خبریں

پی ایم  کے خط پر مشتمل وہاٹس ایپ پیغامات ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں: اپوزیشن

ملک اور بیرون ملک لوگوں کو وہاٹس ایپ پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک خط کے ساتھ متعدد سرکاری اسکیموں سے متعلق پیغامات موصول ہوئے ہیں اور اس میں عوام سے ان کی آراء اور تجاویز طلب کی گئی ہیں۔ کانگریس نے اس سلسلے میں مرکز کی تنقید کی اور کہا کہ یہ پیغامات ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں۔ وہیں، ٹی ایم سی نے پی ایم مودی کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/ پی آئی بی)

(تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/ پی آئی بی)

نئی دہلی: کانگریس نے وہاٹس ایپ صارفین کو وکست بھارت سمپرک اکاؤنٹس سے بھیجے گئے پیغامات پر مرکزی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیغامات ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ایم سی سی) کی خلاف ورزی ہیں۔

دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں بہت سے لوگوں اور بیرون ملک رہنے والے کچھ شہریوں کو وہاٹس ایپ پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک خط کے ساتھ کئی سرکاری اسکیموں سے متعلق پیغامات موصول ہوئے ہیں، جس پر عوام سے آراء اور تجاویز طلب کی گئی ہیں۔ اس میں انہیں جی ایس ٹی، آرٹیکل 370 کی منسوخی، تین طلاق سے متعلق نیا قانون، پارلیامنٹ میں خواتین کی شراکت بڑھانے کے لیے ناری شکتی وندن ایکٹ، نئی پارلیامنٹ کی عمارت کا افتتاح اور دہشت گردی کے خلاف مضبوط اقدامات جیسے مسائل پر حمایت کے لیے شکریہ بھی ادا کیا گیا ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے کہا کہ انتخابی ضابطہ اخلاق انتخابات میں پارٹی کے اقتدار میں آنے کے امکانات کو بڑھانے کے لیے ‘حصولیابیوں کی تشہیر کے لیے انتخابی مدت کے دوران سرکاری ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال’ پر پابندی لگاتا ہے۔ سنیچر (16 مارچ) کو ووٹنگ کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی ماڈل ضابطہ اخلاق نافذ ہو گیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دی ہندو نے بتایا کہ وکست بھارت سمپرک کو انتظامی اصلاحات اور عوامی شکایات کے محکمے (ڈی اے آر پی جی) اور آئی ٹی وزارت کی قیادت میں پبلک سیکٹر کی اسکیموں پر فیڈ بیک اکٹھا کرنے کے پروگرام کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ تاہم، یہ اسکیم حال ہی میں ڈی اے آر پی جی سے آئی ٹی وزارت کو منتقل کی گئی ہے۔

ٹی ایم سی نے پی ایم مودی کے خلاف ماڈل ضابطہ اخلاق کی ‘خلاف ورزی’ کی شکایت کی

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رہنما ڈیرک اوبرائن نے سوموار کو وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف ایم سی سی کی مبینہ خلاف ورزی کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا میں شکایت درج کرائی ہے۔

اپنے خط میں اوبرائن نے لکھا، ‘یہ ہمارے علم میں آیا ہے کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مبینہ طور پر 15.03.2024 کو ایک خط لکھا ہے، جسے ‘میرے پریہ پریوار کے سدیسہ’ کو مخاطب کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے گزشتہ ایک دہائی میں بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے ذریعے شروع کے گئے مختلف پروگراموں/منصوبوں پر روشنی ڈالی  گئی ہے۔مذکورہ خط بڑے پیمانے پر وہاٹس ایپ کے ذریعے براہ راست ملک بھر کے مختلف شہریوں تک پہنچایا گیا ہے۔’

انھوں نے لکھا، ‘حیرت کی بات یہ ہے کہ مسٹر مودی کے خط کے ساتھ ایک پیغام بھی ہے جو اس طرح ہے: ‘یہ خط عزت مآب وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت ہند نے بھیجا ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں ہندوستان کے 140 کروڑ سے زیادہ شہریوں نے حکومت ہند کی مختلف اسکیموں سے براہ راست فائدہ اٹھایا ہے اور مستقبل میں بھی مستفید ہوتے رہیں گے۔ یقیناً اس پیغام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت ہند یہ پیغام مودی کی سرپرستی میں بھیج رہی ہے، جو وارانسی لوک سبھا حلقہ سے انتخاب لڑنے والے بی جے پی کے امیدوار بھی ہیں۔’

انہوں نے دعویٰ کیا، ‘اس لیے بغیر کسی شک کے یہ ایک واضح اعتراف ہے کہ مودی اور بی جے پی مرکزی حکومت کے پیسوں کا استعمال ووٹروں تک بی جے پی کے پروگراموں/اسکیموں پر چرچہ کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ اگرچہ مذکورہ خط مورخہ 15.03.2024 کا ہے، لیکن یہ 16.03.2024 کو سہ پہر 3:00 بجے ماڈل ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد ووٹروں موصول ہوا ہے۔ لہذا، یہ ایم سی سی کی واضح خلاف ورزی ہے اور یہ ای سی آئی کی طرف سے وضع کردہ رہنما خطوط کی بھی خلاف ورزی ہے۔ حکومت ہند کی طرف سے بھیجے گئے پیغام کے ساتھ مورخہ 15.03.2024 کو مذکورہ خط کی کاپیاں اجتماعی طور پر منسلک ہیں۔’

ایم سی سی کے اصول کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا، ‘اس سلسلے میں یہ کہا گیا ہے کہ ضابطہ اخلاق کے دستورالعمل (سرکاری اخراجات پر اشتہارات کی اشاعت) کے باب 6 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘سرکاری اشتہارات سیاسی غیرجانبداری کو برقرار رکھیں گے’ اور سیاسی شخصیات کی تعریف اور حکمران جماعت کی مثبت امیج یا حکومت کی تنقید کرنے والی جماعتوں کی منفی تصویر پیش کرنے سے گریز کریں۔ کامن کاز بنام یونین آف انڈیا (2015) 7 ایس سی سی 1 کیس میں سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کی بنیاد پر یہی بات الیکشن کمیشن نے کہی ہے، اس لیے کوئی بھی حکومت ایم سی سی کے نفاذ کے بعد سرکاری خزانے سے کسی سیاسی پارٹی کے حق میں  متعصبانہ اشتہارات/پیغامات شائع یا نشر نہیں کر سکتی ۔’

انہوں نے کہا، ‘وزیر اعظم کے دفتر کا استعمال کرتے ہوئے بی جے پی نے حکومت ہند کی طرف سے بھیجے گئے پیغام کی آڑ میں سرکاری فنڈز کے خرچ پر مذکورہ خط جاری کیا ہے۔ اس طرح کی وسیع تر تشہیر بی جے پی اور مودی کے حق میں ووٹروں سے اپیل کے سوا کچھ نہیں ہے، جس سے ایم سی سی کے ذریعے جاری کردہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔’

انہوں نے مزید لکھا، آپ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اسے یقینی بنانے کے لیے فوری ضروری اقدامات کریں۔ بی جے پی اور اس کے امیدوار نریندر مودی کو مناسب ہدایات جاری کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں سرکاری خرچ پر مہم چلانے سے گریز کیا جائے۔ فوری اخراجات کو بی جے پی اور نریندر مودی کے کھاتوں میں ‘انتخابی اخراجات’ کے مد میں درج کرنے کے لیے مناسب ہدایات جاری کریں؛ 15.03.2024 کے فوری خط کو واپس لینے کے لیے مناسب ہدایات جاری کریں۔’

اوبرائن نے لکھا، ‘یہ اقدامات انتخابی عمل میں منصفانہ اور شفافیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے اور تمام سیاسی جماعتوں کے لیے برابری کے میدان کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔’