خبریں

ہریانہ: حصار میں ہندوتوا تنظیموں کی ریلی میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل

نوح میں ہوئے واقعے کے خلاف احتجاج کے طور پربجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی ہندوتوا تنظیموں نے حصار ضلع کے ہانسی شہر میں 2 اگست کوایک ریلی نکالی تھی، جس میں مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی اپیل  کرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو دو دن میں  شہر چھوڑنے کی وارننگ دی گئی۔

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@ZakirAliTyagi)

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@ZakirAliTyagi)

چندی گڑھ: ہریانہ کے نوح ضلع میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد، ریاست کے ایک اور ضلع میں کشیدگی پھیل گئی ہے۔ یہ صورتحال بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) جیسی ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے نکالی گئی ایک ریلی کے بعد پیدا ہوئی  ہے، جس میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور کمیونٹی کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ۔

مبینہ طور پر یہ واقعہ 2 اگست کو حصار ضلع کے ہانسی شہر میں صبح 11 بجے کے قریب پیش آیا، جہاں دائیں بازو کی تنظیموں کے مقامی رہنماؤں کی طرف سے نکالا گیا ایک جلوس مقامی مسلم آبادی کے خلاف ایک جنون میں بدل گیا۔

اس واقعے کے 30 سیکنڈ کے وائرل ویڈیو میں ایک رہنما  مقامی مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کرنے کی کھلی اپیل کرتے ہوئے نظر آ رہے  ہیں اور  ویڈیو میں کمیونٹی کو دو دن کے اندر شہر چھوڑنے کے لیے بھی  کہا جا رہا ہے۔

انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ شہر میں صرف ہندو دکاندار ہی رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مسلمان دکاندار  رک گئے  تو وہ اپنے انجام کے  لیے خود ذمہ دار ہوں گے۔

ان کی تقریر کے بعد نفرت انگیز نعرے لگائے گئے اور بھیڑنے ‘دیش کے غداروں کو گولی مارو **** کو’ کے نعرے بھی لگا ئے۔ ویڈیو میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل والے دوسرے نعرے بھی سنے جا سکتے ہیں۔

ہانسی ٹاؤن کے ایس ایچ او ادے بھان گودارا نے دی وائر کو بتایا کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے مقامی لیڈروں نے نوح ضلع میں اپنے لیڈروں پر حملے کے خلاف ‘احتجاج’ کےطور پر جلوس نکالا تھا۔ انہوں نے کہا،’انہیں پہلے ہی پرامن طریقے سے مارچ نکالنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن جلوس کے دوران نفرت انگیز تقریر کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوگئی‘۔

بتایا گیا ہے کہ چار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جبکہ 12-15 نامعلوم افراد کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 505 (فرقہ وارانہ دشمنی کو اکسانا) اور 153-اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو بڑھاوادینا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مندرجات نامعلوم ہیں کیونکہ اسے ابھی تک عام نہیں کیا گیا ہے۔

گودارا نے کہا، اگرچہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے، لیکن بدھ کے مذہبی جلوس کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔اس کے علاوہ، انہوں نے مزید کہا کہ شہر میں مسلم کمیونٹی کے لوگوں کی نقل مکانی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔

ایس ایچ او نے کہا کہ چوں کہ معاملہ حساس ہے، اس لیے ایف آئی آر کو ہریانہ پولیس کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا گیا ہے۔

واقعہ کے بعد ایس ڈی ایم موہت مہارانا نے کسی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کے لیے جمعرات کو مقامی ہندو لیڈروں کے ساتھ میٹنگ بھی بلائی۔ تبصرہ کے لیے مہارانا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

دوسری جانب ہانسی میں مقامی درگاہ کے متولی چاند میاں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات نہیں ہونے چاہیے کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ انتشار پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ اس شہر میں تمام کمیونٹی برسوں سے امن سے رہ رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ‘ہماری  درگاہ پر آنے والے زائرین میں سے 90 فیصد ہندو ہیں۔ ہم سب کو ہم آہنگی سے رہنا چاہیے۔

اس سوال پر کہ کیا بائیکاٹ کی اپیل  کے بعد مقامی مسلم آبادی پریشان ہے، انہوں نے کہا کہ حالات پرامن ہیں۔ مقامی پولیس بہت تعاون کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘واقعے کے بعد انھوں نے ہمارے مذہبی مقامات کو بھی سکیورٹی فراہم کی۔’

اس دوران ہریانہ کے دیگر حصوں میں بھی اسی طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

مہندر گڑھ اور ریواڑی کے کئی گاؤں نے فرمان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی کے دکانداروں کو اپنے گاؤں میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں مہندر گڑھ کے سالار پور گاؤں کے سرپنچ رتن سنگھ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ پورے گاؤں نے کیا ہے۔

ریواڑی کے چمناواس گاؤں کے سرپنچ نے بھی کچھ ایسی ہی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘کمیونٹی کے لوگ دن کے وقت ہمارے گاؤں میں گھومتے ہیں اور پھر رات کو ہمارے گاؤں کو لوٹتے ہیں’۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں ریواڑی کے ڈپٹی کمشنر کو ایک میمورنڈم بھی سونپا جائے گا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)

Categories: خبریں

Tagged as: , , , , , , ,