فکر و نظر

آج ملک میں آزادی ہے یا محض آزادی کا دھوکہ؟

مساوات کے بغیر آزادی اور آزادی کے بغیر مساوات مکمل نہیں ہو سکتی۔ بابا صاحب امبیڈکر کا بھی یہی ماننا تھا کہ اگر ریاست سماج میں مساوات قائم نہیں کرتی ہے تو ملک کے باشندوں کی شہری، اقتصادی اور سیاسی آزادی محض دھوکہ ثابت ہوگی۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

ملک توکیا، دنیا میں بھی، انسان توکیا، کوئی غیر انسانی وجود بھی شاید ہی ہو، جسے اپنے لیے آزادی مطلوب نہ ہو یا  وہ اسے پیاری  نہ لگتی  ہو۔ اگر آزادی اتنی عزیز نہ ہوتی تو انسانیت کی تاریخ میں سب سے زیادہ قربانیاں اس کی قربان گاہ پر بھینٹ نہ  دی جاتیں۔ نہ تو یہ ہمارے زمانے کا بڑا سیاسی فلسفہ بن پاتی  اور نہ ہی اس سے متعلق اس نظریے پر اتفاق رائے قائم ہو سکتا  کہ کسی فرد، معاشرہ، قوم، ملک یا ریاست کی اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر دوسرے فرد، معاشرہ، قوم، ملک یا ریاست میں کسی قسم کی کوئی پابندی یا ممانعت نہیں ہونی چاہیے۔

اس کے باوجود بہت ساری غلط فہمیاں رائج  ہیں-کہہ سکتے ہیں کہ  جان بوجھ کر پھیلایا گیا ہے – آزادی واقعی میں ہے کیا اور اس سے محفوظ طریقے سے لطف اندوز ہونے کا بہترین اسلوب کیا ہے؟ سب سے زیادہ پروپیگنڈہ کی جانے والی غلط فہمیوں میں سے ایک آزادی کومطلق العنانیت کے برابر لے جاکر کھڑا کرتی ہے۔ کہتے ہیں کہ آزادی تمام پابندیوں سےنجات یا ان کی عدم موجودگی کی ایک حالت ہے، جس میں کسی نظم و ضبط کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

جو لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے دل و دماغ میں یہ بات کبھی سرایت  ہی نہیں کرتی کہ آزادی نہ تو مطلق العنانیت  اور لاقانونیت کے مترادف ہے، اور نہ  ہی تمام نظم و ضبط کو لا یعنی قرار دینے یا ان سے الگ ہونے کا کوئی تصور۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ ایسی آزادی کسی بھی ریاست میں حاصل نہیں کی جا سکتی- چاہے وہ جمہوری ہو یا آمرانہ – اور اس کا تجربہ صرف فطری یا انتشاری حالت میں رہنے والے ہی کر سکتے ہیں۔

لیکن آزادی کی مختلف صورتوں، مسائل اور امکانات کے بارے میں عام لوگ تو عام لوگ دانشوروں کے درمیان بھی اتنے اختلافات ہیں، جتنے شاید ہی کسی اور موضوع کے حوالے سے  ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں اس نے آزادی کی صورتوں، مسائل اور امکانات وغیرہ پر غور نہ کیا ہو اور وہ صورتیں، امکانات اور نظریات اس دور کے تناظر میں بدلتے ہی تبدیل نہ ہوئے ہوں۔

مثال کے طور پر، جہاں برطانوی پروفیسرہیرالڈ جوزف لاسکی کا خیال ہے کہ آزادی کا مفہوم ایک ایسے ماحول کے قیام سے پورا ہوتا ہے، جس میں انسانوں کو اپنی بھرپور نشوونما کے مواقع ملیں، جبکہ روسو کے مطابق انسان پیدا  ہی آزاد ہوا ہے۔ فلسفی اور سیاسی مفکر تھامس ہوبس کا خیال ہے کہ آزادی ‘احتجاج اور کنٹرول کی مکمل عدم موجودگی’ ہے، جبکہ ماہر سیاسیات سیلے کا خیا ل ہےکہ آزادی جبر واستبداد کی مخالف ہے۔ اس کے برعکس میکیاولی کا خیال ہے کہ آزادی پابندیوں کی عدم موجودگی نہیں بلکہ مناسب پابندیوں کا نظام ہے اور یہ نظام  نہ صرف شخصی نہیں ، سماجی مفاد کے نظریے سے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔

فلسفی،ماہر سماجیات اور سیاسی مفکر ہربرٹ اسپنسر کا کہنا ہے کہ ہر انسان کی آزادی اس شرط سے مشروط ہے کہ وہ دوسرے انسان کی مساوی آزادی کی خلاف ورزی نہ کرے، جبکہ سائنسی سماجیات کے موجد کارل مارکس نے کہا تھا کہ جب تک پیداواری نظام  پرمعاشرہ غلبہ نہیں پاتا، انسان آزادی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اور نہ ہی حقیقی معنوں میں جمہوریت قائم ہو سکتی ہے۔

اپنے ملک کے تناظر میں بات کریں، تو جدوجہد آزادی کے سب سے بڑے رہنما مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے کہ آزادی بیرونی، غیر ملکی یا اجنبی نظام سے نجات دلاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وجودی،  یعنی اپنے نظام سے انصاف کے ساتھ حکومت کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس لیے اپنے نظم و ضبط کے پابند ہونے کو قبول کیے بغیر آزادی کا کوئی مطلب نہیں  رہ جاتا۔ تاہم، آزادی اس بات کی ضمانت ہے کہ کسی شخص کے اعمال یا انتخاب کسی اور کے اعمال یا انتخاب کے ذریعے محدود یا مسدود نہیں کیے جائیں  گے۔

وہ آزادی کے سلسلے میں اور بھی بہت سی اہم باتیں کہتے تھے۔ ان میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آزادی بانٹنے سے بڑھتی ہے اور صرف ان لوگوں کو اپنے لیے آزادی مانگنے کا اخلاقی حق حاصل ہے، جو دوسروں کی آزادی کو ان کاحق مانتے ہیں، اس کی حمایت کرتے ہیں اور اپنے نفس پر پابندی لگانے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔

جنوبی افریقہ سے واپسی کے بعد انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ ملک کی آزادی کی کسی بھی تحریک کی قیادت کرنے میں اسی وقت خوشی محسوس کریں گے جب انہیں یہ محسوس ہو کہ وہ جن کی آزادی کے لیے تحریک چلا رہے ہیں وہ کسی اور کی’غلامی کی وجہ’ یا ‘آزادی کی راہ میں رکاوٹ’نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ دوسروں کے خیالات اور عقل و شعور پر غلبہ پانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مہاتما کی اسی  بات  کوایک شاعر نے اس صورت  میں نظم کیا ہے؛آزادی کا مطلب ہے کہ ہم آزاد آواز بنیں۔

غرض کہ جب بھی ہم کسی شخص، قوم یا ملک کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا آغاز اس کے ہونے، خیالات، عقائد اور سیاسی رائے رکھنے اور کسی مذہب کو ماننے یا نہ ماننے کی آزادی سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد سماجی رکاوٹوں سے آزادی کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بعد اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے کی آزادی، پھر اپنی خواہش کے مطابق کچھ بننے کی آزادی کا۔

یہاں کہنا ضروری ہے کہ آزادی انسان کی ابتدائی خواہشوں میں سے ایک ہے، لیکن ماہرین کے مطابق اس کی معلوم تاریخ میں آزادی، مساوات اور بھائی چارے کا نعرہ مفکرین نے اٹھارویں صدی میں دیا تھا، جب فرانس میں بادشاہت کے مظالم کی کوئی انتہا نہیں  رہ گئی تھی۔ آزادی، مساوات اور بھائی چارے کا یہ نعرہ وہاں 1789 کے انقلاب کی بنیاد بھی بنا اور بعد میں یورپ کے ذریعے پوری دنیا میں گونجنے لگا۔ پھر تو آزادی انسان کا مقصد بن گئی اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سامراجیت سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔

پھر، جیسے جیسے آزادی کے مختلف تصورات سامنے آئے، اسےریاست کے سیاسی عمل میں آزادی کے ساتھ فعال طور پر حصہ لینے اور روزی روٹی کا مناسب تحفظ حاصل کرنے کی آزادی سے بھی جوڑا جانے لگا۔ مزید فطری آزادی، شہری آزادی، رہن سہن کی آزادی، مذہب، عقیدہ، لباس اور خاندان وغیرہ کے معاملوں میں ریاست یا کسی دوسرے شخص کی کسی قسم کی مداخلت سے آزادی، فطری آزادی، سماجی آزادی، ثقافتی آزادی اور قومی آزادی بھی اس کا حصہ بنی۔

ہم اپنے ملک کی جدوجہد آزادی کے تجربے سے جانتے ہیں کہ قومی آزادی کے ذریعے ایک ماتحت قوم کو خود پر حکومت کرنے کا سیاسی حق حاصل ہوتا ہے۔ ہم اس تجربے سے یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سیاسی حق اس نظریے کے تحت ہی سب سے زیادہ محفوظ  رہتا ہے کہ آزادی کے بغیر مساوات اور مساوات کے بغیر آزادی مکمل نہیں ہو سکتی۔ جن بابا صاحب ڈاکٹر  بھیم راؤ امبیڈکر کو  ہم آئین کا معمار مانتے ہیں، ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ اگر ریاست سماج میں مساوات قائم نہیں کرے گی تو ملک کے باشندوں کی شہری، اقتصادی اور سیاسی آزادی محض دھوکہ ثابت ہوگی۔

بہت سے دوسرے ماہرین کے مطابق  بھی سیاسی مساوات کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ تمام بالغ افراد کو ووٹ کا حق مل جائے، کیونکہ برابری کے وقار کے بغیر حق رائے دہی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ویسے بھی جہاں بہت بڑے پیمانے پر اقتصادی عدم مساوات ہوں، وہاں صرف ووٹ کا حق سیاسی آزادی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ اس پر یہ سوال حاوی  ہوجاتاہے کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی وجہ سے کہیں بھوک آزادی پر غلبہ پانے کے لیے بیتاب ہو گئی تو؟

قومی شاعر رام دھاری سنگھ ‘دنکر’ نے کبھی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا: آزادی روٹی نہیں، مگر دونوں میں کوئی ویر (عداوت) نہیں۔ پر بھوک  کہیں بیتاب ہوئی  تو آزادی کی خیر نہیں۔

لیکن آزادی کے حوالے سے جو خواب رابندر ناتھ ٹیگوراپنی ایک نظم میں تخلیق کرتے ہیں وہ کہیں اور کمیاب ہے: جہاں اڑتا پھرےمن بے خوف / اور سر ہو شان سے اٹھا ہوا/ جہاں گیان ہو سب کے لیےبے روک ٹوک بناشرط رکھاہوا/ جہاں گھر کی چوکھٹ سے چھوٹی سرحدوں میں نہ بنٹا ہوا/جہاں ہر سچ کی گہرائیوں سے نکلے ہر بیان/ جہاں بازوبنا تھکے کچھ مکمل تراشے/ جہاں صحیح سوچ کودھندلا  نہ پائیں مردہ روایتیں/ جہاں دل و دماغ  تلاشیں نئے خیال اور انہیں انجام دیں/ ایسی آزادی کے سورگ (جنت) میں اے بھگوان، میرےوطن کی ہو نئی صبح !

ہندی اور بھوجپوری کا متبادل نقطہ نظر رکھنے والے شاعر گورکھ پانڈے بھی آزادی سے کچھ ایسا ہی ثمر چاہتے ہیں۔ ‘وطن کا گیت’ میں اپنے ارمان نکالتے ے ہوئے انھوں نے لکھا: ہمارے وطن کی نئی زندگی ہو/نئی زندگی کی اک مکمل خوشی ہو/ نیا ہو گلستاں نئی بلبلیں ہوں/محبت کی نئی راگنی ہو/نہ ہو کوئی راجا، نہ ہو رنک کوئی/سبھی ہوں برابرسبھی آدمی ہوں۔ نہ ہی ہتھکڑی کوئی فصلوں کو ڈالے/ ہمارےدلوں کی سوداگری  نہ ہو/ زبانوں پر پابندیاں  ہوں نہ کوئی/ نگاہوں میں اپنی نئی روشنی  ہو / نہ اشکوں سے نم ہو کسی کا  بھی دامن / نہ ہی کوئی بھی قاعدہ ہٹلری  ہو۔

مگر افسوس کہ آج ہماری آزادی کو مقتدر طبقوں نے ہمارے خلاف ہتھیار بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی اشاریے اسے جزوی اور جمہوریت کو لنگڑی قرار دے چکےہیں۔ مجموعی طور پر حالات ایسے ہو چلے ہیں کہ حکمرانوں کے ذریعے ایک طرف ہم یں ملک کو ’وشو گرو‘ (پڑھیں: سبز  باغ) بنانے کے خواب سے بھرمایا جا رہا  ہے اور دوسری طرف لگاتار بڑھائی جا رہی نفرت، اس سے پیدا ہونے والا تشدد،ہردن استحصال اور تشدد کی بدلتی شکلوں اورغیر برابری کے درمیان آزادی سے جڑے ہمارے بلند و بالا خواب یا امنگوں کا کوئی پتہ ٹھکانہ نہیں رہنے دیا جا رہا۔

اس سے بھی بڑی آفت یہ ہے کہ ہمارے رعایا سے شہری بننے کے عمل کو الٹ دیا گیا ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ پھر سے رعایا بن کر خوش ہونے لگے ہیں۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)