خبریں

وزارت دفاع کا ’اچھے کام‘ دکھانے کے لیے ’سیلفی پوائنٹ‘ بنانے کا حکم، وزیراعظم کی فوٹو لازمی

سابق دفاعی سربراہوں نے اس کو’سیاست’ قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی شدید تنقید کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے انتخابات کے موقع پر اس طرح کی  سیاسی مہم کو وزارت دفاع سے دور رکھنے کی روایت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

وزارت دفاع کی جانب سے اس کے اداروں اور محکموں کو بھیجے گئے 'سیلفی پوائنٹ' کی مثالیں۔

وزارت دفاع کی جانب سے اس کے اداروں اور محکموں کو بھیجے گئے ‘سیلفی پوائنٹ’ کی مثالیں۔

کولکاتہ: وزارت دفاع نے ہدایت دی ہے کہ ملک کے اہم  شہروں میں اس کے تمام محکموں اور تنظیموں کے ذریعے ‘دفاعی شعبے میں کیے گئے اچھے کاموں کو دکھانے’ کے لیے جیو ٹیگ والے ‘سیلفی پوائنٹ’ بنائے جائیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ ‘سیلفی پوائنٹ’ تھری ڈی جھانکی کی طرح ہوں گے۔ ان سب کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

حکومت کا ہدف  ایسے 822 سیلفی پوائنٹ بنانے کا ہے۔

ڈیفنس اکاؤنٹس کے کنٹرولر جنرل  کی جانب سےجاری کردہ نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سیلفی پوائنٹ اس وسیع ‘تھیم’ سے منسلک ہوگا، جو ان کے دائرے میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دفاعی پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگس اور تھری سروسز ’آتم نر بھر بھارت‘ تھیم کے تحت سیلفی پوائنٹ بنائیں گی۔ تینوں خدمات کے لیے ’امپاورمنٹ‘ بھی ایک تھیم ہوگی۔ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) اور ڈیفنس پروڈکشن ڈپارٹمنٹ کا تھیم ’ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اینڈ انوویشن‘ ہوگا۔

محکمہ دفاع کے جوائنٹ سکریٹری (کوآرڈینیشن) کے دستخط شدہ اور ویب سائٹ پر دستیاب رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ ہر محکمہ کو 11 اکتوبر تک متعلقہ افسران اور میڈیا اینڈ کمیونی کیشن کے اے ڈی جی کو ‘ایکشن رپورٹ’ پیش کرنی ہوگی۔

‘اہم لوکیشن’

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ میڈیا اور کمیونی کیشن کے اے ڈی جی کو جمعہ (13 اکتوبر) کو ‘سیلفی پوائنٹ بنانے کے حوالے سے پیش رفت’ پر وزیر دفاع کے سامنےایک پریزنٹیشن دینا تھا۔

ڈیفنس اکاؤنٹس کے کنٹرولر جنرل نے نو شہروں – نئی دہلی، ناسک، الہ آباد، کولم، پونے، کولکاتہ، بنگلورو، گوہاٹی اور میرٹھ میں ‘سیلفی پوائنٹ’ بنانے کی منظوری دی ہے۔

وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹ میں کہا گیا ہے کہ انہیں بنانے کا فیصلہ 14 ستمبر کو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی صدارت میں ہوئی میٹنگ میں لیا گیا تھا۔ اس میں  اس بات پر زور دیا گیا کہ انہیں ‘ نمایاں مقامات پر بنایا جانا چاہیے، جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ آتے ہوں اور جو عوام کی توجہ مبذول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔’

وزارت نے جنگی یادگاروں، دفاعی عجائب گھر، ٹرین، میٹرو اور بس ا ڈے، ہوائی اڈے، مال، اسکول، کالج، بازار، سیاحتی مقامات اور یہاں تک کہ تہواروں اور تقریبات کی مثالیں بھی اس میں جوڑی  ہیں۔

وزارت نے کہا ہے کہ ہر مقام پر نریندر مودی کی تصویر ہونی چاہیے اور ‘لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ بھی اس پہل کا حصہ ہیں۔’

یہ بھی کہا گیا ہے کہ متعلقہ محکمے کو ایک علیحدہ ایپ، سوشل میڈیا ہینڈل (توجہ حاصل کرنے والی آئی ڈی کے ساتھ)، ای میل اور وہاٹس ایپ اکاؤنٹ کے ذریعےایک فیڈ بیک میکنزم بھی قائم کرنا ہوگا، جس کا استعمال  لوگ اپنی سیلفی محکمہ کو بھیجنے کے لیےکر سکتے ہیں۔

نوٹ میں اس بارے میں بھی تفصیل سے  بتایا گیا ہے کہ ہر ونگ کے تحت ہر ادارے کے کتنے سیلفی پوائنٹس بنائے جانے کی توقع ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستانی فوج کو 100 پوائنٹ کی ذمہ داری ملی ہے۔ نیشنل کیڈٹ کور (این سی سی) کو  30 کی ذمہ داری ملی ہے۔

ڈیفنس اکاؤنٹس کے کنٹرولر جنرل کے9 اکتوبر کے نوٹ میں بتائے گئے تھیم پنشن کے فوائد، الاؤنسز کا اجرا، خواتین کو بااختیار بنانا اور سوچھ بھارت ہیں۔

محکموں کو دی گئی کچھ مثالوں میں’ویکسین اور یوگا’ سے لے کر ‘اجولا یوجنا’، ‘جل جیون مشن’ تک، ہر طرح  کی سرکاری اسکیمیں اور پالیسیاں نظر آتی ہیں۔

سابق فوجی افسر کی جانب سےتنقید

اس فیصلے پر سابق آرمی سربراہوں  کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے وزارت دفاع کو انتخابات کےموقع پر اس طرح کی سیاسی مہم سے دور رکھنے کی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

(ریٹائرڈ) جنرل اور سابق آرمی چیف وید پرکاش ملک نے دی وائر کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ مسلح افواج کو ‘سیاست سے دور رہنا چاہیے اور ان کے نام پرسیاست کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔’

جنرل نے کہا کہ ‘یہ نہ تو مسلح افواج کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ملک کے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کارگل پر لکھی ان کی کتاب میں انہوں نے ‘لیو اس الون، وی آر اے پولیٹیکل ‘(ہمیں بخش دیں،  ہم غیر سیاسی ہیں)کے عنوان سے ایک پورا باب بھی ہے ۔

اسی طرح بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ارون پرکاش نے دی وائر کو بتایا کہ یہ ایک ایسا پروگرام ہے جس پر ‘کبھی غور نہیں کیا جانا چاہیے’۔ اس کے افواج پر منفی اور طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔

ایڈمرل نے کہا، ‘مجھے ‘سیلفی پوائنٹ’ پروگرام کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے، لیکن عام انتخابات کے موقع پرکوئی بھی ایسی کوشش جس میں دور سے ہی صحیح فوج سے منسلک سیاسی اثر و رسوخ کا کوئی عنصر ہو،  وہ صرف خطرے کی گھنٹی ہے۔  وزارت دفاع کو اس پر کبھی غور نہیں کرنا چاہیے تھا اور امید ہے کہ فوجی قیادت ہماری پیشہ ور افواج کے حوصلے اوریکجہتی  پر سیاست کےطویل مدتی  مضر اثرات کو سمجھے گی۔’

تبصرہ نگار اور وزارت دفاع کے سابق اہلکار امت کاؤشش کا کہنا ہے کہ لوگوں کو سرکاری اداروں کی جانب سے کیے گئے اچھے کام کے بارے میں بتانا کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن اس طریقے سے،اس کے مقصد پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ زیادہ تر لوگوں کے سرکاری تنظیموں کے تئیں تنقیدی رویے کو ذہن میں رکھیں تو انہیں حکومت کی طرف سے کیے گئے کچھ اچھے کام کے بارے میں پتہ چلنے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا، لیکن سیلفی پوائنٹ بنانا ناقابل یقین حد تک آؤٹ ریچ  کا معاملہ ہے۔ اس سے تنظیموں کی توجہ اس کام سے ہٹ جائے گی جو انہیں کرنا چاہیے۔’

خبروں کے مطابق، گزشتہ ماہ ہندوستانی فوج نے اپنے تمام فوجیوں کو چھٹی پر جانے والے ایک حکم نامے میں کہا تھا کہ وہ 60 دن کی سالانہ چھٹی حاصل کرنے کے حقدار ہیں تاکہ وہ ‘نیشن بلڈنگ کی کوششوں’ کو بڑھا نے کے لیے ‘سماجی خدمت’ کے لیے وقت نکال سکیں۔

چھٹی پر جانے والے فوجیوں کو سوچھ بھارت ابھیان، سرو شکشا ابھیان، راشٹریہ اچتر شکشا ابھیان، غریب کلیان روزگار ابھیان، آیوشمان بھارت یوجنا اور جن اوشدھی کیندر، نیشنل پنشن اسکیم (این پی ایس)، اٹل پنشن یوجنا، پشو دھن بیمہ ، نیشنل ہیلتھ انشورنس اسکیم، دین دیال گرامین کوشلیہ یوجنا اور گرام جیوتی یوجنا جیسی اسکیموں کے فوائد کے بارے میں ‘مقامی کمیونٹی سے بات کرنے’ کے اس مشورے کو مسلح افواج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کے طور پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

(سدھارتھ وردراجن کے ان پٹ کے ساتھ)

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)