الیکشن نامہ

اسمبلی انتخابات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین ریزرویشن ابھی دور کی کوڑی ہے

پی آر ایس لیجسلیٹیو ریسرچ کے مطابق، حالیہ اسمبلی انتخابات میں چھتیس گڑھ واحد ریاست ہے جہاں 20 فیصد سے زیادہ خواتین ایم ایل اے منتخب ہوئی ہیں۔ یہاں کل 90 ایم ایل اے میں سے 19 خواتین نے کامیابی حاصل کی ہے۔

 (علامتی تصویر بہ شکریہ: X/@ECISVEEP)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: X/@ECISVEEP)

نئی دہلی: راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اتوار کو آ گئے۔ تلنگانہ کے علاوہ تمام ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑی جیت اور تلنگانہ میں کانگریس کی جیت کے علاوہ الیکشن کے اور بھی کئی پہلو ہیں جن کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ مرکزی حکومت نے خواتین ریزرویشن بل کو صرف دو ماہ قبل پاس کیا تھا (حالانکہ اسے زمین پر اترنے میں 2029 تک کا وقت لگے گا)، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ اسمبلی انتخابات خواتین کی نمائندگی کے معاملے میں کیا کہتے ہیں۔

پی آر ایس لیجسلیٹو ریسرچ کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان ریاستوں میں سے صرف ایک ریاست چھتیس گڑھ میں کل 90 ایم ایل اے میں سے 19 یا 20 فیصد سے زیادہ خواتین ایم ایل اے ہیں۔ یہ ریاستی اسمبلی میں خواتین کا اب تک کا سب سے زیادہ تناسب (21فیصد) ہے، لیکن خواتین کے بل کے ذریعے دے جانے والے 33فیصد ریزرویشن سے ابھی بھی بہت کم ہے۔

دیگر ریاستوں کی کارکردگی اس سے بھی بدتر رہی۔ تلنگانہ نے اس سال کل 119 میں سے 10 خواتین ایم ایل اے کو منتخب کیا، جو کہ 2018 کے چھ سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسمبلی میں 8فیصد خواتین ہوں گی۔

مدھیہ پردیش میں، خواتین امیدواروں نے 230 اسمبلی سیٹوں میں سے 27 پر کامیابی حاصل کی – جس سے ایوان میں ان کی حصہ داری 11.7 فیصد تک پہنچ گئی۔ اب تک کی سب سے زیادہ تعداد 2013 میں تھی، جب 30 خواتین ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔

راجستھان میں پچھلی بار کے مقابلے اس بار خواتین ایم ایل اے کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ جبکہ 2018 میں انتخابی میدان میں 24 خواتین تھیں، اس سال یہ تعداد کم ہو کر 20 – یعنی 10فیصد رہ گئی ہے۔