خبریں

مرکزی وزیر نے کہا – فون پر ’کیا بھوکے ہیں‘ پوچھ کر بناتے ہیں ہنگر انڈیکس، اپوزیشن نے بنایا تنقید کا نشانہ

حیدرآباد میں ایک تقریب میں شامل ہوئیں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے گلوبل ہنگر انڈیکس کے حوالے سے کہا کہ اس کے لیے 140 کروڑ کے ملک کے 3 ہزار لوگوں کو فون کر کے پوچھا جاتا ہےکہ کیا وہ بھوکے ہیں؟ گزشتہ دنوں جاری اس سال کے انڈیکس میں ہندوستان 125 ممالک کی فہرست میں111 ویں نمبر پر آیا ہے۔

مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی حیدرآباد میں فکی کے پروگرام میں۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: ٹوئٹر)

مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی حیدرآباد میں فکی کے پروگرام میں۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: گزشتہ ہفتے دو یورپی ایجنسیوں کی طرف سے جاری کی گئی  گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں ہندوستان 125 ممالک کی فہرست میں 111 ویں نمبر پر آیا ہے۔ ہندوستان گزشتہ سال کے مقابلے میں چار درجے نیچے آیا ہے۔

ہندوستان سے نیچے کی رینکنگ والے ممالک افریقہ کے بہت سے چھوٹے ممالک ہی ہیں۔

بہرحال، گزشتہ مواقع کی طرح اس سال بھی حکومت ہند نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ ایک بیان میں حکومت نے رپورٹ کی تیاری کے طریقہ کار کو ناقص قرار دیا ہے اور استعمال کیے گئے چار پیرامیٹرز کے انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا۔

اب مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے اس رپورٹ کو  تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جمعرات کو حیدرآباد میں فکی  کے ایک پروگرام میں شامل ہوئی  ایرانی کا ایک ویڈیو کلپ سامنے آیا ہے،جس میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آرہی ہیں کہ گلوبل ہنگر انڈیکس سمیت کچھ انڈیکس  جان بوجھ کر ہندوستان کی سچائی کو پیش نہیں کرتے۔’

وہ کہتی ہیں،’وہ یہ انڈیکس بناتے کیسے ہیں؟ 140 کروڑ کے ملک کے 3000 لوگوں کو کال آتی ہے اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ بھوکے ہیں؟…میں صبح چار بجے دہلی سے اپنے گھر سے نکلی تھی۔ میں نے پانچ بجے کوچی کی فلائٹ پکڑی۔ وہاں ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد شام پانچ بجے یہاں آنے کے لیے فلائٹ لی۔ جب تک مجھے کھاناملے گا، دس بج چکے ہوں گے۔ اگر آپ مجھے دن میں کسی بھی وقت فون کرتے اور پوچھتے کہ میں بھوکی ہوں تو میں بالکل ہاں کہتی۔’

اس کے بعد وہ ہنسنے لگتی ہیں اور مزید کہتی ہیں،’کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ اس طرح کا انڈیکس کہہ رہا ہے کہ پاکستان انڈیا سے بہتر کر رہا ہے۔’

حزب اختلاف نے ایرانی کے بیان کو غیر حساس قرار دیا

کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت نے مرکزی وزیر کے بیان پر تنقید کی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا، ‘کیا آپ واقعی سوچتے ہیں کہ گلوبل ہنگر انڈیکس کا حساب صرف لوگوں کو فون کرکےاور ان سے یہ پوچھ کر کیا جاتا ہے کہ کیا وہ بھوکے ہیں؟ آپ حکومت ہند میں خواتین اور اطفال کی ترقی کی وزیر ہیں- میں آپ کو سن کر حیران ہوں، سچ کہوں تو مجھے شرم آتی ہے۔’

انہوں نے مزید لکھا، ‘کسی ملک کا گلوبل ہنگر انڈیکس بنیادی طور پر 4 چیزوں پر مبنی ہوتا ہے • غذائیت کی کمی • بچوں میں سٹنٹنگ • بچوں میں ویسٹنگ • بچوں کی شرح اموات۔ براہ کرم بھوک کا مذاق نہ بنائیں– آپ ایک بہت طاقتور، امیر خاتون ہیں، حکومت ہند میں وزیر ہیں!آپ جن طیاروں میں صبح سے اڑ رہی ہیں اور جس بھی  شہر میں جارہی ہیں ں وہاں مزیدار اور خاطرخواہ  کھانا دستیاب ہے! مصروفیت میں کھانا نہ کھا پانا اور پیٹ بھر کر کھانا نہ ملنے میں فرق ہے میڈم!’

شیوسینا (ادھو گٹ) کی ایم پی  پرینکا چترویدی نے بھی ایرانی کے بیان پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایک پوسٹ میں ان پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے لکھا، ‘کھانے کے لیے وقت نہ ہونا = بہ مشکل کچھ کھانے کے لیے ہونا! اگرتکبر کا چہرہ ہوتا تو وزیر جیسا  ہی ہوتا۔’

قابل ذکر ہے کہ ہندوستان ان 40 ممالک کے گروپ میں ہے جہاں عالمی سطح پر بھوک  (گلوبل ہنگر)کے پیمانے کو ‘شدید’ قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کا مجموعی گلوبل ہنگر انڈیکس اسکور (جی ایچ آئی اسکور)28.7 ہے۔ اس اسکور کا حساب 100 پوائنٹ اسکیل پر کیا جاتا ہے۔ اسکور جتنا زیادہ ہوگا، ملک کی کارکردگی اتنی ہی خراب مانی جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ہندوستان کی’چائلڈ ویسٹنگ’ (قد کے لحاظ سے کم وزن) کی شرح سب سے زیادہ 18.7 فیصد ہے،  جو شدید غذائی قلت کی نشاندہی کرتی ہے۔ درحقیقت ‘ویسٹنگ’ کو بچوں کی ہر قسم کی غذائی قلت کی بدترین شکل اور اشارہ سمجھا جاتا ہے۔

اگر کسی ملک میں 15 فیصد سے زیادہ بچے ‘قد کے لحاظ سے کم وزن’ والے ہیں، تو اسے رپورٹ میں ‘انتہائی اعلیٰ’ سطح کی تشویش کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ اس طرح، ہندوستان واحد ملک ہے جہاں’چائلڈ ویسٹنگ’ کو ‘بہت زیادہ’ کےخانے میں  رکھا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی کل آبادی کا تقریباً 16.6 فیصد غذائی قلت کا شکار ہونے کی وجہ سےہندوستان کی غذائیت کی سطح کو ‘درمیانے’ جوکھم والے ممالک کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔  15-24 سال کی عمر کی خواتین میں خون کی کمی (اینیما) کے پھیلاؤ کو ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ ملک میں50 فیصد سے زیادہ خواتین اور نوعمر لڑکیاں خون کی کمی کا شکار ہیں جو کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ  میں سے ایک ہے۔