خبریں

بلقیس کیس: عدالت نے گجرات حکومت کی سزا معافی  پالیسی کے منتخب استعمال پر سوال اٹھائے

سپریم کورٹ نے بلقیس بانوکے گینگ ریپ کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ گجرات حکومت کا یہ کہنا کہ تمام قیدیوں کو اصلاح کا موقع دیا جانا چاہیے، درست ہے، لیکن کیا ایسا تمام معاملوں میں کیا جاتا ہے۔

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گجرات حکومت کی جانب سےبلقیس بانو کے  گینگ ریپ اور ان کےرشتہ داروں کے قتل کے مجرموں کی سزا معافی کے خلاف عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ کیا تمام قیدیوں کو اصلاح کا موقع دینا درست ہے، لیکن کیااس معاملے میں اس  سزا معافی کی پالیسی کا استعمال منتخب طریقے سےہوا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ ممبئی کی جس  عدالت نے ان مجرموں کو سزا سنائی تھی،اس سے ان مجرموں کو رہا کرنے سے پہلے مشاورت کیوں نہیں کی گئی۔

بتادیں کہ مجرموں کو 15 اگست 2022 کو یوم آزادی کے موقع پر 2002 میں ہوئے  بلقیس بانو گینگ ریپ  اور اس کی بچی سمیت خاندان کے سات افراد کے قتل  کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے  تمام 11 مجرموں کی سزا معاف کر دی گئی تھی اور ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔

جب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں گجرات حکومت سے جواب طلب کیا تو ریاستی حکومت نے کہا کہ قصورواروں کو مرکز کی منظوری سے رہا کیا گیا۔ حکومت نے کہا تھا کہ ‘ان  (مجرموں) کا برتاؤ اچھا پایا گیا تھا’ اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ  14 سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ تاہم، ‘اچھے برتاؤ’ کی وجہ سے رہا ہونے والے مجرموں پرپیرول کے دوران بہت سے الزامات لگے تھے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ سبھی 2014 کی پالیسی کے تحت سزا معافی  کے اہل نہیں تھے، لیکن حکومت نے 1992 کی پالیسی کے تحت اس پرغور کیا کیونکہ جنوری 2008 میں جب انہیں سزا سنائی گئی تھی تب  یہ  رہنما اصول نافذ نہیں تھے۔

حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) ایس وی راجو نےدلیل دی کہ یہ لوگ اصلاح کے موقع کے حقدار ہیں کیونکہ کسی گھناؤنے جرم کی سزا سے کسی شخص کو چھوٹ  نہیں ملنی چاہیے۔ لیکن عدالت نے اس پرسوال کیا کہ ‘پھر سزا معافی کی پالیسی کو چنندہ اور منتخب طریقے سے کیوں لاگو کیا جاتا ہے؟’

جسٹس بی وی ناگرتن اور جسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ نے پوچھا، ‘ہماری جیلوں میں اتنی بھیڑ کیوں ہے؟ اصلاح اور معاشرے میں واپسی کا موقع صرف کچھ قیدیوں کو ہی نہیں ،بلکہ ہر قیدی کو دیا جانا چاہیے۔ لیکن جہاں مجرموں نے 14 سال کی سزا پوری کر لی ہے وہاں معافی  کی پالیسی پر کس حد تک عمل کیا جا رہا ہے۔ کیا اس کو  ہر معاملے میں لاگو کیا جا  رہا ہے؟

راجو نے عدالت کو بتایا کہ ریاستی حکومت عدالت عظمیٰ کے 13 مئی 2022 کے فیصلے کی تعمیل کرنے کوپابند  تھی-ایک مجرم رادھے شیام بھگوان داس شاہ کی طرف سے دائر درخواست میں حکومت کو 1992 کی پالیسی کے تحت دو مہینے کے اندر قیدیوں کی معافی کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے کو کہا گیا تھا۔

انہوں نے بنچ کو بتایا کہ حکومت نے سی آر پی سی کی دفعہ 432 کے تحت ضابطے پر عمل کیا، 3 جون 2022 کو گودھرا کورٹ کے پریزائیڈنگ جج کی رائے لی اور ایک جیل ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی، جس نے مقامی پولیس اور جیل کی رائے پر غور کیا۔ سپرنٹنڈنٹ اور ٹرائل کورٹ کے جج نے گزشتہ سال 10 اگست کو قیدیوں کی رہائی کی سفارش کی تھی۔

اس پر بنچ نے کہا کہ گودھرا عدالت ان لوگوں کو مجرم قرار دینے والی  عدالت نہیں تھی۔

بنچ نے سوال پوچھا، ‘جب اس عدالت نے 13 مئی کو فیصلہ سنایا، تو فائل پہلے ہی مہاراشٹر کو بھیج دی گئی تھی۔ گودھرا کی سیشن کورٹ سے دوسری رائے لینے کی کیا ضرورت تھی؟

عدالت اگست 2019 میں شاہ کی طرف سے دائر کی گئی معافی کی درخواست کا حوالہ دے رہی تھی، جسے اس وقت گجرات کے حکام نے مہاراشٹرا کو بھیج دیا تھا، جہاں 2019 میں تمام 11 مجرموں کو سزا سنانے والی ممبئی کی عدالت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

اس پر راجو نے گجرات کی عدالت کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ‘جس جج نے انہیں قصوروار ٹھہرایا تھا وہ ریٹائر ہو چکے تھے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے جو اس وقت سامنے آئی جب گجرات میں جرم ہوا لیکن عدالت عظمیٰ نے مقدمے کی سماعت ممبئی منتقل کر دی۔ مہاراشٹر کے سیشن جج کا اس پر کوئی نظریہ نہیں ہوگا کہ کوئی شخص گجرات میں کیسا کر رہا ہے۔ ان تمام افراد کے بارے میں جاننے کے لیے بہترین شخص صرف گجرات میں ہی  ہونا چاہیے۔

اس پر بنچ نے کہا،’ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ سزا سنانے والا جج دستیاب ہو۔ ہر تین سال بعد ایک جج کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس کیس میں 14 سال لگ گئے، جج  توریٹائر ہوں گے ہی۔ یہ عدالت کےپریزائیڈنگ  جج کی طرف سے سی آر پی سی کی دفعہ 432(2) کے تحت دی جانے والی قانونی رائے کے بارے میں ہے نہ کہ کیس کے بارے میں۔’

حکومت کی معافی کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے، بنچ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا قبل از وقت رہائی کی پالیسی تمام معاملات میں یکساں طور پر لاگو ہو رہی ہے، ان تمام لوگوں کے حوالے سے جنہوں نے 14 سال جیل میں گزارے ہیں اور وہ اس کے اہل ہیں۔

بنچ نے یہ بھی کہا کہ معاملے کے پس منظر کو ذہن میں رکھا جانا چاہیے۔ ‘اس عدالت نے معاملے کو ایک مختلف دائرہ اختیار میں بھیج دیا اور ناقص تفتیش کی وجہ سے معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کروائی’۔

دریں اثنا، بنچ نےجیلوں میں بھیڑ ہونے اور عمر قید کی کاٹ رہے اور زیر سماعت قیدیوں کے 14 سال سے زیادہ عرصے تک جیل میں بند رہنے کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا معافی کی پالیسی کو چنندہ طریقے سے لاگو کیا جا رہا ہے۔ اس پر اے ایس جی نے کہا کہ عدالت کے سوال کا جواب دینے کے لیے ریاستی لحاظ سے ڈیٹا اور بھیڑ بڑھانے والے دیگر عوامل درکار ہوں گے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 24 اگست تک  کے لیےملتوی کر دی۔

غور طلب  ہے کہ 3 مارچ 2002 کو احمد آباد کے قریب ایک گاؤں میں 11 افراد نے 19 سالہ بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا تھا۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں اور تب وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ تشدد میں ان کے خاندان کے سات افراد بھی مارے گئے تھے،جن میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔