کانگریس والے ٹھیک کہتے ہیں کہ ان کے بغیر رام مندر نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن یہ فخر کی نہیں بلکہ شرم کی بات ہونی چاہیے۔ کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1949 میں بابری مسجد میں سیندھ ماری یا کوئی نقب زنی نہیں ہوئی تھی، سیندھ ماری سیکولر ہندوستانی جمہوریہ میں ہوئی تھی۔
ٹیلی گراف اخبار کے مطابق، ایودھیا میں مسمار کی گئی بابری مسجد کی زمین پر بن رہے رام مندر کے افتتاح کے موقع پر کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔ ان میں سونیا گاندھی، ملیکارجن کھڑگے اور سیتارام یچوری بھی شامل ہیں۔ کانگریس پارٹی کے لیڈر دگوجئے سنگھ نے اس کی تصدیق کی ہے۔ کہا گیا ہے کہ کانگریس اس دعوت پر مثبت انداز میں غور کر رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یا تو سونیا گاندھی خود جائیں گی یا ان کی طرف سے کوئی وفد جائے گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ آخر رام مندر ٹرسٹ کا تعلق کسی پارٹی سے تو نہیں ہے۔ انہوں نے ایک طرح سے طنزیہ انداز میں کہا کہ انہیں مدعو نہیں کیا گیا۔ لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو بھی مدعو نہیں کیا گیا تھا، جو ان کی طرح ہی رام کے سچے بھکت ہیں۔
اگر دگوجئے سنگھ جو کہہ رہے ہیں، اسے صحیح صحیح رپورٹ کیا گیا ہے، تو پارٹی دوسری بڑی اور خود کو تباہ کرنے والی غلطی کرنے جا رہی ہے۔
پہلی غلطی 1986 میں کانگریس حکومت کی نگرانی میں بابری مسجد کا تالا کھولنا تھا۔ اس فیصلے اور بابری مسجد کے انہدام میں صرف 6 سال کا فرق ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ دوسری غلطی تھی۔ پہلی غلطی تھی 1949 میں بابری مسجد میں چوری چھپے مورتیاں رکھ دینے کے جرم کو اور بابری مسجد پر تالے لگواکر اس میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کو ریاست کی کانگریس حکومت کی جانب سےنظر انداز کرنا۔ 1949 اور 1986 کے درمیان 37 سال کا فاصلہ ہے، لیکن 1986 اور 1992 کے درمیان صرف 6 سال کا۔ ایک جرم نے دوسرے جرم کو جنم دیا۔
چوری چوری رات کے اندھیرے میں بابری مسجد میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھنا جرم تھا اور 6 دسمبر کو دن کے اجالے میں ریاستی حکومت کی سرپرستی اور وفاقی حکومت کی بے عملی کی وجہ سے بابری مسجد کا انہدام بھی ایک جرم تھا۔ دونوں فعل کو سپریم کورٹ نے جرم قرار دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی سپریم کورٹ نے کہا کہ جرم کا پھل، یعنی بابری مسجد کی زمین انہیں دے دینی چاہیے جو اس جرم میں شامل رہے ہیں۔
چنانچہ سپریم کورٹ کے مطابق دو جرائم اور فریب سے جوزمین مسجد سے خالی کرا لی گئی ، اسی پر رام مندر بنانے کا حکم سپریم کورٹ نے حکومت کو دیا۔
یہ فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے بنچ کے کسی رکن کو اس عدالتی قلابازی کی ذمہ داری قبول کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہ ان کمیاب عدالتی فیصلوں میں سے ایک ہے، جس پر فیصلہ لکھنے والے جج نے اپنا نام نہیں دیا۔ یہ عاجزی نہیں، بزدلی تھی۔ آخر اس بنچ نے ہی تو یہ لکھا کہ بابری مسجد 500 سال سے کھڑی تھی، وہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہو، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، مسلمان 1949 تک اس میں عبادت کرتے تھے اور اس میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھنا جرم تھا، اسے 6 دسمبر 1992 کو گرانا جرم تھا۔
یہ سب کہنے کے بعد منطقی فیصلہ تو یہی تھا کہ مجرمانہ طور پر منہدم کی گئی مسجد کی تعمیر نو کا حکم دیا جاتا۔ لیکن عدالت نے کہا کہ بے چارے ہندو اسے زمانے سے چاہت سے دیکھ رہے تھے، اس لیے یہ زمین انہیں رام مندر بنانے کے لیے دے دی جائے۔
جرم، بزدلی اور چالاکی یا فریب سے حاصل کی گئی زمین پر کسی مقدس جذبے کا پیدا ہونا یا بیدار ہونا ممکن ہے؟جس رام مندر کا 22 جنوری 2024 کو افتتاح ہونے جا رہا ہے، ان کا اس انسانی تعصبات سے پاک ہونا ناممکن ہے۔ یہ روحانی سکون حاصل کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ صرف چند انتہائی مسخ شدہ دنیاوی جذبات کو جنم دے سکتا ہے۔
اس رام مندر کا مقصد نہ مذہبی ہے اور نہ ہی روحانی، یہ اس رام مندر ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری کے بیان سے ظاہر ہے جو اسی خبر میں شائع ہوا ہے جس میں کانگریس کی طرف سے رام مندر کے افتتاح کی دعوت قبول کرنے کے حوالے سے دگوجئے سنگھ کا بیان ہے۔
چمپت رائے نے کہا کہ 22 جنوری کی اہمیت 15 اگست 1947 جیسی ہے۔ یا یہ 16 دسمبر 1971 جیسا دن ہے جب پاکستانی فوج نےہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
پہلے واقعے میں آزادی کا احساس ہے جو اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت سے حاصل کی گئی تھی ، بغیر کسی جھوٹ اور دھوکے کے۔جس آزادی کی جدوجہد میں کبھی زیادہ طاقتور برطانیہ سے لڑائی کھلے عام تمام فیصلہ لے کر کی گئی۔ گاندھی ہوں یا ان کے ساتھی، وہ انگریزوں سے آمنے سامنے لڑے۔ اس لیے 15 اگست کو اخلاقی فتح کا احساس تھا۔ اس جدوجہد نے نفرت نہیں بلکہ محبت اور ہم آہنگی کے جذبات کا سہارا لیا اور اسی کو پیدا کیا۔ اور اسی لیے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے تمام مظلوموں نے ان سے تحریک لی۔ لیکن اس کے برعکس ایودھیا کا رام مندر دھوکہ، فریب، جھوٹ اور تشدد کے ساتھ ساتھ بزدلی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے رام کے ون واس کوختم کر لیا ہے اور انہیں واپس لے آئی ہے۔ تشدد اور نفرت میں یقین رکھنے والی ایک تنظیم نے خود کو رام کا محافظ اعلان کر دیا ہے۔ 22 جنوری کو جس مندر کا افتتاح ہونے جا رہا ہے وہ اس رام کا ہے جس کی سرپرست بی جے پی یا آر ایس ایس ہے۔ اس مندر کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندو یہ بھی قبول کریں کہ بی جے پی یا آر ایس ایس ان کے مذہب اور ان کے مذہبی طرز عمل کا تعین کرے گی۔
یہ مندر اس مہم کے بغیر ممکن نہ ہوتا جس کے مرکزی رہنما لال کرشن اڈوانی نے اعتراف کیا تھا کہ رام جنم بھومی مہم دراصل ایک سیاسی مہم تھی، اس کا مقصد مذہبی یا روحانی ہرگز نہیں تھا۔ رام آر ایس ایس کے لیے ہندوستان پر قبضہ کرنے کا صرف ایک آلہ ہیں، یہ اڈوانی کے اپنے اعتراف سے واضح ہے۔
بابری مسجد کو گرانے کی مہم کے ہر مرحلے پر تشدد ہوا۔ اڈوانی نے جس ٹویوٹا کو رتھ بناکر اپنی ناپاک یاترا شروع کی، اس نے پورے ملک میں خون کی لکیر کھینچ دی۔ اس ساری مہم میں جو خون بہایا گیا اس کا آج تک کوئی حساب نہیں ہوا۔ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ کیا رام تھے؟ لیکن ہم جانتے ہیں کہ رام تو بس نام ہیں۔
تو اس بار بھی رام ذریعہ ہی ہیں؟ پھر بھی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ لوگ اپنے مقدس جذبات کی علامتوں کا انتخاب منطقی طور پر نہیں کرتے۔
رام کا نام لوگوں کے ذہنوں میں مقدس جذبات کو جگاتا ہے۔ ہم والمیکی یا تلسی یا کمبن یا مولا یا کرتیواس کے رام سے بحث کر سکتے ہیں۔ ہندو ذہن میں جو رام ہے وہ ان سے مختلف ہے، وہ پاکیزگی کا علمبردار ہے۔ کیا اس رام کا محافظ اب وشو ہندو پریشد ہوگا یا آر ایس ایس؟ کیا رام کو سرپرست کی ضرورت ہے؟ اور کیا ہندو عوام کے لیے یہ رام قابل پرستش ہیں اور یہ ایودھیا تیرتھ کے احساس کو جنم دے سکتی ہے؟
ایودھیا کے اس تازہ ترین رام مندر کے مرکزی میزبان یا چیف ہوسٹ کے طور پر، ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا ہے جس کی زندگی جھوٹ، جھوٹے طرز عمل، نفرت اور تشدد کی تبلیغ سے بنی ہے۔ اس کی صدارت میں کس مقدس جذبے کا احترام کیا جائے گا؟ اس یگیہ سے کیا پیدا ہوگا؟ جو بھی اس وجے یگیہ میں شرکت کریں گے وہ اس صدارت کو تسلیم کر رہے ہوں گے۔ کیا یہ سب کو تسلیم ہے؟
جھوٹ، فریب اور بزدلی سے حاصل کی گئی بابری مسجد کی زمین کو ان انتقامی جذبات اور طرز عمل سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ کیا اب کسی سیاسی جماعت میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہے؟
یہ اجتماعی شرمندگی کا دن ہو سکتا ہے۔ کفارے کا۔ کانگریس پارٹی کے لیے سب سے زیادہ اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے بھی۔ آخر کانگریس کی بزدلی کے بغیر یہ مندر نہیں بن سکتا تھا۔ کانگریس والے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے بغیر یہ مندر نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن یہ فخر کی نہیں بلکہ شرم کی بات ہونی چاہیے۔
کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ 15 اگست 1947 کو بے معنی بنانے کی سازش اسی لمحے سے شروع ہوگئی تھی۔ بابری مسجد میں 1949 میں کوئی سیندھ ماری یا نقب زنی نہیں ہوئی تھی، سیندھ ماری سیکولر ہندوستانی جمہوریہ میں ہوئی تھی۔
کانگریس پارٹی کو اعترافیہ بیان جاری کرنا چاہیے۔ اسے دعوت کا جواب یہ کہہ کر دینا چاہیے کہ یہ اس کے لیے خود شناسی کا وقت ہے۔اپنے تذبذب میں پھنسی سیکولرازم کو مستحکم کرنے کا ایک لمحہ۔ اس کو یہ کہنے کی ہمت لانی چاہیے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے ساتھ 1949 اور 1992 میں کیے گئے جرائم کی سزا نہ دینے کا خمیازہ ہندوستان اب تک بھگت رہا ہے۔
ہندو سماج کے نجات کے لیے یہ کفارہ ضروری ہے۔ وہ نہیں کرے گا، یہ افسوسناک سچ ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ اسے صرف کمتر ہی بنائے گا۔
میرے ایک دوست نے کانگریس لیڈر کے بالکل برعکس کہا کہ نومبر 2019 کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب ایودھیا نہیں جائیں گے۔ اس سے پہلے وہ باقاعدگی سے ایودھیا جایا کرتے تھے۔ سریو میں اشنان کرنے، ہنومان گڑھی اور کنک بھون کے درشن کرنے۔ انہوں نے اپنے ایودھیا کے دورے یا درشن کا ایک واقعہ سنایا۔ ان کی ملاقات ایک بزرگ سادھو سے ہوئی جن سے انہوں نے پوچھا کہ یہاں کیا کیا مقدس ہے؟ سادھو مہاراج نے کہا کہ اول تو یہ سریو جی ہیں جو لازوال ہیں اور دوسری یہ ایودھیا کی سرزمین ہے جس پر رام چلتے تھے۔ ان کے علاوہ باقی تمام دعوے ہیں۔ اور وہ رام کے تئیں عقیدت کے نہیں، بلکہ اپنی ملکیت کے دعوے ہیں۔
جب ان کا ایودھیا آنا جانا شروع ہوا، ایودھیا میں بابری مسجد کا ملبہ پڑا ہوا تھا۔ایک منصوبہ بند جرم کا گواہ۔ انہوں نے کبھی اس نام نہاد رام جنم بھومی کے درشن کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ اس ملبے میں ایک امید دبی تھی کہ شاید ہندوستان 6 دسمبر کو ہونے والی ناانصافی کو تسلیم کر لے گا۔ لیکن 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے انصاف کی اس امید کو دفن کر دیا۔
میرے دوست نے کہا کہ اس دن سے ایودھیا ان کے ذہن سے اتر گئی۔ وہ اب ایک ٹوٹی ہوئی مورت ہے۔ اس کی عبادت ممکن نہیں۔ وہ ناانصافی کی جیت کی علامت ہے۔ بے انصافی اور روحانیت میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
کاش! کانگریس پارٹی اتنا ہی کہہ سکتی۔ اگر وہ بغیر کچھ کہے اس طاقت کی فتح کے جشن سے غائب رہتی ہے تب بھی وہ اپنے فرض میں ناکام ہے۔ یہ فرض ہے عوام میں صحیح اور غلط کا احساس بیدار کرنا۔ اگر وہ بیداری میرے نوجوان ہندو دوست میں آئی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ باقیوں میں نہ لائی جا سکے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر