈیو دیکھنے کے بعد انہوں نے اسکول کے پرنسپل کو معطل کرنے کے لیے کہا اور معاملے کی تحقیقات شروع کردی۔ انہوں نے کہا، ‘یہ چیزیں ناقابل قبول ہیں اور ہم نے زبانی طور پر اسکولوں کو آگاہ کیا ہے کہ ایسی سرگرمیوں سے گریز کیا جائے۔ ہم نے اسکول سے پرنسپل کو معطل کرنے کے لیے بھی کہا۔
نفرت اور ہراسانی
تاہم، ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی بھی ہندو والدین نے اسکول یا ڈی پی آر او سے رابطہ نہیں کیا ہے، وہیں مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ 30 جون کے بعد سے شہر میں خوف اور تناؤ کا ماحول ہے۔
ایک مسلمان والدین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اسکول ایسی جگہ ہے جہاں تمام تہوار یکساں طور پر منائے جاتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں،تو پھر عید کیوں نہیں؟ اگر تمام تہوار منائے جاتے ہیں تو اسلامی تہواروں سے پرہیز کیوں؟
اسکول کے ایک ٹرسٹی ناظم عباسی نے دی وائر کو بتایا،ہم یہاں تمام مذاہب کے سارےتہوار مناتے ہیں۔ یہ صرف طالبعلموں کو ثقافتوں اور روایات کے بارے میں بتانے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن ایک بار جب ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں پرنسپل کو معطل کرنا پڑے گا، تو ہم نے اس پر عمل کیا۔ یہاں زیر تعلیم بچوں کے والدین کی جانب سے احتجاج کے طور پرپر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
عباسی نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ کس طرح نماز پڑھنے والے طالبعلموں کے ویڈیو کو اسکول انتظامیہ نے اپنے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کیا– جو ایک معمول کی سرگرمی کی طرح تھا، جیسے کہ وہ اکثر یوگا ڈے، ارتھ ڈے، ہولی وغیرہ کی تقریبات کے دوران تصاویر اور ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں۔
اس ڈرامے کو اب اسکول کے فیس بک پیج سے ہٹا دیا گیا ہے اوراب یہاں پرنسپل واسوانی کی معافی کاویڈیو دیکھا جا سکتا ہے۔
اگرچہ اس معاملے کو ڈی پی آر او نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ، لیکن بی جے پی ایم ایل اے انیرودھ دوے نے اس سرگرمی کو ‘ناپسندیدہ’ قرار دیا اور کہا کہ تیراکی، گھڑ سواری یا موسیقی غیر نصابی تعلیم کا حصہ ہو سکتی ہے، لیکن نماز یا حتیٰ کہ اس کی پیشکش ایک ڈرامے کا حصہ نہیں بن سکتے۔
دوے نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) سے اس معاملے میں مناسب کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ واقعہ کے دن اسکول کی چھٹی ہونے کے باوجود بچوں کو بلایا گیا اور مسلمانوں جیسا لباس پہن کر نماز پڑھنے کو کہا گیا۔
کچھ کے ایک سماجی کارکن محمد بھائی لاکھا کا کہنا ہے کہ یہ مخالفت علاقے میں فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کی کوشش ہے۔انہوں نے کہا، دائیں بازو کے گروہ ہمارے علاقے میں پرامن ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں- انجر، جارپارہ، ورشامیڈی میں ایسے واقعات دیکھے جا رہے ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کو ہراساں کرنا یا ہندوؤں کو مسلمانوں سے نفرت کے لیے اکسانا ہے۔
لاکھا نے دی وائر کو یہ بھی بتایا کہ مسلمان بچے اسکول میں ہندو تہواروں میں برابر کے جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا، ‘تو پھر ہندو بچوں کو چند منٹ کے لیے عید کے ڈرامے کے لیےکپڑے پہن کر تیار ہونے میں کیا حرج ہے؟’
اسکولوں پر نظر
پرل اسکول کی طرح ہی متعدد دوسرے اسکول سخت گیر ہندوتوا گروپوں کے نشانے پر ہیں، جو اسکولوں میں عید کی تقریبات کے خلاف مقامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شمالی گجرات کے مہسانہ میں رادھن پور روڈ پر واقع کڈز کنگڈم اسکول کو بقرعید کی تقریبات میں ہندو بچوں کی شرکت پر مقامی لوگوں، والدین اور ہندوتوا تنظیموں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
کچھ کے انجر شہر میں اکشرم انٹرنیشنل اسکول کو بھی اسکول کے احاطے میں عیدکی تقریبات منانے پر والدین کے احتجاج کے بعد پرنسپل کو معطل کرنا پڑا۔
کچھ کے ضلع ترقیاتی افسر ایس کے پرجاپتی نے بتایا کہ ڈی ای او کو والدین کی طرف سے شکایات موصول ہوئی تھیں کہ اسکول نے 20 بچوں سے ‘اسلامی علامتیں’ بنانے کو کہا ہے۔ پرل اسکول کے واقعہ کی طرح یہاں بھی شکایت درج ہونے کے بعد انکوائری شروع کی گئی اور پرنسپل کو معطل کیا گیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق، والدین نے الزام لگایا کہ اسکول انتظامیہ نے ان سے اپنے بچوں کو ‘مسلم کپڑے’ پہنانے کی اپیل کی تھی۔ والدین نے دعویٰ کیا کہ انہیں یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ بچوں کو پٹھانی سوٹ اور شلوار قمیض پہننا ہوگا۔ واقعے کے بارے میں جاننے کے بعد دائیں بازو کے ایک گروپ نے 3 جولائی کو اسکول میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
اکشرم انٹرنیشنل اسکول نے تاہم واضح کیا کہ انھوں نے بچوں کے لیے ہرے کپڑے پہننا لازمی نہیں کیا تھا، لیکن بہت سے بچے ہرے کپڑے پہن کر آگئے ۔ اس کے باوجود اسکول نے پرنسپل کو معطل کر دیا ہے اور’ معافی’ مانگتے ہوئے قسم کھائی ہے کہ مستقبل میں عید کے لیے ایسی کوئی ‘سرگرمی’ منعقد نہیں کی جائے گی۔
بتادیں کہ 3 جولائی کو وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے کچھ سے 600 کلومیٹر دور تاپی ضلع کے سون گڑھ کے کُکڑا ڈنگری گاؤں کے ایک اسکول میں احتجاج کیا تھا۔ وی ایچ پی کا غصہ اسکول کے گرو پورنیما پروگرام میں پادری پنچیا بھائی گامیت کے بائبل کے ایک پیغام کو پڑھنے کو لے کر تھا۔
وی ایچ پی کی تاپی ضلع یونٹ نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے طالبعلموں کے مذہب تبدیل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ وی ایچ پی کے صدر راکیش گامیت، مہنت رودر پرمودگیری باپو اور دیگر لیڈروں نے 7 جولائی کو پرنسپل نیلیش گامیت اور اسٹاف کے ساتھ واقعہ پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اسکول کا دورہ کیاتھا۔پرنسپل نے ‘غلطی’ مانی اور وی ایچ پی کے رہنماؤں نے ویارا میں کلکٹر کے دفتر میں ایک میمورنڈم دے کر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر