اکتوبر کے شروعاتی چند دنوں میں ہی ملک کی مختلف ریاستوں میں مرکزی ایجنسیوں کے منظم ‘چھاپے’، ‘قانونی کارروائیاں’، نئے درج کیے گئے مقدمات اور ان آوازوں پر قدغن لگانے کی کوششوں کا مشاہدہ کیا گیا، جو اس حکومت سے اختلاف رکھتے ہیں یا اس کی تنقید کرتے ہیں۔
نئی دہلی: ابھی اکتوبر کا پہلا ہفتہ ختم نہیں ہوا اور تین مرکزی ایجنسیاں اور ایک پولیس برانچ – جو مرکزی حکومت کے ہی ماتحت ہے – پانچ دنوں میں ہی ملک بھر میں دو سو سے زیادہ مقامات پر تلاشی اور ضبطی کی کارروائیاں کر چکی ہیں۔
یہ کارروائیاں بھلے ہی پورے ہندوستان میں ہوئی ہوں، لیکن ان میں ایک مماثلت نظر آتی ہے۔ ان میں سے اکثر صبح جلدی شروع ہوئیں، زیادہ تر مرکزی دھارے کے میڈیا میں ‘لیک’ ہوئی جانکاری سے جڑی تھیں اور سبھی میں نشانے پر نریندر مودی حکومت کے ناقدین تھے۔
انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن، صحافی، قلمکار، دو ایم پی، ایک وزیر مملکت، حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اور ایک کامیڈین اس کارروائی کے دائرہ کار میں تھے۔ کم از کم دو معاملات میں، جن لوگوں پر چھاپے مارے جا رہے تھے – وہ اور کچھ ابھی بھی – اپنے خلاف الزامات کے بارے میں غیر یقینی حالات میں تھے کہ کس معاملے میں ان پر ‘چھاپے ماری’ کی جا رہی تھی، اور کیا ان سے ملزم کے طور پرپوچھ گچھ ہو رہی ہے یا مشتبہ کے طور پر یا گواہ کے طور پر۔
بزرگوں سے پوچھیں کہ انہوں نے اتنی مختصر مدت میں حکومت کے ناپسندیدہ افراد کے خلاف مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول ایجنسیوں کی ایسی کارروائی آخری بارکب دیکھی تھی اور وہ شاید کہیں گے، ‘ایمرجنسی۔’ غورطلب ہے کہ اس ہفتے جیل جانے والوں میں سے ایک نیوز پورٹل نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پورکایستھ ہیں۔ آخری بارانہیں 1975 میں پولیس نے اٹھاکر جیل بھیجا تھا۔
مرکزی ایجنسیوں کے اس ہفتے کے چھاپوں کا ایک گوشوارہ اس طرح بنتا ہے؛
دو اکتوبر: این آئی اے
دی وائر کی سکنیا شانتا کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اس دن نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے اہلکار چار اور پانچ کے گروپ میں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے 62 مقامات پر پہنچے۔ انہوں نے انڈین ایسوسی ایشن آف پیپلز لائرز، ہیومن رائٹس فورم، سول لبرٹیز کمیٹی، سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کمیٹی اور ریوولشنری رائٹرز ایسوسی ایشن کے اراکین کے گھروں اور احاطوں پر چھاپے ماری کی۔
یہ کارروائی ‘منچنگی پٹو کیس‘ سے متعلق تھی، جو الوری سیتارام راجو ضلع کے ایک گاؤں میں ماؤنوازوں کی مبینہ تحریک اور ماؤنواز لٹریچر کے لانے اور لے جانے سے منسلک ہے۔ کہا گیا ہے کہ سال 2020 میں گرفتار کیے گئے ایک شخص نے مبینہ طور پر علاقے کے تقریباً 60 ماؤنواز کارکنوں کے ناموں کا انکشاف کیا تھا۔
این آئی اے نے ہیومن رائٹس فورم کے ایک عہدیدار سے 60 کتابیں ضبط کیں۔ دی وائر کوپتہ چلا ہے کہ ان میں سے کچھ مقامی زبان میں تھیں، جنہیں ایجنسی کے عملے پڑھ نہیں سکتے تھے، لیکن وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ جس دوسرے شخص کے یہاں چھاپہ مارا گیا، وہ اس معاملے کے متعدد ملزمین کے وکیل ہیں، جنہیں قانون کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے اسی مقدمے میں بطور گواہ پیش ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔
تین اکتوبر: دہلی پولیس
اسے ہندوستان میں آزاد پریس کے لیے بدترین دنوں میں سے ایک کہا جا رہا ہے۔ اس دن 46 صحافیوں اور مبصرین کے یہاں چھاپے مارے گئے، جن میں سے کچھ کی عمر 20، کچھ کی عمر 70 سال کے درمیان تھی، اور سبھی آزاد نیوز ویب سائٹ نیوز کلک سے وابستہ تھے۔ ان کے گھروں کی تلاشی لی گئی، ان کے الکٹرانک آلات – فون، لیپ ٹاپ وغیرہ کو ضبط کر لیا گیا اور گھنٹوں ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔
ظاہری طورپر ان کے خلاف مقدمہ – انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا تھا- جو نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ پر مبنی تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ نیوز پورٹل کو فنڈ فراہم کرنے والا ایک امریکی کاروباری چینی حکومت کا قریبی ہے۔ تاہم، جن صحافیوں کے یہاں چھاپے مارے گئے، ان میں سے زیادہ تر سے کسانوں کے احتجاج اور کووڈ 19 وبائی امراض پر ان کے کام کے بارے میں پوچھا گیا۔ نیوزکلِک کے ڈائریکٹر پربیر پورکایستھ — جنہوں نے 1970 کی دہائی میں ایمرجنسی کے دوران دو سال جیل میں گزارے تھے— ان کو ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے ایک اور ملازم امت چکرورتی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
دہلی پولیس نے پرکایستھ کی اس عرضی کی مخالفت بھی کی، جس میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر کی کاپی مانگی گئی تھی، تاہم عدالت نے پولیس کو اسے واپس لینے کا حکم دیا۔ ایف آئی آر کے بغیر نہ تو گرفتار کیے گئے افراد کو، اور نہ ہی جن کے آلات ضبط کیے گئے، ان کے خلاف اصل میں مقدمہ کیا ہے، اس کا کوئی اندازہ تھا۔
واضح ہو کہ دہلی پولیس مودی حکومت کے سینئر ترین لیڈروں میں سے ایک امت شاہ کی سربراہی والے مرکزی وزارت داخلہ کے براہ راست کنٹرول میں ہے۔
چار اکتوبر: ای ڈی
چار اکتوبر کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے صبح صبح عام آدمی پارٹی (عآپ) کے راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ کے گھر پر چھاپے ماری شروع کی۔ دہلی ایکسائز پالیسی کیس میں اسی شام انہیں گرفتار کیا گیا۔ ای ڈی اس معاملے میں عآپ کے دو بڑے لیڈروں، دہلی کے دو وزراء ستیندر جین اور منیش سسودیا کو پہلے ہی جیل بھیج چکی ہے۔
جمعرات کو سسودیا کی ضمانت کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی بنچ نے ای ڈی سے پوچھا کہ وہ سسودیا کے خلاف منی لانڈرنگ کے اپنے الزامات کو ‘حقائق کی رو سے اور قانونی طور پر’ کیسے ثابت کرے گی، جب ایجنسی کے اپنے بیان کے مطابق، ان کے پاس مبینہ طور پر ادا کیے گئے پیسے نہیں تھے۔
ایک دن پہلے اسی بنچ نے پوچھا تھا کہ ای ڈی کی دلیل کے مطابق، اگر پوری عام آدمی پارٹی کو دہلی حکومت کی ایکسائز پالیسی سے فائدہ اٹھانے والا قرار دیا گیا ہے، تو ‘وہ اس معاملے میں نہ تو ملزم ہے اور نہ ہی فریق۔ ‘
پانچ اکتوبر کو ہی ای ڈی نے بھرتی گھوٹالہ کے سلسلے میں ترنمول کانگریس لیڈر اور بنگال کے کابینہ وزیر رتھن گھوش کے ٹھکانوں پر چھاپے ماری کی۔ مرکزی حکومت کی طرف سے منریگا فنڈز کی تقسیم کو لے کر قومی دارالحکومت میں ٹی ایم سی احتجاج کر رہی ہے۔
اسی دن ای ڈی نے کرناٹک کانگریس کے آر ایم منجوناتھ گوڑا کے خلاف شیوموگا ڈسٹرکٹ کوآپریٹیو سنٹرل بینک میں مبینہ گھوٹالے کے سلسلے میں مقدمہ درج کیا ہے۔
پانچ اکتوبر: محکمہ انکم ٹیکس
جمعرات کو محکمہ انکم ٹیکس نے چنئی میں دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) کے ایم پی ایس جگترکشکن سے متعلق تقریباً 40 مقامات پر تلاشی لی۔ ڈی ایم کے کے سربراہ اور ریاست کے وزیر اعلیٰ سٹالن نریندر مودی کے بے باک ناقدین میں سے ایک ہیں اور انہوں نے فوراً کہا کہ ‘عآپ ایم پی سنجے سنگھ کو گرفتار کرنا اور ڈی ایم کے ایم پی کے گھر پر چھاپہ مارنا ‘انڈیا’ اتحاد کے رہنماؤں کے خلاف سیاسی مقاصد کے لیے آزاد تحقیقاتی ایجنسیوں کے غلط استعمال کی واضح مثالیں ہیں۔’
جون میں، ڈی ایم کے لیڈر اور تمل ناڈو کے وزیر وی سینتھل بالاجی کو ای ڈی نے مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے ریاست کے گورنر آر این روی نے وزراء کی کونسل سے ان کی برخاستگی کا مطالبہ کیا تھا۔
پانچ اکتوبر کو انکم ٹیکس حکام نے حیدرآباد میں بھارت راشٹر سمیتی کے ایم ایل اے مگنتی گوپی ناتھ کے یہاں بھی چھاپہ مارا – یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کس کیس کے سلسلے میں تھا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر