خبریں

یو پی اے حکومت میں پیش کیے گئے خواتین ریزرویشن بل میں او بی سی کوٹہ نہ ہونے کا افسوس ہے: راہل گاندھی

کانگریس مودی حکومت کے منظورکردہ خواتین ریزرویشن بل میں او بی سی کوٹہ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تاہم، 2010 میں اس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کی جانب سے راجیہ سبھا میں پیش کیے گئے خواتین ریزرویشن بل میں اسے شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اب کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے اقتدار میں آنے پر ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔

راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین گریب)

راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین گریب)

نئی دہلی: کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے کہا ہے کہ منموہن سنگھ حکومت کے ذریعے 2010 میں راجیہ سبھا میں منظور کیے گئے خواتین ریزرویشن بل میں او بی سی کو شامل نہ کرنے پر پارٹی کو ‘سو فیصدی  افسوس’ ہے۔

آئین (128ویں ترمیم) بل-2023، جو لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن فراہم کرتا ہے، جمعرات (21 ستمبر) کو راجیہ سبھا نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ تاہم، اس کے نفاذ کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ اس سے ایک دن پہلے لوک سبھا نے اسے پاس کیا تھا۔

جمعہ (22 ستمبر) کو نئی دہلی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی نے کہا، ‘ہمیں اس بات کا سو فیصدی  افسوس ہے کہ جب ہم حکومت میں تھے، ہم نے خواتین ریزرویشن بل پاس کرنے کے دوران  او بی سی کو شامل نہیں کیا تھا۔’

اپوزیشن جماعتوں نے جہاں پارلیامنٹ میں بل کی حمایت کی ہے، وہیں انہوں نے دونوں ایوانوں میں بحث کے دوران ذات کی بنیاد پر ذیلی کوٹہ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 239اے اے میں ترمیم کرکے قومی دارالحکومت حلقہ دہلی کی قانون ساز اسمبلی میں ایک تہائی نشستیں خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی۔ واضح ہوکہ آئین کے آرٹیکل 330 میں ترمیم کرکے ایک تہائی نشستیں خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی اور آرٹیکل 332 میں ترمیم کرکے ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی نشستیں محفوظ کی جائیں گی۔

اس وقت درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص نشستوں میں سے ایک تہائی سیٹیں بھی ان برادریوں کی خواتین کے لیے مخصوص ہوں گی۔

لوک سبھا میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے ذات کی بنیاد پر ذیلی کوٹہ کے ساتھ او بی سی خواتین کو شامل کرنے کی وکالت کی تھی۔ بعد میں راہل گاندھی، کے سی وینوگوپال، ملیکارجن کھڑگے سمیت کانگریس کے دیگر ارکان پارلیامنٹ نے بھی اپنی تقریروں کے دوران اسی طرح کے نکات پیش کیے۔

تاہم، جب یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (یو پی اے) حکومت نے 2010 میں راجیہ سبھا میں خواتین ریزرویشن کے لیے ایک بل پاس کیا تھا (جسے وہ قانون بنانے میں ناکام رہا)، اس بل میں او بی سی خواتین یاذات کی بنیاد پر ذیلی کوٹہ کو شامل نہیں کیا گیا تھا ،جس کا کانگریس اب مطالبہ کر رہی ہے۔ اس بل کو ایوان زیریں میں نہیں لایا گیا تھا اور بعد میں 15ویں لوک سبھا کے اختتام کے ساتھ ہی یہ ختم ہو گیا تھا۔

تاہم، راہل گاندھی نے جمعہ کو کہا کہ پارٹی نے 2010 کے بل کے بعد سے ذات کی بنیاد پر ریزرویشن پر اپنا موقف تبدیل نہیں کیا ہے۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا،’ہم نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا ہے۔ ہم وہ پارٹی ہیں جس نے ذات پر مبنی مردم شماری کرائی تھی۔ ہم نے ذات پر مبنی مردم شماری کا ڈیٹا جاری نہیں کیا۔ ہم نے اندرونی طور پر بات چیت کی۔ ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔’

جمعرات کو پارلیامنٹ میں منظورکیے گئے بل کا حوالہ دیتے ہوئے گاندھی نے مودی حکومت کے ارادوں پر سوال اٹھائے۔

انہوں نے کہا، ‘یہ بل بہت اچھا ہے، یہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ لیکن جب ہم نے اسے پڑھا تو معلوم ہوا کہ بل کے نفاذ سے پہلے مردم شماری اور حد بندی کرنا ہوگی۔ اسے مکمل کرنے میں 10 سال یا شاید اس سے زیادہ وقت لگے۔’

اگرچہ، نیا قانون خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن فراہم کرتا ہے، لیکن اس میں یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ اسے اگلی مردم شماری اور اس کے بعد کی حد بندی کی مشق کے بعد ہی لاگو کیا جائے گا۔

گاندھی نے کہا، ‘حکومت کو مردم شماری اور حد بندی کے دو حصوں کو ختم کرنا چاہیے اور خواتین کو ان کا مناسب حصہ دینا چاہیے۔’

انہوں نے کہا،’اسے یو پی اے حکومت کی طرف سے کی گئی پچھلی ذات پر مبنی  مردم شماری کے اعداد و شمار کو بھی جاری کرنا چاہیے، اور اب ذات پر مبنی نئی مردم شماری کروانی چاہیے۔ مودی سرکار مردم شماری میں تاخیر کیوں کر رہی ہے؟ اسے اب ذات پر مبنی مردم شماری کرانی چاہیے۔ اس کے بغیر ہم اپنے ملک کے محروم طبقات کو با اختیار نہیں بنا سکتے۔ اگر ہمارا مقصد ہندوستان میں اقتدار کو زیادہ مساوی طور پر تقسیم کرنا ہے تو ہمیں ذات پات کے اعداد و شمار کی ضرورت ہوگی۔’

‘انڈیا’ اتحاد اقتدار میں آیا تو ہم ذات پر مبنی مردم شماری کرائیں گے

حالیہ مہینوں میں کانگریس ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کی ضرورت پر پھر سے زور دے رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے پارٹی صدر ملیکارجن کھڑگے کی قیادت میں نئی کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کی پہلی میٹنگ میں پارٹی نے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے ریزرویشن کی بالائی حد کوبڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔

پارٹی نے مدھیہ پردیش میں بھی اقتدار میں آنے پر ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ اس نے مودی حکومت سے بھی ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کی اپیل کی ہے۔

جمعہ کو پریس کانفرنس میں گاندھی نے 2024 میں اقتدار میں آنے پر ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا وعدہ کیا۔

انہوں نے کہا،’حکومت بنتے ہی ہم ذات پر مبنی مردم شماری کرائیں گے۔ ملک کو پتہ چلے گا کہ او بی سی، دلت اور قبائل کا فیصد کتنا ہے۔ انہیں ملک چلانے میں حصہ ملے گا۔ یہ کوئی چھوٹا عمل نہیں ہے۔ وقت لگے گا لیکن یہ کام کیا جائے گا۔’

یہ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت تھی جس نے پہلی بار 2011-12 میں سماجی-اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری (ایس ای سی سی) کروائی تھی، لیکن حکومت کے اندر اس کے بارے میں مختلف آراء کی وجہ سے اس کا ڈیٹا کبھی جاری نہیں کیا گیا۔

کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ 2011 میں یو پی اے حکومت کے دوران پارٹی نے ذات پر مبنی مردم شماری کے عمل کے تحت تقریباً 25 کروڑ گھروں کا سروے کیا تھا۔

رہنما نے کہا، ‘اس ڈیٹا میں تضادات تھے اور انہیں دور کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ ڈیٹا کلیننگ 2013 میں شروع ہوئی جو 2014 تک پوری کر لی گئی تھی۔ اور وہ ڈیٹا اب موجودہ حکومت کے پاس ہے۔ اگر وہ ڈیٹا جاری کرنا چاہتے  تو  کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اعداد و شمار جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اب وہ ڈیٹا بھی ایک دہائی سے زیادہ پرانا  ہوگیا ہے، اس لیے ہم اس ڈیٹا پر انحصار نہیں کر سکتے، اس لیے ذات پر مبنی نئی مردم شماری کرانی ہوگی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پارٹی کے ایک اور رہنما نے بتایا،پارٹی کی جانب سے ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے نئے سرے سے مطالبہ ‘قلب ماہیت’ کی عکاسی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس نے پارٹی کی سطح پرآزادی کے بعد کی دہائیوں میں ملک کی ضرورت کے مطابق مختلف مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے، چاہے وہ زراعت ہو، خوراک، سائنس اور ٹکنالوجی ہو یا عالمگیریت۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی سے پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ‘سماجی انصاف کو مضبوط کرنے’ کی ضرورت ہے۔

اپنے نئے موقف کے ساتھ کانگریس منڈل پر مبنی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے قریب آگئی ہے، جن کے ساتھ اس نے 26 اپوزیشن جماعتوں کے ‘انڈیا’ اتحاد میں ہاتھ ملایا ہے۔ یہ جماعتیں ایک سال سے زائد عرصے سے ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ جنوب کی سیاسی جماعتوں نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔

اس ماہ کے شروع میں اپنی پہلی کوآرڈینیشن میٹنگ میں’انڈیا’ نے کہا تھا کہ اتحاد ملک میں ذات پرمبنی مردم شماری کا  ایشو اٹھائے گا، جواس مسئلے پر تمام اتحادی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کا اشارہ ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)