خبریں

الیکٹورل بانڈ: مودی حکومت نے قواعد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے بی جے پی کو ایکسپائر بانڈ کیش کرانے کی اجازت دی

اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، 23 مئی 2018 کو کچھ الیکٹورل بانڈ ہولڈر 20 کروڑ روپے کے بانڈ کے ساتھ نئی دہلی میں بینک کے مرکزی برانچ پہنچے تھے۔ آدھے بانڈ 3 مئی 2018 کو اور باقی آدھے 5 مئی 2018 کو خریدے گئے تھے۔ دونوں ہی تاریخوں پر خریدے گئے بانڈ کو کیش کرانے کی 15 دن کی مدت ختم ہونے کے باوجود انہیں کیش کرایا گیا۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: الیکشن کمیشن کے نئے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 کے کرناٹک اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے مرکزی حکومت نے الیکٹورل بانڈ کے قوانین کو طاق پر ر کھ کر حکمراں جماعت بی جے پی کو ایسے بانڈ کوکیش کرانے کی فوری اجازت دی تھی، جن کی میعاد ختم (ایکسپائر) ہو چکی تھی۔

رپورٹرز کلیکٹو نے اپنی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے جانکاری دی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لوگوں کے ایکسپائر بانڈ کو کیش کرانے کے لیے بینک پہنچنے کے  بعد بی جے پی کے آنجہانی لیڈر ارون جیٹلی کی قیادت والی مرکزی وزارت خزانہ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کو 10 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ کو قبول کرنے کے لیے مجبور کیا تھا۔

کموڈور لوکیش بترا (ریٹائرڈ) کے حاصل کردہ سرکاری ریکارڈ کی بنیاد پر رپورٹرز کلیکٹو نے 2019 میں اپنی ایک  رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایس بی آئی  نے بانڈ کو کیش کرنے کے لیے قانونی طور پر لازمی 15 دن کی مدت گزر جانے کے دو دن بعد ایک نامعلوم سیاسی جماعت کو 10 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ کو کیش کرانے کی اجازت دی تھی۔

کلیکٹو کا کہنا ہے کہ جب اس نے 2019 میں اس سلسلے میں رپورٹ کی تھی تو یہ نہیں معلوم تھا کہ مرکزی وزارت خزانہ کی فیاضی کا فائدہ کس سیاسی پارٹی نے اٹھایا ہے۔

کلیکٹو کی طرف سے دی گئی اس وقت کی تفصیلات اور موجودہ انکشافات کو ایک ساتھ دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ ‘بی جے پی 23 مئی 2018 کو ایس بی آئی کی دہلی برانچ میں ایکسپائر بانڈ لے کر گئی تھی۔ ایس بی آئی کی دہلی برانچ، ممبئی میں اس کے کارپوریٹ ہیڈکوارٹر اور مرکزی وزارت خزانہ کے حکام کے درمیان سپرفاسٹ خط و کتابت کے ایک سلسلے کے بعد حکومت کے حکم پر ایکسپائر بانڈ بی جے پی نے کیش کروائے تھے۔’

الیکشن کمیشن کے ذریعے عام  کیے  گئے بی جے پی کے اپنے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی وزارت خزانہ کی طرف سے قواعد کی تشریح اور ایس بی آئی کو دیے گئے غیر قانونی حکم نے پارٹی کو 10 کروڑ روپے کے ایکسپائر بانڈکیش کرانے کی اجازت دی۔

مکمل کہانی

مرکزی وزارت خزانہ کو دی گئی ایس بی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق، 23 مئی 2018 کو ‘کچھ الیکٹورل بانڈ ہولڈر’ 20 کروڑ روپے کے بانڈ کے ساتھ نئی دہلی میں ایس بی آئی کی مرکزی شاخ پہنچے۔ آدھے بانڈ 3 مئی 2018 کو اور باقی آدھے 5 مئی 2018 کو خریدے گئےتھے ۔ دونوں ہی تاریخوں پر خریدے گئے بانڈ کو کیش کرانے کی 15 دن کی مدت ختم ہو چکی تھی۔

ایس بی آئی  کی رپورٹ کے مطابق، لیکن بانڈ ہولڈرز نے درخواست کی کہ ‘کیلنڈر کے 15دن’ کے اصول کو تبدیل کیا جائے اور کسی بھی طرح انہیں کیش کیا جائے کیونکہ وہ ’15 ورکنگ ڈے’ کے اندر جمع کیے جا رہے ہیں۔

دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایس بی آئی کی نئی دہلی شاخ نے اسی دن ممبئی میں اپنے کارپوریٹ ہیڈکوارٹر کو مطلع کیا۔ اگلے دن یعنی 24 مئی 2018 کو بینک کے اس وقت کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر مرتیونجے مہاپاترا نے ایس بی آئی کے چیئرمین رجنیش کمار کی جانب سے مرکزی وزارت خزانہ کو ایک خط لکھا جس میں پوچھا گیا کہ کیا انہیں  بانڈ ہولڈرز کو ایکسپائر بانڈ کو کیش کرانے کی اجازت دینی چاہیے۔

وزارت نے فوری کارروائی کی۔ اسی دن، وزارت کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر وجئے کمار نے جواب دیا، ‘یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اس قاعدے کا مطلب کل 15 دن ہے، جس میں درمیان میں آنے والے نان ورکنگ ڈے بھی شامل ہیں…’

اس لحاظ سے تو بانڈ کو کیش کرانے کی مدت ختم ہو گئی تھی، لیکن کمار نے مزید کہا، ‘چونکہ پچھلے مرحلے (ونڈو) میں بانڈ کے اجراء میں کچھ حد تک مکمل وضاحت کی کمی دیکھی گئی تھی، اس لیے ایس بی آئی 10 مئی 2018 سے پہلے خریدے گئے  بانڈ ہولڈر کو ’15 ورکنگ ڈے’ کے اندر بانڈ جمع کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔’ ساتھ ہی انہوں نے کہا، ‘مستقبل میں ایسی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہوگی۔’

بتادیں کہ اصول کے مطابق ایکسپائر بانڈ کی رقم وزیر اعظم کے قومی ریلیف فنڈ میں دینے کا اہتمام ہے۔

محکمہ اقتصادی امور کے سکریٹری اور محکمہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار ایس سی گرگ کے ذریعے منظور شدہ یہ خط اسی دن ایس بی آئی کے چیئرمین کو بھیجا گیا تھا۔

ایس بی آئی ہیڈکوارٹر نے اپنی نئی دہلی کی مرکزی شاخ کو مطلع کیا اور دن کا کام ختم ہونے سے پہلے 5 مئی 2018 کو خریدے گئے 10 کروڑ روپے کے ایکسپائر بانڈ کو کیش کرانے کی اجازت دی گئی۔

دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ 3 مئی 2018 کو خریدے گئے مزید 10 کروڑ روپے کے بانڈ وزیر اعظم کے ریلیف فنڈ میں بھیجے گئے تھے ، کیونکہ وہ مرکزی وزارت خزانہ کی طرف سے فراہم کردہ ’15 ورکنگ ڈے’ کی ‘سہولت’ کے دائرے سے باہر تھے۔

الیکٹورل بانڈ قوانین کی خلاف ورزی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ بی جے پی کو جس قسط میں یہ بانڈ ملے وہ بھی اسکیم کے خلاف تھی۔

جنوری 2018 میں نوٹیفائی قواعد کے مطابق، بانڈ کی فروخت کے لیے جنوری، اپریل، جولائی اور اکتوبر میں چار دس روزہ  ونڈو ہونی تھیں۔ 2018 میں وزیر اعظم کے دفتر نے وزارت خزانہ کو اپنے قوانین کو توڑنے اور کرناٹک انتخابات سے پہلے بانڈ کی فروخت کے لیے دس دن کی اضافی ‘خصوصی’ ونڈو کھولنے کا حکم دیا۔

پی ایم او کی درخواست کو پہلی بار اپریل 2018 میں مرکزی وزارت خزانہ کے حکام نے فائلوں میں درج کیا تھا – قواعدکے نوٹیفائی ہونے کے صرف تین ماہ بعد۔ بعد میں یہ روایت بن گئی۔ مثال کے طور پر، گجرات اسمبلی انتخابات سے پہلے دسمبر 2022 میں بھی بانڈ کی فروخت کے لیے ایک دس روزہ خصوصی ونڈو کھولی گئی تھی۔