ادبستان

شاہ رخ خان کی فلم ’جوان‘ انڈیا اور پاکستان کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

شاہ رخ خان بھلے ہی کہیں کہ ان کی دلچسپی صرف ‘انٹرٹین’ کرنے میں ہے، لیکن ان کی حالیہ فلموں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انٹرٹینمنٹ کے ساتھ کوئی نہ کوئی پیغام دینے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

فلم 'جوان' کے ایک سین میں شاہ رخ خان، (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب /@RedChilliesEnt)

فلم ‘جوان’ کے ایک سین میں شاہ رخ خان، (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب /@RedChilliesEnt)

‘پٹھان’ اور اب ‘جوان’ کے بعد شاہ رخ خان پوری طرح سے ایک رومانٹک ہیرو سے ایکشن ہیرو میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ شاہ رخ خان انڈیا میں اس وقت سپرا سٹار بنے جب اس میں ملک  میں اقتصادی لبرلائزیشن کا دور تھا ؛یعنی نہرو کے سوشلزم سے انحراف کرکے پی وی نرسمہا راؤ کے کیپٹل ازم کو انڈیا پوری طرح  سے گلے لگا چکا تھا۔

اس نے انڈیا کو نہ صرف معاشی طور پر بلکہ ثقافتی طور پر بھی متاثر کیا، اور اس نے ایک ایسا سپراسٹار پیدا کیا جو دلیپ کمار کے ‘رام اور شیام’ راج کپور کے’آوارہ’ یا امیتابھ بچن کے ‘اینگری ینگ مین’ کی طرح انڈیا کی طبقاتی اونچ نیچ میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔

سال 1995 کی ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ اور اس کے بعد شاہ رخ خان اور کرن جوہر کی  2000 کی دہائی فلمیں غریب آدمی میں کم اور انڈیا کے بزنس مین اور گلیمرس این آر آئی اور لندن اور نیویارک کی سڑکوں میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں ۔

ہاں، اس میں ‘سودیش’ شاید ایک واحد استثنیٰ ہے۔ یوں تو شاہ رخ خان سے ‘سودیش’ کے بارے میں کسی انٹرویو میں پوچھا جاتا ہے تو وہ تھوڑا چڑ کر کہتے ہیں کہ ‘ہاں نا یار کر لی نہ سودیش، اب باربار کیا وہی کروں ، میں صرف انٹرٹینمنٹ میں انٹریسٹیڈ ہوں’۔

اس کے باوجود ان کی حالیہ فلموں سے پتہ چلتا ہے کہ انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ بہرحال وہ کسی نہ کسی قسم کی میسیجنگ میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں، خواہ وہ اس سے کتنا ہی انکار کیوں نہ کریں۔

چوں کہ پاکستان میں ابھی زیادہ تر لوگوں نے ‘جوان’ نہیں دیکھی ہوگی، اس لیے میں یہاں اپنی باتوں کو اسپایلر فری رکھوں گی۔

حالانکہ، میں اسپایلر کے آئیڈیا میں کچھ خاص یقین نہیں رکھتی، کیونکہ یہ کوئی مرڈر– مسٹری تو ہے نہیں کہ آپ کو پتہ لگ جائےگا کہ کس نے قتل کیا۔ یہ ایک ریگولر ایکشن تھرلر فلم ہے۔ ویسے بھی  فلم ایک سینمیٹک ایکسپیرینس ہوتی ہے تو آپ اسی تجربے کے لیے اسے دیکھتے ہیں بجائے اس کے کہ یہ کس نے کیا۔ تو میرے خیال میں اسپایلرایک بیکار کی بات ہے۔

بہرحال، جوان میں 6 لڑکیوں کی ٹیم ہے، جو شاہ رخ خان کی مدد کرتی ہے اس کام میں جو وہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 شروع میں یوں لگتا ہے کہ وہ ایک–ایک کرکے ان تمام لڑکیوں کا بدلہ چکائیں گے، جنہیں غلط طریقے سے سزائیں دے کر جیل میں بند کیا گیا ہے۔ اس آئیڈیا نے مجھے دلیپ کمار کی فلم ‘دنیا’ کی یاد دلائی۔ لیکن یہاں پر وہ دو بدلے کے بعد ہی رک جاتے ہیں اور فلم کسی اور ہی ڈگر پر چل پڑتی ہے۔

فلم کا سب سے اہم اور موونگ حصہ انڈیا کےکسانوں کی خودکشی کے بارے میں ہے، ۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کو انڈیا میں صحافیوں اور قلمکاروں نے خوب اجاگر کیا ہے۔ یہ عوامی حافظےمیں بھی ہے، لیکن ماس امیجینیشن میں اس کو لے کر آنا ایک بڑی فلم کا کام ہی ہو سکتا ہے۔

وہ ڈائیلاگ جو کسانوں کی بے بسی کو ہائی لائٹ کرتے ہیں، رلا دینے والے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کنٹراسٹ جو امیر اورغریب انڈیا کے بیچ ہے، وہ واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ مثلاً، ایک کسان چالیس ہزار وپے کے قرض کی وجہ سے خودکشی کرنے کو مجبور ہو جاتا ہے، جبکہ بڑے کاروباریوں کے چارسو کروڑ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

 جب تک یہ فلم اس موضوع کے ارد گرد رہتی ہے کہ کس طرح سے انڈیا کا امیر طبقہ استحصال کے ذریعے امیر ہوتا جاتا ہے اور غریب کس طرح سے غریب ہی رہ جاتا ہے، تو یہ فلم بہت اسٹرانگ محسوس ہوتی ہے۔ لیکن پھر یہ پلٹا کھاتی ہے اور دوسرے حصہ میں شاہ رخ خان کو اسٹائلس فائٹ سین کرنے والے ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہوئے فلم انہی سب چیزوں میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دیتی ہے۔

دیپکا پڈوکون جب جب پردے پر آتی ہیں تو اسے لائٹ اپ کر دیتی ہیں۔ اسپیشل اپیرینس کے طور پر ان کے حصے میں آیا فلم سیکوینس کافی اچھا ہے۔ شاہ رخ خان کے ساتھ ان کی کیمسٹری نین تارہ اور شاہ رخ خان کی کیمسٹری کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ ان کے اور شاہ رخ خان کے گانے میں ‘اوم شانتی اوم’، ‘چنئی ایکسپریس’ وغیرہ کے حوالے بہت واضح نظر آتے ہیں بلکہ ساری فلم ہی پرانے بالی وڈ کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے۔ جیسے ایک ڈائیلاگ میں شاہ رخ خان ‘کشمیر سے کنیا کماری’ کہتے ہیں، جو چنئی ایکسپریس کے ایک گانے کی لائن ہے۔ اسی طرح شاہ رخ خان کا ڈبل رول،’ڈپلیکیٹ’ اور امیتابھ کی اسی کی دہائی کی بہت سی فلمیں — جیسے کسی کردار کا یادداشت کھو دینا، بگ بگ اٹیز انڈین سنیما ٹرپ، فلم کے آخر میں ولن کے ساتھ لڑائی اور اس لڑائی میں پانسے پلٹنا، فلم شعلے کے گانے ‘یہ دوستی…’ میں جو موٹر بائیک استعمال ہوئی ہے اس طرح  کی موٹر بائک وغیرہ۔

یوں کہیں کہ ناستلجیا پرشدید انحصار ہے، تین مہینے پہلے آئی کرن جوہر کی ‘راکی اور رانی کی پریم کہانی’ میں بھی اسی قسم کے ناستلجیا پر بہت گہرا انحصار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے یہ دونوں فلمیں بہت اچھی لگیں، ‘راکی اور رانی’،’جوان’ سے تھوڑی زیادہ۔

 لیکن انہیں دیکھ کر یہ بھی احساس ہوا کہ یہ ہندی سنیما کے سنہرے دور کی طرف ہا ف بیک کرنے کی کوشش ہے۔ اس دور میں جب ہیرو ہیروئن اورجذبات و احساسات لارجر دین لائف ہوا کرتے تھے اور اسی موڈ کو ری–کیپچر کرنے کے چکر میں ان فلموں کو حوالوں اور ناستلجیا کے ساتھ اوپر تک بھر دیا گیا ہے۔ حالاں کہ، یہ آئیڈیا یہاں واضح طور پر کارگر نظر آتا ہے خاص طور پر’جوان’ کے باکس آفس پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے ۔

 لیکن ان نئی فلموں کو دیکھ کر مجھے کچھ یوں محسوس ہوا کہ شاہ رخ خان اور کرن جوہر کچھ نیا نہیں بلکہ کچھ پرانا کر رہے ہیں۔ نئی بوتل میں پرانی شراب۔ ہندی سنیما کے ایسے دور میں جہاں زویا اختر اور امتیاز علی کی فلمیں بھی ہیں، وہاں شاید پروگریسو کنٹینٹ کے لیے مجھے کرن جوہر کی ضرورت نہیں ہے۔

سنیما کے ہیرو سماج کے ہیرو ہیں یا نہیں ؟

 ایک طرف تو شاہ رخ خان ‘جوان’  کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں، تو دوسری طرف گزشتہ 10 سالوں سے ملک کے اقتدار کو سنبھال رہے نریندر مودی کو ٹوئٹ کرکے ان کی بے انتہا تعریف کر رہے ہیں اور خوشامد کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔

شاید انڈیا میں ہیرو بننے کے لیے اور پھر اسے قائم رکھنے کے لیے اسی قسم کی دو دھاری تلوار پر چلنا ضروری ہے۔

بہرحال، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ‘جوان’ کم از کم اپنے پہلے ہاف میں ‘شائننگ انڈیا’ کی متھ کو بسٹ کر رہی ہے۔ لیکن دونوں ‘پٹھان’ اور ‘جوان’ شائننگ انڈیا کے ایک پہلو کو بالکل بھی ٹچ نہیں کرتے، اور وہ ہے مذہبی انتہا پسندی۔

‘پٹھان’ کا سب ٹیکسٹ بھی اچھا تھا، پیس فل تھا، سیکولر انڈیا کے بارے میں تھا۔ اس فلم میں عام خیال کے برعکس نہ تو پاکستان کے خلاف کوئی اشتعال انگیز مواد تھا اور نہ ہی کشمیر کے خلاف۔ اس میں افغان مسلمانوں کو ٹوکن گڈ کے طور پر بھی دکھایا گیا تھا۔

لیکن’ جوان’ کا ایک بہت ہی اہم سین ہے، جس میں دشمن پشتون جیسے نظر آنے والے لوگ ہیں۔ اب وہ پاکستانی پشتون ہیں، طالبان ہیں کیا ہیں، اس کو مبہم رکھا گیا ہے، لیکن ان کی وضع قطع ایسی دکھائی گئی ہے  جیسے کہ ایک مسلمان ٹیریرسٹ کا اسٹیریو ٹائپ ہوتا ہے۔

 ایک سین میں شاہ رخ خان پورے انڈیا سے براہ راست مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال ذات پات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر کریں۔ پوری فلم میں یہ واحد جملہ ہے جو کسی قسم کی مذہبیت کے مسائل کو براہ راست ٹچ کرتا ہے۔

اس کے برعکس، زویا اختر اور ان کے ساتھیوں کا شو ‘میڈ ان ہیون’ اپنے ہر ایپی سوڈ میں انڈیا کے کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ لیکن، اس کے بھی دونوں سیزن کے کسی بھی ایپی سوڈ میں کسی بھی طرح کی مذہبی اسٹرائف کے بارے میں کوئی بات نہیں ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ پورا بالی وڈ ہی ان مسائل پر خاموش ہے۔ اسی سال ریلیز ہوئی فلم ‘افواہ’ جو لو جہاد کی جھوٹی افواہوں کے بارے میں ہے، 2018 کی فلم’ ملک’، 2019 کی ‘آرٹیکل 15’ ان مسئلوں پر واضح اسٹینڈ لیتی  ہیں۔

لیکن شاید صرف شاہ رخ خان اور زویا اختر جیسے مسلم بیک گراؤنڈ کے لوگوں کے لیے ہی اس قسم کے سبجیکٹ کو ٹیکل کرنا زیادہ مشکل ہے، لیکن بہرحال یہ خاموشی بھی بذات خود بہت کچھ کہہ رہی ہے۔

آخری بات عرض کرنے سے پہلے میں یہ ضرور کہوں گی کہ جس حد تک ‘جوان’ گئی ہے، پاکستان میں تو اتنی حد تک جانا بھی ممکن نہیں ہے۔ انڈیا میں ڈیموکریسی سب سے طاقتور فورس ہے اور اس فلم میں اس ڈیموکریسی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں جو سب سے طاقتور فورس ہے اس کو تنقید کا نشانہ بنانا ناممکن ہے۔

 اسی سال میں نے ایک پاکستانی فلم ‘منی بیک گارنٹی’ دیکھی، اس کو دیکھ کر دس منٹ میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس میں کس نے پیسہ لگایا ہے۔ لیکن اتنا پیسہ لگانے کے باوجود یہ جس طرح سے ہماری نااہلی اورتخیلاتی بانجھ پن کو ڈسپلے کرتا ہے، وہ بہت ہی شرمناک ہے۔ یہ فلم 1980 کی دہائی کی پانچویں جماعت کسی جھانکی میں لگانے کے لائق بھی نہیں ہے، اور جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ اچھا پروپیگنڈہ بنانے کے لیے پہلے آپ میں اچھا آرٹ بنانے کی اہلیت ہونی چاہیے۔

(صباحت زکریا پاکستانی رائٹر اور کلچر کریٹک ہیں۔ یہ مضمون ان کے ایک ویڈیو بلاگ کا جزوی طور پرترمیم شدہ متن ہے۔)