خبریں

جموں و کشمیر: فوج کی حراست میں رہے لوگ بولے- لاٹھیوں / لوہے کی راڈ سے مارا، زخموں پر مرچیں ڈالیں

جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں 21 دسمبر کو دہشت گردانہ حملے میں 4 جوانوں کی موت کے بعد فوج نے کچھ لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ بعد میں ان میں سے تین افراد کی لاشیں اس جگہ کے قریب ملیں جہاں دہشت گردوں نے فوج پر حملہ کیا تھا۔ پانچ دیگر کو زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا، جن میں ایک نابالغ بھی شامل ہے۔

نامعلوم فوجیوں کے ذریعے شہریوں پر تشدد کے ویڈیو کا اسکرین گریب۔

نامعلوم فوجیوں کے ذریعے شہریوں پر تشدد کے ویڈیو کا اسکرین گریب۔

نئی دہلی: جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں جوانوں پر گھات لگا کر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سیکورٹی فورسز کے ذریعے مبینہ طور پر اٹھائے گئے افراد میں سے ایک نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ہے کہ اسے اور حراست میں لیے گئے دیگر افراد کو برہنہ کرکے  پیٹا گیا اورر زخموں پر مرچ کا پاؤڈر لگایا گیا، جب تک کہ وہ بے ہوش نہ ہو گئے۔

ہسپتال کے بستر سے بات کرتے ہوئے 52 سالہ محمد اشرف نے دعویٰ کیا کہ انہیں اور چار دیگر افراد کو گزشتہ ہفتے سکیورٹی فورسز نے اٹھایا، جس کے بعد ‘انہوں نے ہمارے کپڑے اتارے اور ہمیں لاٹھیوں اور لوہے کی راڈ سے پیٹا’ ہمارے زخموں پر مرچ کا پاؤڈر چھڑک دیا۔’

گزشتہ 21 دسمبر کو جموں و کشمیر کے پونچھ میں ایک دہشت گردانہ حملے میں فوج کے چار جوانوں کی ہلاکت کے بعد مبینہ طور پر عام شہریوں کو اٹھایا گیا تھا۔ مبینہ طور پر پوچھ گچھ کے دوران تین شہریوں کی موت ہو گئی اور اشرف سمیت پانچ کوسنیچر (23 دسمبر) کو راجوری کے گورنمنٹ میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے اشرف نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، ‘میں وہی شخص ہوں جسے وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں ایک شخص کو فوج کے جوان لوہے کی راڈ اور لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔’

انہوں نے بتایا کہ صدمے کی وجہ سے وہ گزشتہ ہفتہ سے سو نہیں پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘جب آپ کے پورے جسم میں شدید درد ہو اور آنکھیں بند کرتے ہی اذیت کے خیالات آپ کے دل و دماغ کو پریشان کرنے لگیں تو کون سو سکتا ہے؟’

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ راجوری ضلع کے تھانہ منڈی حلقہ کے ہسبلوٹ گاؤں  کے رہنے والے اشرف نے 2007 سے جموں و کشمیر کے پاور ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ میں لائن مین کے طور پر کام کیا ہے۔ انہیں ماہانہ 9330 روپے تنخواہ ملتی ہے۔ اس سے وہ اپنے تین بچوں – ایک 18 سالہ بیٹی اور 15 اور 10 سال کے دو بیٹوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ کا انتقال اس سال 23 مارچ کو ہوگیا تھا۔

اشرف کے ساتھ راجوری کے اسپتال میں داخل دیگر چار افراد فاروق احمد (45 سال) اور فضل حسین (50 سال)، حسین کے بھتیجے محمد بیتاب (25 سال) اور ایک 15 سالہ نابالغ ہیں۔ یہ سبھی تھانہ منڈی حلقہ کے رہنے والے ہیں۔

ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ پانچوں کو ‘نرم ٹشو انجری’ (پٹھوں اور نرم بافتوں کی چوٹیں) ہیں، لیکن ان کے بارے میں تفصیل نہیں بتایا ۔

اشرف نے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی ٹھیک سے کھڑا یا بیٹھ نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا، ‘جب ہمیں طبی معائنے کے لیے یا بیت الخلا جانا ہوتا ہے تو وہ (ہسپتال کا عملہ) ہمیں وہیل چیئر یا اسٹریچر پر لے جاتے ہیں۔’

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سیکورٹی فورسز نے انہیں جمعہ (22 دسمبر) کی صبح تقریباً 9:30 بجے ان کے گھر سے اٹھایا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘وہ مجھے ڈی کے جی (دیہرا اسٹریٹ) کے قریب مانیال گلی میں لے گئے، جہاں ان کے ساتھی پہلے سے ہی ٹاٹا سومو میں فاروق احمد کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کچھ دیر بعد محمد بیتاب اور اس کے بھائی کو بھی لایا گیا اور وہ سب ہمیں ڈی کے جی میں اپنے کیمپ لے گئے۔’

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘صبح 10:30 بجے جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے ہمارے موبائل فون بند کر دیے اور بغیر کچھ کہے ہمیں لاٹھیوں اور لوہے کی راڈ سے مارنا شروع کر دیا۔’

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘کچھ دیر بعد انہوں نے ہمارے کپڑے اتار دیے اور پھر سے ہمیں لاٹھیوں اور لوہے کی راڈ سے مارنا شروع کر دیا اور ہمارے زخموں پر مرچ کا پاؤڈر لگاتے رہے یہاں تک کہ ہم بے ہوش ہو گئے۔’

دسویں جماعت میں پڑھنے والا 15 سالہ نوجوان بھی راجوری اسپتال کے اسی کمرے میں داخل ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پوچھ گچھ کے دوران سیکورٹی اہلکاروں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس نے دہشت گردوں کو کھانا فراہم کیا تھا اور ساتھ ہی ایک دعوت کا بھی ذکر کیا جو دہشت گردانہ حملے سے آٹھ دن قبل اس کے گھر پر منعقد کی گئی تھی۔

لڑکے نے کہا، ‘میں نے انہیں بتایا کہ میرے بھائی بیتاب کی شادی کے لیے پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔’ انہوں نے الزام لگایا کہ ان سوالات کے بعد اسے بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ مارا پیٹا گیا۔

محمد بیتاب مزدور ہیں، جو کشمیر میں کام کرتے تھے اور تقریباً دو ماہ قبل اپنی شادی کے لیے گھر آئے تھے۔شادی 15 دسمبر کو ہوئی تھی۔

انہوں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، ‘میں نے کشمیر میں کام پر واپس جانے سے پہلے تقریباً ایک ماہ تک اپنی بیوی کے ساتھ گھر میں رہنے کا منصوبہ بنایا تھا۔’

انہوں نے بھی الزام لگایا کہ ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی اور کہا کہ ‘میرے جسم کے اوپری حصے پر کوئی جلد (اسکین )نہیں بچی ہے۔’

بیتاب نے بتایا کہ دہشت گردانہ حملے کے چند گھنٹے بعد جمعرات کی شام پولیس ٹیم نے انہیں  ان کے بھائی اور چچا فضل حسین کے ساتھ تھانہ منڈی واقع ان کے گھر سے اٹھا لیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے انہیں تین گھنٹے بعد گھر واپس آنے کی اجازت دی اور اگلے دن تھانہ منڈی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے کو کہا۔

تاہم، بیتاب کے مطابق، جمعہ کی صبح پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے، ‘فوج کے اہلکاروں نے انہیں فون کیا اور کہا کہ وہ پہلے مانیال گلی میں ان سے ملیں۔’ وہ کہتے ہیں، ‘وہاں وہ ہمیں ایک گاڑی میں بٹھا کر ڈی کے جی ٹاپ پر اپنی پوسٹ پر لے گئے۔’

فوج کے تعلقات عامہ کے افسر نے راجوری اسپتال میں داخل پانچ افراد کے بارے میں کوئی معلومات ہونے سے انکار کیا ہے۔

جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں 21 دسمبر کو دہشت گردانہ حملے میں 4 جوانوں کی موت کے بعد فوج نے کچھ لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ بعد میں 3 افراد (سفیر حسین (48 سال)، محمد شوکت (28 سال) اور شبیر احمد (25 سال) کی لاشیں اس جگہ سے ملیں جہاں دہشت گردوں نے فوج پر حملہ کیا تھا۔ ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا تھا، جس میں فوج کے جوانوں کو شہریوں پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

زخمی افراد کی اس آپ بیتی سے پہلے تینوں مرنے والوں کے گاؤں ٹوپا پیر کے سرپنچ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وائرل ویڈیو میں ہلاک ہونے والے شہری فوجیوں کے تشدد کو برداشت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

فوج نے ان حالات کی تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری (سی او آئی) کو حکم دیا ہے جن کی وجہ سے تین شہریوں کی موت واقع ہوئی۔

جموں و کشمیر پولیس نے تین شہریوں کی موت اور پانچ دیگر کے زخمی ہونے کے سلسلے میں قتل اور قتل کی کوشش سے متعلق آئی پی سی سیکشن کے تحت ‘نامعلوم’ افراد کے خلاف پونچھ کے سرن کوٹ پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر بھی درج کی ہے ۔