فکر و نظر

پندرہ اگست 1947 کے ہندوستان کے مقابلے آج ملک میں کہیں زیادہ بٹوارہ ہے

ہندوستان میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ رہی ہیں یا پڑ چکی  ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ یہ دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں۔ ماضی کی تقسیم کو یاد کرنے سے بہتر کیا یہ نہیں ہوگا کہ ہم اپنے زمانے میں کیے جارہےسلسلے وار بٹوارے پر غور کر یں  اور اسے روکنے کے لیے کچھ کریں؟

(السٹریشن: پری پلب کرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب کرورتی/ دی وائر)

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے 14 اگست کو تقسیم کی ہولناکیوں کو یاد کرنے کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکولوں، کالجوں وغیرہ کو طرح طرح کے پروگرام منعقد کرکے اس دن کو منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ تقسیم لیکن کیا ماضی کی بات ہے؟

تقسیم کو یاد کرنے سے بہتر کیا یہ نہیں ہوگا کہ ہم اپنے  زمانے میں ہونے والی سلسلے وار تقسیم پر غور کریں اور اسے روکنے کے لیے کچھ کریں۔ برطانوی ہندوستان کی تقسیم تواب ماضی کا قصہ ہے۔ اس کے  لیےذمہ دار راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، ہندو مہاسبھا کے ساورکر جیسے لیڈر یا مسلم لیگ، محمد علی جناح جیسے لوگ  گزر چکے ہیں۔ ہم اس بٹوارے کو پلٹ نہیں سکتے۔

سن 1947 کی تقسیم کے بعد پاکستان1971 میں تقسیم ہوا۔ پاکستانی عوام اس تقسیم کو بھی پلٹ نہیں سکتے۔ ہم اپنے آباؤ اجداد پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے تقسیم کو نہیں روکا یا اسے روکنے کے لیے خاطرخواہ  کوشش نہیں کی۔ کیا آنے والی نسلیں ہم پر یہی  الزام نہیں لگائیں گی؟ ہم سے بعد میں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ جب تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارا ملک اور معاشرہ تقسیم ہو رہا تھا تو اسے روکنے کے لیے تم نےکیا کیا؟ ماضی کو چھوڑیں، آج جو تقسیم ہو رہی ہے اس کی بات کریں۔

برطانوی راج سے آزادی کے بعد کے 76 سالوں میں آج ہندوستان سب سے زیادہ بنٹا ہوا ہے۔ اس تقسیم کو سب سے زیادہ شدت سے منی پور میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات سننے میں جتنی بھی  بری لگے،  سچ یہی ہے کہ منی پور ایک نہیں ہے۔ ایک کُکی منی پور اور دوسرا میتیئی منی پور۔ اقلیت اور اکثر عیسائی کُکی اگراکثریتی تشدد سے بچ پائے ہیں، تو اس کی وجہ  ہے کہ ان کے پاس ایک علاقے کا ہونا اور تشدد کی طاقت ۔ ایک طرح سےتشدد کے توازن نے منی پور میں کُکی نسل کشی کو روکے رکھا ہے۔

منی پور کی تقسیم کتنی گہری ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کُکی لوگ منی پور پولیس کو میتیئی پولیس مانتے ہیں اور میتیئی کوآسام رائفلز پر بالکل بھروسہ نہیں ہے۔ منی پور میں اتنے شدید تشدد کے بعد بھی آخرکیوں فوج کو حالات کو سنبھالنے کے لیے نہیں بلایا جا رہا ہے؟ کیونکہ میتیئی دہشت گرد گروہ ایسا نہیں چاہتے۔

یہ کیسی مزے کی بات ہےیا ستم ظریفی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کےجو لوگ  بنگال جیسی جگہ پر سینٹرل سیکورٹی فورس کا مطالبہ کرتے ہیں، جو کشمیر کو فوجی بوٹوں سے کچلنا چاہتے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ منی پور میں فوج کا کیاکام! کیا فوج اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برسائے گی؟ لیکن کیا فوج کا کام صرف گولیاں چلانے سے ہوتا ہے؟ منی پور کی پولیس آسام رائفلز کے خلاف رپورٹ درج کر رہی ہے۔

میزورم نے چن-کُکی لوگوں کو پناہ دی ہے کیونکہ میزو لوگوں کے مطابق وہ ان کے اپنے ہیں۔ وہاں رہنے والےمیتیئی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کریں۔ اس کے بدلے آسام میں رہ رہے میزو لوگوں کو بھی خبردار کیا گیا ہے۔ میگھالیہ کی کھاسی برادری کی تنظیموں نے واضح طور پر کہا کہ منی پور کے کسی بھی فرد کو مکان نہیں دیا جائے گا۔ ناگا لوگوں نے پہلے خود کو کُکی-میتیئی تنازعہ سے الگ رکھنے  کا اعلان کیا، گویا میتیئی اکثریت ان کے لیے تشویش کا باعث تب تک نہیں ہو سکتا،  جب تک کہ ان کے خلاف تشدد نہ ہو۔ اور وہ ہوا۔

منی پور کی تقسیم—خاندانوں کی تقسیم بھی ہے۔ کُکی-میتیئی مخلوط خاندانوں میں بھی لوگ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ کُکی بیوی کو کُکی کے علاقے میں بھیج دیا گیا ہے۔ میتیئی ماں کے ساتھ ہونے کے باوجود ایک زخمی بچے کو، جس کا باپ کُکی تھا،اس کی ماں کے ساتھ میتیئی کے لوگوں نے مار ڈالا۔

منی پور میں ہر کمیونٹی شہریت کے رجسٹر کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ہر کوئی باہری کی تلاش  میں ہے۔ایسا باہری جس کو اس کے برابر حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔ آسام میں شہریوں کے رجسٹر نے 16 لاکھ سے زیادہ باہری پیدا کر دیے ہیں۔ لیکن اس سےتسلی  نہیں ملی ہے۔ نئے رجسٹر کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ آسام میں مسلسل تفریق کر رہے ہیں۔ بنگالی مسلمانوں اور عام آسامی لوگوں کے درمیان۔

اتر پردیش کے لوگوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ انہیں کیرالہ یا بنگال جیسا نہیں بننا ہے۔ ہندی بیلٹ میں کیرالہ کے تئیں نفرت، تمل ناڈو کے خلاف نفرت  کی تشہیر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کا حصہ ہے۔

جموں و کشمیر کو توڑا جا چکا ہے۔ باقی ہندوستان کے لوگوں کو سمجھایا گیا کہ اس ریاست میں مسلم غلبہ کو ختم کرنے کے لیے یہ  ضروری تھا۔ اس آئیڈیالوجی کے مطابق ہندو تعداد کا غلبہ تو ٹھیک ہے لیکن مسلم تعداد سے خطرہ ہے۔ اسی لیے ہندوستان کے ہر انتخابی حلقے کی حد بندی  اس طرح کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کا اثر ہی ختم کر دیا جائے۔ یہ ایسا انضمام ہے جو بٹوارے کی دوسری  شکل ہے۔

منی پور کی تقسیم کے بعد ہریانہ کی طرف  دیکھیں۔ ہزاروں مسلمان جو اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے گڑگاؤں آئے تھے، تشدد کے بعد اپنی آبائی ریاستوں کو واپس جا رہے ہیں۔ کوئی انہیں روکنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ انتظامیہ شاید سکون کی سانس لے رہی ہو کہ اسے  کوئی آئینی فرض کی یاد دلانے کے لیے نہیں ہوگا۔ یہ فرض ہے سب کی حفاظت۔

گڑگاؤں کی مسجد کے امام کو جب ان کے بھائی نے کہا کہ تناؤ ہے، وہ ان کے پاس آ جائیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، پولیس حفاظت کے لیے موجودہے۔ اوراس  پولیس نے ان کا قتل ہو جانے دیا۔ قاتلوں کو روکنے کے لیےکوئی  کوشش کی ہو، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ یعنی مسلمان پولیس پر بھروسہ نہیں کر سکتے، اس کے لیےوہ مجبور ضرور ہیں۔ ان کی حالت کُکی لوگوں کی طرح نہیں۔

ہریانہ کے باقی علاقوں میں ذہنی اور جذباتی تقسیم ہو چکی ہے۔ جاٹ برادری کے کچھ لوگ اسے پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن باقی کو اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔

ملک بنتا اسی طرح  ہے کہ ایک زبان، ایک مذہب، ایک علاقے کے لوگ دوسری زبان، دوسرے مذہب اور دوسرے علاقے کا تجربہ کر سکیں۔ وہاں انہیں اطمینان کا احساس ہو۔ ہریانہ سےجو  بنگالی مسلمان مغربی بنگال لوٹ رہے ہیں ، وہ کیایہ محسوس نہیں کر رہے ہیں کہ انہیں الگ کر  دیا گیا ہے؟

ہندوستان  میں جگہ—جگہ دراڑیں پڑ  رہی ہیں یا پڑ چکی ہیں۔ اس کو اس طرح کہنا بہتر ہو گا کہ یہ دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں۔ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان پہلےسے  ہی ایک بنٹا ہوا معاشرہ ہے۔ یہ ذات پات میں بنٹا ہوا معاشرہ ہے۔ کوئی بھی ذات کسی دوسری ذات سے کسی قسم کا جذباتی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ اور اسی لیے تقسیم ہندوستان کے لیے فطری ہے۔

ہم ایک جغرافیائی علاقے میں رہتے ہیں، لیکن منقسم معاشروں کی طرح۔ وہ معاشرے جو دنیاوی مجبوریوں کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ سطحی پیشہ وار رشتہ رکھنے کو مجبور ہیں لیکن ان میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔

ایک ملک یا قوم اجنبی لوگوں  کا ایک گروہ  ہی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو ان اجنبی لوگوں  کوملاکر ایک قوم بناتی ہے؟ ایک قوم بننے کا سفر ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داری کے تجربے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش سے ہی شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح قوم ایک مشترکہ بنیاد کی تلاش ہے جس پر سب اکٹھے کھڑے ہو سکیں۔

قوم سے پہلے کے معاشروں میں موجود عدم مساوات کو ختم کر کے پیچھے رہ جانے والوں کا ہاتھ پکڑ کر آگے لانا ہی قوم کی تعمیر ہے۔ لیکن اگر قوم مسابقتی مفادات کا مجموعہ بن جائے تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا جب کوئی یہ کہنے لگے کہ دوسرے کو جو مل رہا ہے وہ اس کی قیمت پر ہے؟

ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے دوستی کا مطالبہ کیا تھا۔ دوستی جو لین دین کے کاروباری تعلقات سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ دوستی آئینی سوشلزم یا عوامی سطح کی تخلیق کے لیے ضروری ہے۔ دوستی کے لیے ایک دوسرے کے لیے حساس ہونا ضروری ہے۔ لیکن کیااس بات کو سنا گیا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بابا صاحب کی اس اپیل کو بالکلیہ ٹھکرا دیا گیا ہے۔

اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ 15 اگست 1947 کے بعد کا جو ہندوستان تھا، آج کا ہندوستاناس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بنٹا ہوا ہے۔ اور ایک سیاسی نظریہ جو دوستی کے اصول کے بجائے غلبہ کے اصول پر یقین رکھتا ہے اس تقسیم کو ہر سطح پر گہرا کر رہا ہے۔ نئے بٹوارے پیدا کیے جا رہے ہیں ۔

اسے ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے: اسکولوں، کالجوں، محلوں اور نئے بنائے گئے اپارٹمنٹس یا کالونیوں میں۔ جب  سرکاری طور پر مسلمانوں کو بعض علاقوں میں مکانات یا زمین خریدنےسے منع کر دیا جائے تو کیا ایک ہی شہر میں دو قومیں نہیں بن رہی ہیں؟ جب مسلمانوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے تہوار نہیں منا سکتے، نماز نہیں پڑھ سکتے، جب عیسائیوں کو پرے (عبادت)کرنے سے روکاجانے لگے تو انہیں کہا کیا جا رہا ہے؟ کہ وہ اپنی  جگہ تلاش کریں،  وہ ساتھ نہیں رہ سکتے  یا رہیں تو ماتحتوں کی طرح۔ یہ تقسیم ہے۔

جغرافیائی تقسیم ذہنی اور جذباتی تقسیم سے شروع ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ایک ہی  نہیں بلکہ کئی بٹوارے کیے جا رہے ہیں۔ کیا ہم انہیں روک سکتے ہیں؟یا آنے والی نسلیں یہ  کہیں گی کہ ہم نے سب  کچھ ہونے دیا۔ ماضی کی تقسیم کو یاد کرنے سے بہترموجودہ بٹوارے کو دیکھنا اور اس کو روکنا ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)