خبریں

بامبے ہائی کورٹ کے جج نے عدالت میں استعفیٰ دیا، کہا – عزت نفس کے خلاف کام نہیں کر سکتا

بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس روہت دیو نے جمعہ کو ناگپور کورٹ روم میں اچانک استعفیٰ  دینے کا اعلان کیا۔ وہاں موجود ایک وکیل کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ وہ اپنی عزت نفس کے خلاف کام نہیں کر سکتے۔

جسٹس روہت دیو۔ (فوٹوبہ شکریہ: بامبے ہائی کورٹ کی ویب سائٹ)

جسٹس روہت دیو۔ (فوٹوبہ شکریہ: بامبے ہائی کورٹ کی ویب سائٹ)

نئی دہلی: بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس روہت دیو نے جمعہ کو کھلی عدالت میں استعفیٰ دے دیا۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، ناگپور کورٹ روم میں بیٹھے جسٹس دیو نے اچانک یہ اعلان کیا۔ وہاں موجود ایک وکیل کے مطابق، انہوں نے کہا کہ وہ اپنی عزت نفس کے خلاف کام نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا، ‘جو لوگ اس عدالت میں موجود ہیں، میں آپ سب سے معافی مانگتا ہوں۔ میں نے آپ کو ڈانٹا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ آپ میں  بہتری آئے۔ میں آپ میں سے کسی کوبھی ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا کیونکہ آپ سب میرے لیے ایک خاندان کی طرح ہیں اور مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے اپنا استعفیٰ دےدیا ہے۔ میں اپنی عزت نفس کے خلاف کام نہیں کر سکتا۔آپ  لوگ کڑی محنت کریں۔’

بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے جسٹس دیو نے کہا کہ انہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سال 2022 میں جسٹس دیو نے مبینہ ماؤسٹ لنک کیس میں ڈی یو کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کی عمر قید کی سزا کو رد کرتے ہوئے انہیں  بری کر دیا تھا۔

جسٹس دیو اور جسٹس انل پنسارے کی ڈویژن بنچ نے اسی معاملے میں پانچ دیگر افراد: مہیش ترکی، پانڈو پورا نروٹے، ہیم کیشودت مشرا، پرشانت راہی اور وجے نان ترکی کو بھی بری کر دیا تھا۔ جسٹس دیو نے کہا تھا کہ سیشن کورٹ کے مقدمے کی کارروائی ‘غلط’ تھی کیونکہ استغاثہ نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) قانون کے تحت جائز منظوری حاصل نہیں کی تھی۔

بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر روک لگا دی  تھی اور ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ کو اس معاملے کی دوبارہ سماعت کرنے کا حکم دیا تھا۔

اتفاق سے صرف ایک ہفتہ قبل ہی بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے اس معاملے پر ایک اپیل کی سماعت شروع کی تھی۔

بتادیں کہ 5 دسمبر، 1963 کو پیدا ہوئے دیو نے جون 2017 میں جج کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے مہاراشٹر کے ایڈوکیٹ جنرل کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ انہیں 4 دسمبر 2025 کو ریٹائر ہونا تھا۔

تقریباً دس دن پہلے جسٹس دیو نے سمریدھی ایکسپریس وے کے ٹھیکیداروں کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی نہ کرنے کے حکومتی قرارداد (جی آر) پر روک لگا دی تھی۔

معاملے میں ٹھیکیداروں پر ناگپور-ممبئی سمریدھی ایکسپریس وے پر کام کے دوران معدنیات کی غیر قانونی کان کنی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ریاستی ریونیو ڈپارٹمنٹ نے تعزیری کارروائی شروع کی تھی لیکن محکمہ داخلہ نے اس پر روک لگا دی تھی۔ ٹھیکیداروں کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ‘خوفناک’ قرار دیتے ہوئے جسٹس دیو نے جی آر پر روک لگانے کا حکم دیا تھا۔

ناگپور-ممبئی سمردھی ایکسپریس وے کو ریاست کے وزیر داخلہ دیویندر فڈنویس کا ڈریم پروجیکٹ سمجھا جاتا ہے، جس کی منصوبہ بندی انہوں نے ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے سابقہ دور حکومت میں کی تھی۔

جسٹس دیو سے پہلے پچھلے تین سالوں میں ہائی کورٹ کے دو دیگر ججوں – جسٹس پشپا وی گنیڈی والا اور جسٹس ستیہ رنجن سی دھرمادھیکاری نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ایڈیشنل جج گنیڈی والا نے مستقل جج کے عہدے سے انکار کیے جانے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (پاکسو) ایکٹ کیس میں ان کے ایک فیصلے کی وسیع پیمانے پر تنقید کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں مستقل عہدہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جسٹس دھرمادھیکاری نے عہدہ چھوڑنے کی ذاتی اور خاندانی وجوہات کا حوالہ دیا تھا۔