فکر و نظر

ایودھیا کی ’کھجور والی مسجد‘ چرچے میں کیوں ہے

ایودھیا کے گدڑی بازار میں واقع کھجور والی مسجد کا ایک مینار شہر میں زیر تعمیر ‘رام پتھ’ کی مجوزہ چوڑائی کے دائرے میں آ رہا ہے۔ محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے مسجد کمیٹی کو مینار ہٹانے کا نوٹس دیے جانے کے بعد معاملہ ہائی کورٹ پہنچ چکا ہے۔

ایودھیا میں کھجور والی مسجد۔ (تصویر: حسین رضوی)

ایودھیا میں کھجور والی مسجد۔ (تصویر: حسین رضوی)

ایودھیا کے اس حصے میں، جس کو پہلے فیص آباد کہا جا تا تھا، گدڑی بازار چوراہے پر واقع 18ویں صدی کی شیعہ برادری کی تاریخی کھجور والی مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے زیر تعمیر رام پتھ کے دائرے میں آنے کی وجہ سے اس کے ایک مینار کو منہدم کرنے کے لیے اتر پردیش کے محکمہ تعمیرات عامہ کی طرف سےجاری کیے گئے نوٹس کو ہائی کورٹ میں چیلنج دیے جانے کے کئی  ماہ بعد یہ مسجدموضوع  بحث  ہے۔

یہ اور بات ہے کہ اس میں دلچسپی رکھنے والوں میں سے اکثر کو زیادہ تجسس اس بات کے بجائے کہ اس مسجد کا مستقبل کیا ہو گا، اس میں ہے کہ ‘کھجور والی مسجد’ کس وجہ سے اتنی خاص ہو گئی ہے؟

یہ سوال اس لیے بھی جواب طلب ہے کہ رام پتھ کی تعمیر کے سلسلے میں 30 مندروں ، نو مسجدوں  اور چھ دیگر مذہبی مقامات سمیت دو ہزار سے زائد تعمیرات کلی یا جزوی طور پر منہدم کیے جانے کی زد میں آئے، لیکن صرف اس مسجد کا تنازعہ ہائی کورٹ تک پہنچا ہے۔

ایودھیا کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امت سنگھ کے مطابق، رام پتھ کی تعمیر شروع ہونے سے پہلے کرائے گئے سروے کے مطابق 12.94 کلومیٹر لمبی  اورگنجان  آبادی سے گزرنےوالے رام پتھ کی زد میں کل 2200 تعمیرات آ رہے تھے۔ ان میں 30 مندر، نو مساجد اور چھ دیگر مذہبی مقامات شامل تھے۔ جب سڑک کی تعمیر شروع کرنی تھی تو ان تعمیرات کے مالکان اور انتظامیہ سے گزشتہ سال نومبر سے اس سال اپریل تک بات چیت ہوئی اور معاوضہ دے کر ان کے معاملات طے کیے گئے۔

اس ‘معاملے’ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان سنی کے ماحول میں سرکاری انہدام سے ہونے والے بھاری  نقصان سے خوفزدہ متاثرین  نے خود ہی اپنے اپنے گھر، دکان، ادارے اور عبادت گاہ توڑ دالے، تاکہ اپنے نقصان کو کم سے کم کر سکیں۔ لیکن کھجور کی مسجد کے معاملے میں ایسا نہ ہو سکا اور اس کا تنازعہ ایک استثنیٰ  کی صورت سامنے آیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس مسجد کا صرف دایاں مینار رام پتھ کی زد میں آ رہا ہے۔ مسجد کے باقی حصے کو  بچانا  اور برقرار رکھنا ہے۔

ایسے میں مسجد انتظامیہ کا سوال  ہے کہ رام پتھ کے مصروف ترین گدڑی بازار چوراہے پر اس تاریخی مسجد کا شکستہ  حالت میں نظرآنا کیسا لگے گا؟ فی الحال  اس کا جواب ندارد ہے۔

اتفاق سے یہ کوئی اکلوتی ‘کھجور والی مسجد’ نہیں ہے۔ واقف کار بتاتے ہیں کہ مساجد کو ‘کھجور والی’ مساجد کے نام سے منسوب کرنے کی روایت پرانی ہے اور یہ نہ صرف ایودھیا سے مرادآباد، دہلی اور اجین وغیرہ تک بلکہ پاکستان کے کئی شہروں تک پھیلی ہوئی ہے۔

ایودھیا کے کامتاپرساد سندرلال ساکیت پوسٹ گریجویٹ کالج میں اردو پڑھانے والے ڈاکٹر اکبر مہندی مظفر اس روایت کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک تویہ کہ کھجور سے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا مذہبی عقیدہ اور یقین ہے، اور دوسری یہ کہ کئی بار مسجد بنانے والے کی  شخصیت اتنی بڑی نہیں ہوتی  تھی کہ مسجد کو اس کے نام سے منسوب کیا  جائے اور کئی بار وہ خود بھی اس کی تعمیر کا کریڈٹ لینا نہیں چاہتا تھا۔ ایسے میں مسجد کے احاطے میں کھجور کے درخت لگا کر انہیں اس کی پہچان  سے جوڑ دیا جاتا تھا اوروہ  مسجد کھجور والی مسجد  کے نام سے جانی جانے لگتی تھی۔

اتفاق سے کھجور کے درخت اور اس کے پھل کا اسلام کے پیروکاروں یعنی مسلمانوں کے عقیدے سے گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق کی مذہبی وجوہات تو ہیں ہی، جغرافیائی اور ماحولیاتی وجوہات بھی ہیں – سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب، ایران اور مصر وغیرہ جیسے ممالک میں کھجور کی وافر پیداوار ہوتی رہی ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہ بے تحاشہ پیداوار اللہ کی طرف سے ایک ‘احسان’ ہے اور ساتھ ہی یہ ‘رحمت’ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے کھانے کے لیے کھجور جیسا صحت بخش پھل پیدا کیا۔ قرآن مجید میں تو کھجور کی اہمیت و افادیت بتائی ہی گئی ہے، پیغمبر محمد  اپنی تعلیمات اور خطبات میں بھی اس کے استعمال پر زور دیتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر مظفر کے مطابق کھجور جسے عربی میں نخل کہتے ہیں، پیغمبر اسلام کا پسندیدہ پھل تھا اور آپ اسی سے  افطار کرتے تھے۔ بعد میں کھجور کو سنت سمجھا جانے لگا اور یہ روزہ داروں کے عقیدے کا حصہ بن گیا۔ بی بی سی ہندی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب پیغمبر اسلام مکہ سے پیدل چل کر مدینہ پہنچے تو روایت کے مطابق بہت سے لوگ ان کے استقبال کے لیے کھجور کی ٹہنیاں لیے کھڑے تھے۔وہاں  ایسے مبارک موقعوں پر کھجور کے پتے لے کرجلوس نکالنے کا رواج تھا۔

پھر، جہاں آپ کا اونٹ رکا، آپ نے سہل اور سہیل نامی دو یتیموں سے دس دینار میں زمین کا ایک ٹکڑا خریدا، جو کھجور کو خشک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں زمین کے اسی ٹکڑے پر مسجد نبوی بنائی گئی۔آپ نےخود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی۔  اس کی بنیاد بھلے ہی پتھروں سے اور دیواریں مٹی سے تعمیر کی گئیں، لیکن چھت کھجور کے تنوں اور شاخوں سے بنائی گئی ۔ تین سیڑھیوں  والامسجد کا پہلا منبر بھی کھجور کی لکڑی سے ہی بنایا گیا۔ پیغمبر اسلام اور پہلے چار خلفائے راشدین کھجور سے بنے اسی منبر سے خطبہ دیا کرتے تھے۔

جہاں تک ایودھیا کی کھجور والی مسجد کا تعلق ہے، شاعر، ادیب یتندرا مشرا کی ادارت میں ایودھیا شودھ سنستھان کی جانب سے وانی پرکاشن سے2017 میں شائع ‘شہرنامہ فیض آباد’ میں ڈاکٹرمرزا شہاب شاہ کی مختلف تاریخی دستاویزات کے حوالے سے اسے نوابوں کے زمانے کی گیارہ بڑی مساجد میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق (اٹھارہویں صدی میں 1750 کے لگ بھگ) یہ مسجد نواب دلیرالدولہ دلاور الملک محمد علی خان بہادر نے بنوائی تھی، جو نواب محمد علی خان بہادر کے پوتے نواب محمد ذکی خان کے بیٹے نواب مہدی حسن خان کو وراثت میں ملی تھی۔

نواب مہدی حسن خان کی زندگی میں اس مسجد میں عام مسلمان نماز پڑھنے لگے تو یہ مسجد نواب مہدی حسن خان کے نام سے جانی جانے لگی۔ لیکن چوک گھنٹہ گھر میں نواب شجاع الدولہ کے داروغہ دیوان خانہ نواب حسن رضا خان کی مسجد واقع ہونے اور دونوں کے ایک جیسے ناموں سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے نواب مہدی حسن خان کی مسجد کو کھجور والی مسجد کہا جانے لگا۔

اس وقت مسجد کے احاطے میں کھجور کے بڑے بڑے درخت ہوا کرتے تھے، جن کے جڑوں کی بھی  اب صرف باقیات رہ گئی ہیں۔ اس مسجد کا انتظام اور کنٹرول شیعہ سینٹرل بورڈ آف وقف، اتر پردیش کرتا ہے۔

گزشتہ دنوں  اس مسجد کے دائیں جانب کے ایک مینار اور تین میٹر حصہ کو رام پتھ کے دائرے میں آنے کی وجہ سے ریاست کے محکمہ تعمیرات عامہ سے اسے منہدم کرنے کا نوٹس موصول ہوا، تو مسجد انتظامیہ نے اس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت میں معاملے کی شنوائی ابھی بھی زیر التوا ہے، جبکہ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے مسجد کو برقرار رکھنے کے لیےایک بیم بنانے اور اس کے بعد مینار کو ہٹانے کے لیے مسجد انتظامیہ کو وقت دے رکھاہے۔

فی الحال،یہ سطریں لکھنے تک ‘آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا’ والی صورتحال ہے۔

(کرشن پرتاپ سنگ سینئر صحافی ہیں۔)