نیوز کلک کے خلاف درج کیے گئے پولیس کیس کے صحیح اور غلط ہونے کی بات نہ کریں تو بھی ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مبینہ سازش کاروں کا پتہ لگانے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے میں مودی حکومت کے موقف پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔
نیوز کلک اور اس کے بانی پربیر پرکایستھ کے خلاف دہلی پولیس کی جانب سے دہشت گردی کے مقدمے کی بنیاد یہ ہے کہ وہ ایک امریکی کاروباری نیول رائے سنگھم سے فنڈ حاصل کرتے ہیں، جس نے ہندوستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے لاکھوں ڈالر کی منتقلی کے لیے امریکہ میں واقع اداروں کا استعمال کیا تھا۔ کیوں؟ ہندوستانی سماج کے مختلف طبقات میں عدم اطمینان پیدا کرنے اور ‘ایک ممنوعہ دہشت گرد تنظیم کے ساتھ فعال طور پر ہمدردی رکھنے ‘کے ارادے سے’ ‘املاک کی بربادی اور تباہی کو فروغ دینا’ تاکہ ملک کی یکجہتی، سالمیت، سلامتی اور خود مختاری کو خطرہ لاحق ہو۔’
ایف آئی آر میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سنگھم نے چین کے اشارے پر کام کیا، کیونکہ وہ ‘چین کی کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈہ ونگ کا ایک فعال رکن ہے’ اور دو چینی ٹیلی کام کمپنیوں – شاؤمی اور وی وو نے اس سازش کو انجام دینے کے لیے ‘ہزاروں فرضی کمپنیاں’ اور ‘غیر ملکی پیسہ ہندوستان میں لانے’ میں مدد کی تھی۔
اب تک، پولیس نے پرکایستھ اور نیوز کلک کے ایک اور اسٹاف کو ہندوستان کے سخت انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا ہے۔ 50 سے زائد دیگر افراد سے فون اور کمپیوٹر ضبط کیے گئے ہیں، جن میں اکثر صحافی ہیں۔ نیوز کلک کے خلاف درج کیے گئے پولیس کیس کے صحیح اور غلط میں جائے بغیر، ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مبینہ سازش کاروں کا سراغ لگانے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں مودی حکومت کی سنجیدگی پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔
اول —
کیا حکومت ہند نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت سے ان کے شہری نیول رائے سنگھم، جن کی نیوز کلک کو کی گئی فنڈنگ کو دہلی پولیس نے دہشت گردی کا جرم قرار دیا ہے، کے خلاف کارروائی کرنے اور / یا سونپنے کی گزارش کی ہے؟
قابل ذکر ہے کہ 17 اگست 2023 کو درج کی گئی ایف آئی آر، حکام کے یہ کہنے کہ انہوں نے پرکایستھ کے اکاؤنٹس سے سینکڑوں ہزاروں ای میل کے تجزیہ کے بعد درج کیا ہے۔ وہ ای میل جنہیں دو سال قبل اس وقت ضبط کیا گیا تھا، جب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے پہلی بار نیوز پورٹل کے دفتر پر چھاپہ مارا تھا۔
پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے اور نہ ہی بعد میں، حکومت نے سنگھم سے پوچھ گچھ کرنے کی کوئی کوشش کی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایف آئی آر میں ملزم نمبر 3 ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس کیس میں مالیاتی رو سے اہم شخص ہیں۔
کیا یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ حکومت جانتی ہے کہ سنگھم کے اداروں سے فنڈز کی منتقلی بالکل ویسی ہی ہے جو بھیجنے والے اور پانے والے نے بتایا ہے؛ سنگھم کی کمپنی کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا استعمال کرتے ہوئے ایک حقیقی سرمایہ کاری؟ اور اگر ہندوستان امریکی حکام سے کارروائی کی درخواست کرتا ہے تو کیا وہ رد کر دی جائے گی؟
دوم —
کیا حکومت ہند نے پیرس میں فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سکریٹریٹ کو مطلع کیا ہے کہ نیول رائے سنگھم اور اس کی کمپنیاں ٹیرر فنڈںگ میں ملوث ہیں تاکہ دنیا بھر کے تمام ممالک اس کے خلاف کارروائی کرسکیں؟ کیا ان کا ارادہ انٹرپول سے ان کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کرنے کی درخواست کرنے کا ہے؟
پچھلے کچھ سالوں سے ہندوستانی حکومت نے ٹیرر فنڈنگ کے سوال پر ایف اے ٹی ایف کے عمل کے ذریعے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن پھربھی، آج کی تاریخ میں بین الاقوامی مالیاتی مضمرات کے ساتھ ایک بڑی دہشت گردانہ سازش کے ثبوت کے ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ نئی دہلی نے ایف اے ٹی ایف کا رخ کیا ہے۔
کیا یہ اس لیے ہے کہ ای ڈی اور ایف اے ٹی ایف کے عمل سے واقف دیگر ایجنسیاں جانتی ہیں کہ ان کا کیس گمبھیر آزادانہ جانچ پڑتال کا سامنا نہیں کر پائے گا؟
سوم—
کیا حکومت ہند کا یہ سرکاری موقف ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) اور اس کے زیر انتظام چینی حکومت ہندوستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کر رہی ہے؟
دہلی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کو رپورٹ کرتی ہے اور وہ سی پی سی کے ایک ‘فعال رکن’ پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ ہندوستان میں سرکاری چینی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے غیر قانونی فنڈنگ کا استعمال کر رہا ہے، خصوصی طور پر کشمیر اور اروناچل پردیش کی حیثیت کے سوال پر، تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کا خیال ہے کہ چین ہندوستان کے اندر دہشت گردی اور اس سے متعلقہ غیر قانونی سرگرمیوں کی مدد اور حوصلہ افزائی کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے، تو کیا ہندوستان اب بیجنگ کے ساتھ تمام مذاکرات معطل کر دے گا، کیونکہ حکومت کا سرکاری موقف یہ ہے کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے؟
کیا مودی حکومت چین سے ہندوستان میں تعینات سفارتکاروں کی تعداد کم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے کیونکہ چینی فریق – پولیس کے الزام کے مطابق – واضح طور پرہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے ہندوستان نے کینیڈین سفارتکاروں پر مداخلت کا الزام لگایا گیا ہے؟
چہارم —
اب جبکہ نیوز کلک پر چین سے بالواسطہ طور پر فنڈ حاصل کرنے کا الزام ہے، کیا ای ڈی، این آئی اے اور دہلی پولیس کی اسپیشل سیل اب ہراس ہندوستانی کمپنی کے خلاف یو اے پی اے اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کرنے جا رہی ہے جس نے گزشتہ 10 سالوں میں براہ راست یا بالواسطہ چینی فنڈ حاصل کیا ہے؟
نیوز کلک کو سنگھم کا فنڈ ٹرانسفر باقاعدہ بینکنگ چینلوں کے توسط سے امریکہ سے ہوا، لیکن پولیس اور ای ڈی کا کہنا ہے کہ فنڈ دراصل چین سے ہے اور اس طرح ہندوستان کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے خطرہ پیدا کرتے ہیں۔ سنگھم کے وکیل اس دعوے پر اعتراض کرتے ہیں کہ نیوز کلک کو دی گئی رقم ‘چینی’ ہے، لیکن ہندوستان میں ایسی سینکڑوں کمپنیاں ہیں جنہوں نے حقیقت میں ایف ڈی آئی، ایف آئی آئی اور کمرشیل آرڈر کی صورت میں چین میں واقع اداروں سے براہ راست فنڈنگ حاصل کی ہے۔
کیا ہندوستانی حکومت ان تمام کمپنیوں کی چھان بین کرے گی اور اس میں ملوث ہر سی ای او اور پروموٹر کے الکٹرانک آلات ضبط کرے گی تاکہ ملک مخالف سرگرمیوں کے شواہد کی چھان بین کے لیے ان کے ای میل اور دیگر پیغامات کی جانچ کی جا سکے؟
پنجم —
ایف آئی آر کے مطابق، نیول رائے سنگھم کو شنگھائی کا باشندہ بتایا گیا ہے۔ کیا ہندوستانی حکومت نے چینی حکومت کو خط لکھ کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے – اس طرح جیسے اس نے کینیڈا سے وہاں موجود ہندوستان مخالف دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا ہے؟
چین شاید تعاون نہ کرے لیکن کیا ایسی کوئی درخواست بھی کی گئی ہے؟ اور کیا سنگھم کی حوالگی نہ ہونے پر حکومت چین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کو تیار ہے؟
ششم —
کیا مودی حکومت اب شاؤمی اور وی وو کو ملک میں کام کرنے سے روک دے گی اور انہیں ہندوستان سے نکال دے گی؟
شاؤمی اور وی وو کی ہندوستان میں کئی دوسری کمپنیوں میں سرمایہ کاروں کی صورت میں، موبائل فون کے مینوفیکچررز اورسپلائرکے طور پر نمایاں موجودگی ہے۔ ای ڈی اب تین سال سے ان کی تفتیش کر رہی ہے اور ہندوستانی بینک کھاتوں میں ان کے سینکڑوں کروڑ روپے فریز پڑے ہیں، لیکن ان کے پاس اب بھی ہندوستان میں پروڈکشن بڑھانے کے بڑے منصوبے ہیں۔ مزید یہ کہ مرکزی حکومت کے سرفہرست وزراء نے ان کا استقبال کیا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اب حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ملک کو غیر مستحکم کرنے کی سنگھم کی سازش کے حصے کے طور پر دونوں کمپنیوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں فنڈ بھیجنے کے ثبوت ہیں، ایسے میں انہیں ہندوستان میں کام بڑھانے کی اجازت دینا کیا دانشمندانہ فیصلہ ہوگا؟
مودی حکومت کے پاس ان سوالوں کے کیا جواب ہیں، اس سے اس دہشت گردی کی سازش کی حقیقت کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلے گا، جس کی بنیاد پر نیوز کلک کے خلاف پولیس کارروائی کی جا رہی ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر