کیا ہمارے بچے ایسے ہندوستان میں بڑے ہوں گے جہاں مذہب ہماری ہر پہچان، بات چیت اور زندگی کے اصولوں پر محیط ہے – اور یہ دوسروں کو کمتر یا دوسرے درجے کا بنا دیتا ہے ؟
میرے عزیز ہم وطنو !
ہندوستان ایک قدیم سرزمین ہے، جو ہر طرف سے بہنے والی بارہ ماسی ندیوں کے پانی سے مالا مال ہے، جو اپنے ساتھ ایک عظیم تہذیب کے بیج لاتی ہے۔ ہزاروں سالوں سے ہندوستان نے دنیا بھر کے لوگوں کا خیر مقدم کیا ہے اور انہیں اپنے گھر میں ہونے کا احساس کروایا ہے۔
ہمارا یہ گھر ہمیشہ شمولیت اور جامعیت کے لیے کھڑا رہا ہے اور اس کا ہدف اعلیٰ ترین روحانی فلسفہ ہے، جو لوگوں کو ان کی روزمرہ کی زندگی امن کے قوی احساس کے ساتھ گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ ہمارا سماجی تانا بانا اسی بقائے باہمی کی دین ہے۔ بڑے بڑے سنتوں نے بہت سی عظیم کہانیاں لکھی ہیں، جو صدیوں تک ہمیں تحریک دیتی رہی ہیں۔ مختلف عقائد، فکری نظام، رسومات اور طرز زندگی، کامل ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔
لہٰذا آج جیسے دن کے موقع پر، جب سیاسی، سماجی اور قانونی حدود سے ماورا ہوکر ایک مندر کو محور بنا کر ایک مذہب کو مرکز میں رکھا گیا ہے- ہمیں اپنے شاندار ماضی اور اپنے نامعلوم مستقبل دونوں پر ٹھہر کر دوبارہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا ہمارے بچے ایسے ہندوستان میں بڑے ہوں گے جہاں مذہب ہماری ہر پہچان، بات چیت، زندگی کے اصولوں پر محیط ہے – اور یہ دوسروں کو کمتر یا دوسرے درجے کا بنا دیتا ہے؟ اگرچہ گمان ہوسکتا ہے کہ مستقبل کا یہ وعدہ اکثریت کے لیے ہے، لیکن اپنے آپ کو احمق نہ بننے دیں کیونکہ جب مذہب اقتدارکا آلہ بن جاتا ہے تو اس سے ہمیشہ مٹھی بھر لوگوں کا بھلا ہوتا ہے۔
جب ہندوستان ایک قومی ریاست کے طور پر ابھرا، تو ہمارے آباؤ اجداد نے برتری اور بالادستی کے لیے لڑنے والے نظریات کے درمیان ہندوستانی معاشرت کے لیے ‘سیکولرازم’ کا انتخاب کیا۔ آر ایس ایس اس وقت بھی تھی، اس کے حامی تمام خواتین اور تمام ذاتوں کے ارکان کے لیے مساوی حقوق کو تسلیم کیے بغیر ہندو راشٹر کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لیکن آخر کار یہ ایک سیکولر، لبرل، جامع اور ہمہ گیر ہندوستان کا نظریہ تھا، جس نے سربلندی حاصل کی ۔
آج جب ہم ایودھیا میں رام مندر کا جشن منا رہے ہیں، تو ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے شاندار ماضی سے غداری کر رہے ہیں؟ جان لیوا جھوٹ کی قیمت پر آرام دہ زندگی کے لیے نفرت اور ‘مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے’ کی اجازت دے رہے ہیں، تاکہ ہم اقتدار پر قابض لوگوں سے خود کو بچا سکیں؟ اگر اسی لیے ہم اندھے بنے رہنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو یاد رکھیں کہ طاقت کا سرچشمہ ہے – ‘ہم، لوگ’۔ اور یہ ہم لوگ ہی ہیں، جو اس قدیم عظیم قوم کی تقدیر کا انتخاب کریں گے۔ اگر ہم اپنے اعمال کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کرتے ہیں اور ان کی پوری ذمہ داری قبول نہیں کرتے ہیں تو نہ تو رام، نہ اللہ، یہاں تک کہ عیسیٰ مسیح بھی ہمیں نہیں بچا سکتے۔
مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ یہی ہمارے قومی کردار کا تعین کرتا ہے۔ اگر ہم اسے ابھی ترک کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو ہم کسی بھیڑ کی طرح برتاؤ کریں گے، جو لگ الگ مالک، الگ الگ ملبوسات میں، اپنے محدود، چھوٹے، برے، سفاک مقاصد کے لیے ہمیں لبھا سکتے ہیں۔ حکومت کو تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہو گا۔ لوگوں کو ‘ہم بنام وہ ‘ میں تقسیم کرنے پر مبنی سیاست بدترین سیاست ہے۔
ہمیں ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو تعلیم، صحت اور گورننس کو ترجیح دے۔ ایک ایسا وطن جہاں کوئی بھوکا، بے گھر یا فکر میں مبتلا ہوکر نہ سوئے – یہ وہ آئیڈیل ہے جس کے لیے سیاستدانوں کو کام کرنا ہوگا۔
بقائے باہمی ہی واحد کلید ہے، اور محبت ہی واحد دھاگہ ہے جو اسے بُن سکتا ہے۔ہم پاگل پن کے بجائے فہم و ادراک کی راہ اختیار کریں اور ‘سب کے لیے پیار’ ہمارا نغمہ ہو۔ جو لوگ ایسا کریں گے، تاریخ ان کو یاد رکھے گی، بھلے ہی آج آپ اپنے گھروں میں اقلیت کی طرح محسوس کر رہے ہوں۔ تمام عظیم چیزیں ایک امید سے شروع ہوتی ہیں اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا دامن ہم چھوڑ نہیں سکتے۔ آج نہیں، کبھی نہیں۔
(اونی بنسل سپریم کورٹ کی وکیل اور کانگریس پارٹی کی ممبر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر