فکر و نظر

’آسام میں کانگریس لیڈر پارٹی چھوڑ رہے ہیں کیونکہ وزیر اعلیٰ خریدنے اور دھمکانے کی پالیسی پر چل رہے ہیں‘

دی وائر کے ساتھ ایک انٹرویو میں آسام کانگریس کے صدر بھوپین بورا نے کہا کہ چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما کے ایجنٹ پارٹی کے اندر ہیں، وہ یہ بات جانتے ہیں اور وہ ہمنتا سے پاک کانگریس چاہتے ہیں۔

بھوپین بورا (تصویر بہ شکریہ: X/@BhupenKBorah)

بھوپین بورا (تصویر بہ شکریہ: X/@BhupenKBorah)

نئی دہلی: آسام کانگریس کے صدر بھوپین بورا، جنہیں بھارت جوڑو نیایے یاترا کے دوران قواعد کی مبینہ خلاف ورزیوں کے معاملے میں گزشتہ ماہ آسام سی آئی ڈی نے تین بار طلب کیا تھا، نے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما پر الزام لگایا ہے کہ وہ انہیں ڈرانے—دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ جب کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی کی یاتراآسام پہنچی تھی تو ریاست کی ہمنتا بسوا شرما حکومت کے ساتھ ان کا براہ راست ٹکراؤ دیکھا گیا تھا۔ یاترا کے دوران گاندھی کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی، بی جے پی کارکنوں نے بھی ان کے قافلے کا گھیراؤ کرکے ‘جئے شری رام‘ کے نعرے لگائے تھے ۔ کانگریس ایم پی جئےرام رمیش کی گاڑی پر حملہ ہوا تھا؛ اور گوہاٹی میں پولیس کے ساتھ جھڑپ میں بورا بھی زخمی ہوگئے تھے۔

اس کے بعد، بورا کو گوہاٹی میں جھڑپ کے دوران املاک کے نقصان کے لیے ریاستی سی آئی ڈی نے تین بار طلب کیا ، اس کے ساتھ ہی جورہاٹ پولیس اسٹیشن نے انہیں مقررہ راستے کی خلاف ورزی کے لیے بھی تین بار طلب کیا۔

دریں اثنا، کانگریس کی آسام یونٹ میں کئی لیڈروں نے حالیہ ہفتوں میں پارٹی چھوڑ دی ہے، جن میں دو سابق ورکنگ صدور کملاکھیا ڈے پرکایستھ (جنہوں نے بی جے پی کی حمایت کا اعلان کیا اور بعد میں پارٹی سے استعفیٰ دے دیا) اور ایم ایل اے بسنت داس کے نام شامل ہیں ۔

ریاستی کانگریس کے سابق صدر رانا گوسوامی اور جنرل سکریٹری سوروج دہنگیا بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔

دی وائر کے ساتھ ایک انٹرویو میں بورا نے اسے ‘عارضی دھچکا’ قرار دیا اور کہا کہ شرما ‘خریدنے اور دھمکی دینے کی دو حکمت عملی’ کا استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘اب وہ بالواسطہ طور پر مجھے دھمکی دے رہے ہیں۔ ورنہ جورہاٹ پولیس اسٹیشن اور سی آئی ڈی مجھے لگاتارکیوں بلا رہے ہیں؟’

بورا نے کہا، ‘میں ذہنی طور پر مضبوط انسان ہوں۔ مجھے جیل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن کچھ لوگ کو فرق پڑتا ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی حکومت کی جانب سے لوک سبھا انتخابات سے قبل شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے قوانین کو مطلع کرنے کی وجہ سے آسام – جو 2019 میں مظاہروں کے مرکز میں تھا –’انڈیا’ اتحاد کو ووٹ دینے کو ترجیح دے گا۔

§

آسام میں بھارت جوڈو نیایے یاترا کے دوران مبینہ خلاف ورزیوں اور املاک کو نقصان پہنچانے کے معاملے میں آپ کو 12 مارچ کو سی آئی ڈی سے تیسری بار سمن ملا۔  کیا آپ سی آئی ڈی کے دفتر گئے تھے؟

نہیں، میں نہیں گیا۔ ہاں، مجھے تیسری بار سی آئی ڈی کا نوٹس ملا، لیکن میں نے انہیں بار بار کہا کہ میں ٹکٹ کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے تک نہیں جا سکتا۔ آسام کانگریس کا صدر ہونے کے ناطے میں فی الحال وقت نہیں نکال سکتا۔ آپ مجھے گرفتار کر سکتے ہیں (اور) پھر میں اپنی پارٹی کے کسی سینئر ممبر کو چارج دے سکتا ہوں، لیکن جب تک میں ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل مکمل نہیں کر لیتا، میرے پاس سی آئی ڈی کے دفتر جانے کا وقت نہیں ہے۔

اس کے بعد مجھے کوئی سرکلر موصول نہیں ہوا۔ میں نے (آسام کی) صرف 13 سیٹوں کا اعلان کیا ہے، ایک کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ مجھے بلائیں گے تو میں ضرور جاؤں گا۔’

کیا لگتا ہے کہ بھارت جوڑو نیایے یاترا کے دوران املاک کو نقصان پہنچانے کے اس معاملے میں آسام حکومت آپ کا نام کیوں لے رہی ہے؟

انہوں نے (آسام پولیس) نے میرے خلاف جورہاٹ تھانے میں آٹھ دفعات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں، جن میں سے دو غیر ضمانتی ہیں۔ میں پہلے ہی دو بار تھانے جا چکا ہوں، جہاں انہوں نے مجھ سے چھ سات گھنٹے سے زیادہ پوچھ گچھ کی۔ یاترا کے دوران مجھ پر حملہ بھی ہوا۔

یاترا اسی جگہ ہوئی جہاں مودی نے بڑی ریلیاں کیں اور اسی راستے کا استعمال کیا جس کا جے پی نڈا نے کیا تھا، لیکن راہل جی کو روک دیا گیا۔ چنانچہ احتجاج کی علامت کے طور پر ہم نے تین بیریکیڈ توڑ دیے۔ اس میں چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ ٹی وی کیمروں کے سامنے ہوا۔ کانگریس صدر کے طور پر یہ میرا فرض تھا کیونکہ میرے لیڈر گوہاٹی شہر جانے کا انتظار کر رہے تھے۔

گوہاٹی پریس کلب نے باضابطہ طور پر راہل جی کو مدعو کیا تھا، اس لیے ہم میڈیا سے ملنے کے لیے وہاں جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

یاترا کے دوران آپ زخمی ہوئے تھے اور کہا تھا کہ جن لوگوں نے آپ پر حملہ کیا وہ آزاد گھوم رہے ہیں، جبکہ آپ کو سمن بھیجے جا رہے ہیں۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ریاستی حکومت کارروائی کرنے میں سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے، جبکہ آپ کے اور دیگر کانگریسی لیڈروں کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی کی جا رہی ہے؟

شروع سے ہی وزیر اعلیٰ نے سب سے پہلے مجھے خریدنے کی کوشش کی۔ سی ایم کے بہت سے قریبی لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھ سے پوچھا، ‘آپ کیا چاہتے ہیں، آپ کی توانائی ضائع ہو جائے گی، آپ کو ہمارے (بی جے پی) ساتھ آجانا چاہیے۔’ انہوں نے چھ ماہ تک کوشش کی اور جب انہیں معلوم ہوا کہ میں اپنے نظریے اور اپنی پارٹی کے رہنما کے تئیں  پرعزم ہوں تو انہوں نے گوہاٹی میں میرے گھر کو گرانے کے تین نوٹس بھیجے۔ لیکن سول سوسائٹی کے تعاون کی وجہ سے میرا گھر اب بھی وہیں ہے۔

انہوں نے میری بیوی، جو گوہاٹی میڈیکل کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، کا تبادلہ کر دیا، پھر انہوں نے میرے بھائی اور میری بھابھی کا تبادلہ کر دیا اور آخر کار انہوں نے بھارت جوڑو نیایے یاترا کے دوران مجھ پر جسمانی حملہ کیا۔ انہوں نے میری سکیورٹی بھی کم کردی ہے۔ تو پہلے انہوں نے مجھے خریدنے کی کوشش کی لیکن اب وہ مجھے دھمکیاں دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن میں آسام کے لوگوں اور اپنی قیادت کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا۔

لوک سبھا انتخابات سے پہلے آسام میں کانگریس لیڈر پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں، کیا کانگریس لوک سبھا انتخابات سے پہلے اپنی پارٹی کو متحد رکھنے میں ناکام ہو رہی ہے؟

میں ایم ایل اے کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ اے آئی سی سی (آل انڈیا کانگریس کمیٹی) کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ صدارتی انتخابات کے وقت سے (جب کانگریس ایم ایل ایز نے 2022 میں اپوزیشن امیدوار یشونت سنہا کے خلاف کراس ووٹنگ کی)، ہم جانتے ہیں کہ ہمنتا بسوا شرما کے ایجنٹ پارٹی کے اندر ہیں۔ اب وہ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم ہمنتا بسوا سے پاک کانگریس چاہتے ہیں۔ وہ کئی سالوں تک کانگریس میں تھے اس لیے پارٹی لیڈروں سے ان کی دوستی ہے۔ دوسری صف میں کانگریس کے کئی لیڈر ہیں جو اب آگے آئیں گے۔ شاید یہ ایک عارضی دھچکا ہو، کیونکہ ہمنتا بسوا شرما دو پالیسیاں استعمال کر رہے ہیں – خریدنا اور دھمکی دینا۔ اب وہ مجھے بالواسطہ طور پر دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ورنہ جورہاٹ پولیس اسٹیشن اور سی آئی ڈی مجھے مسلسل سمن کیوں بھیج رہے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ مجھے دھمکی دے رہے ہیں کہ ‘یا تو تم ہتھیار ڈال دو یا سزا کے لیے تیار رہو۔’

میں ذہنی طور پر مضبوط انسان ہوں۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں جیل جاتا ہوں، لیکن کچھ لوگوں کو فرق پڑتا ہے۔

اس مہینے سی اے اے نوٹیفائی ہونے کے بعد آسام اس کے خلاف بحث کے مرکز میں ہے۔ آسو (آل آسام اسٹوڈنٹس یونین) احتجاج کر رہی ہے اور کانگریس لیڈر سپریم کورٹ بھی گئے ہیں۔ آپ کے جائزے کے مطابق، آنے والے لوک سبھا انتخابات پر سی اے اے کا کیا اثر پڑے گا اور کانگریس اس سے نمٹنے کے لیے کیسے منصوبہ بنا رہی ہے؟

یہ 2019 کا قانون ہے۔ انتخابات سے عین قبل نوٹیفکیشن پاس کرنے کی وجہ پوری طرح سے سیاسی ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کے خلاف سڑکوں پر، عدالت میں اور الیکشن میں لڑیں گے۔ اسی لیے ہم نے سی اے اے کے خلاف عرضیاں دائر کی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ہماری تحریک جاری ہے اور ہم تمام طلبہ تنظیموں کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔ تمام 16 اپوزیشن جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم – آسام کا یونائیٹڈ اپوزیشن فورم، جس کا میں صدر ہوں – سی اے اے کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن جیسے جیسے انتخابات آ رہے ہیں، ہم لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ اگر آپ سی اے اے نہیں چاہتے تو بی جے پی کے خلاف ووٹ دیں۔

سربانند سونووال (اس بار ان کو ڈبرو گڑھ سے بی جے پی نے میدان میں اتارا ہے) ہار جائیں گے کیونکہ وہ اس وقت وزیر اعلیٰ تھے جب 2019 میں سی اے اے کے احتجاج کے دوران پانچ افراد مارے گئے تھے ۔

شرما نے یہ بھی کہا ہے کہ آسام 1971 تک بہت زیادہ بوجھ اٹھا چکا ہے، ہم اسے مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ایک رسمی بیان تھا، اب صرف اقتدار کے لیے وہ آسام کے لوگوں کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں۔ اس لیے میں آسام کے لوگوں سے اپیل کر رہا ہوں کہ اگر آپ سی اے اے کے خلاف ہیں تو آپ انڈیا الائنس کو ووٹ دیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )