خبریں

گوا: ورکشاپ کے لیے طالبعلموں کو مسجد لے جانے کی وجہ سے پرائیویٹ اسکول کے پرنسپل سسپنڈ

جنوبی گوا کے کیشو اسمرتی ہائر سیکنڈری اسکول کا معاملہ۔ وشو ہندو پریشد کے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ ورکشاپ کا اہتمام ممنوعہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے وابستہ ایک تنظیم کی دعوت پر کیا گیا تھا۔ پرنسپل کے خلاف ‘ملک مخالف سرگرمیوں کی حمایت’کے الزام میں پولیس میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Pixabay)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Pixabay)

نئی دہلی: جنوبی گوا میں ایک نجی اسکول کی انتظامیہ نے پولیس میں  شکایت کے بعد اپنے پرنسپل کو معطل کر دیا ہے۔ پرنسپل گزشتہ سنیچر (9 ستمبر) کو گیارہویں جماعت کے طلبا کے ایک گروپ کو ورکشاپ کے لیے مسجد لے گئے گھے اور مبینہ طور پر انہیں وہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے راضی  کیا تھا۔

ریاستی محکمہ تعلیم نے اسکول انتظامیہ سے واقعے کے حوالے سے وضاحت طلب کی ہے۔

وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ارکان نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ ورکشاپ کا اہتمام ممنوعہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی ) سے وابستہ تنظیم کی دعوت پر کیا گیا تھا۔ گزشتہ سوموار (11 ستمبر) کو تنظیم کے اراکین نے اسکول کے پرنسپل کے خلاف واسکو میں  ‘ملک مخالف سرگرمیوں کی حمایت’ کے الزام میں پولیس میں شکایت درج کرائی۔

انڈین ایکسپریس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، ایجوکیشن ڈائریکٹر شیلیش زنگڑے نے کہا، ‘محکمہ نے اسکول انتظامیہ سے وضاحت طلب کی ہے۔ ان کے جواب کا انتظار ہے۔ یہ معاملہ ہمارے علم میں لایا گیا ہے، اس لیے پرنسپل کو معطل کر دیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق،یہ واقعہ کیشو اسمرتی ہائر سیکنڈری اسکول، آلٹو-ڈابولم کے 11ویں جماعت کے طلبا کے ساتھ سنیچر کو پیش آیا۔

اسکول کے پرنسپل شنکر گاونکر نے کہا، اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) کی دعوت پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ڈابولم میں ایک مسجد کا دورہ کیا گیا تھا۔ بینہ میں واقع ایک سرکاری سکول کے طلباء کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ہمارے اسکول کی تین طالبات  اور ایک استادسمیت کل 21 طالب علموں کو مسجد لے جایا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا، ‘طلباء کو دکھایا گیا کہ مسجد میں نماز (نماز) کہاں ہوتی ہے اور آنے جانے کے دروازے کہاں ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ طلبا نے احتراماً سر ڈھانپ لیا ہو۔ یہ دعویٰ غلط ہے کہ طالبات کو حجاب پہننے یا رسومات  کی ادائیگی کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔’

گاونکر نے کہا، ‘اس سے قبل بھی ہم نے طلباء کے لیے مندروں، گرجا گھروں اور مساجد کے دوروں کا اہتمام کیا ہے۔ اسکول میں تمام مذاہب کے بچے پڑھتے ہیں۔ دوسرے اسکولوں کے کچھ طلباء بھی مسجد میں آئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کیوں معطل کیا گیا ہے۔’

رپورٹ کے مطابق، اسکول انتظامیہ نے اس سلسلے میں پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

ورکشاپ کااہتمام کرنے والے گوا زون  کےاسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیاکی مربی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے ریاستی صدر آصف حسین نےکہا، ‘فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اوراور کمیونٹی کے درمیان بہتر سمجھ کے لیے ہماری پہل کے حصے کے طور پر ڈابولیم کی مسجد نور میں طلبا کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔’

انہوں نے کہا کہ مسجد میں اس طرح کی تقریبات  کی اپنی خصوصیت رہی ہے اور طلبا اکثر اپنی مرضی سے آتے ہیں۔ اسکول کے طلبا کو وہ جگہ  دکھائی گئی  جہاں نماز ہوتی ہے اور انہیں مٹھائی دی گئی۔ یہ تمام دعوے (تبدیلی مذہب کے) بے بنیاد ہیں۔’

جنوبی گوا میں وی ایچ پی کے جوائنٹ سکریٹری سنجو کورگاوکر نے کہا کہ یہ ورکشاپ ‘نوعمر بچوں کا برین واش کرنے اور ان کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش’ کا حصہ  تھی۔

انہوں نے کہا، ‘پرنسپل نے طلباء کے والدین کو مطلع نہیں کیا اور نہ ہی ورکشاپ کے لیے ان کی اجازت لی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ کم از کم دو طالبعلموں نے جانے سے انکار کر دیا تھا، لیکن انہیں زبردستی لے جایا گیا۔ مسجد میں رسومات ادا کرنےاورحجاب پہنے اسکولی  بچوں کی کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں، جس کے بعد ہم نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔’