خبریں

اروند کیجریوال کی گرفتاری انتخابات میں یکساں مواقع  فراہم کرنے کی صورتحال کو ختم کرنا ہے: اپوزیشن

لوک سبھا انتخابات سے پہلے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی حمایت میں متحد ہو کر ‘انڈیا’ بلاک کے رہنماؤں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ان کی گرفتاری حکومت کی جانب سے مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال ہے، جس سے انتخابات کی غیر جانبداری اور آزادی متاثر ہوتی ہے۔

اروند کیجریوال۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

اروند کیجریوال۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی حمایت میں متحد ہوکر انڈیا بلاک کے رہنماؤں نے جمعہ کو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا اور الزام لگایا کہ ان کی گرفتاری حکومت کی طرف سے مرکزی ایجنسیوں کا ‘بیہودہ  اور غلط استعمال’ ہے اور یہ لوک سبھا انتخابات میں یکساں مواقع  فراہم کرنے کی صورتحال کو  ختم کرنا ہے جس سے انتخابات کی غیرجانبداری اور آزادی متاثر ہوتی  ہے۔

واضح ہو کہ ای ڈی نے دہلی ایکسائز پالیسی معاملے میں 21 مارچ کی رات دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو گرفتار کیا ہے ۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اپوزیشن نے الیکشن کمیشن سے یہ یقینی بنانے کے لیےایک سسٹم تیار کرنے کو کہا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران چھاپے ماری، تحقیقات اور گرفتاریوں کی سب سے پہلے الیکشن کمیشن یا اس کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی کے ذریعے جانچ پڑتال کی جائے اور اس کی منظوری د ی جائے۔

یہ میٹنگ اس  دن ہوئی جب کانگریس، جو دہلی کی ایکسائز پالیسی میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے اور کارروائی کا مطالبہ کرنے پر اروند کیجریوال حکومت کی تنقید کر رہی تھی، نے بھی ان کی گرفتاری اور پارٹی کے بینک کھاتوں کو ‘فریز’ کرنے کے خلاف قومی دارالحکومت میں سڑکوں پر احتجاجی مظاہر کیا۔مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کیجریوال کی اہلیہ سنیتا کیجریوال سے فون پر بات کی۔

پارٹیوں کی طرف سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘پورا ملک حزب اختلاف کی جماعتوں کو نشانہ بنانے، دبانے اور دھمکانے کے لیے حکمراں پارٹی کی طرف سے مرکزی ایجنسیوں کی خود مختار، صریح اور غیر قانونی تعیناتی کا گواہ ہے۔ اقتدار میں کسی بھی پارٹی کی طرف سے ریاستی مشینری کا اس طرح کا بیہودگی سے غلط استعمال، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے تقدس کے لیے براہ راست خطرہ ہے، کیونکہ یہ ہماری جمہوریت کی اساس، یعنی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو مکمل طور پر تباہ کر دیتے ہیں۔’

ان میں کانگریس، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے، سماج وادی پارٹی، اے اے پی، سی پی ایم اور این سی پی (شرد پوار) کے رہنما شامل تھے۔

کجریوال اور جنوری میں جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘آئینی عہدوں پر فائز افراد کی ان گرفتاریوں کا واضح مقصد ان کی متعلقہ  ریاستوں کے معاملات کے ساتھ ساتھ خود پارٹیوں کے جمہوری کام کاج کو دبانا اور اس میں خلل ڈالنا ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو جان بوجھ کر ان جماعتوں کے اراکین اور بڑے پیمانے پر اپوزیشن کے حوصلے پست کرنے کے لیے کیا گیا ہے… ان کی گرفتاری کا مقصد براہ راست ووٹروں کو ایک پیغام دینا ہے کہ حکومت اپنے انتخابی عزائم کے لیے کسی بھی حقیقی مخالفت کو برداشت نہیں کرے گی۔’

پارٹیوں نے کمیشن کو بتایا کہ کیجریوال اور سورین کی گرفتاری کوئی واحد معاملہ نہیں ہے۔ انہوں نے کانگریس کے بینک کھاتوں کو ‘فریز’ کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن کے نوٹس میں لایا۔آر جے ڈی لیڈر لالو پرساد یادو کے اتحادی بی آر ایس لیڈروں، ترنمول کانگریس لیڈر شنکر آدھیا اور این سی پی-ایس سی پی لیڈر روہت پوار، مغربی بنگال کے وزراء اور ٹی ایم سی لیڈر سجیت بوس اور تاپس رائے پر چھاپے اور گرفتاری، راجیہ سبھا ایم پی اور اے اے پی لیڈر این ڈی گپتاکے علاوہ ٹی ایم سی لیڈر مہوا موئترا کے خلاف بھی سی بی آئی نے ایف آئی آر درج کی ہے۔

پارٹیوں نے کہا،واضح طور پر ایک جان بوجھ کر کیا جانے والا خوفناک پیٹرن ابھر رہا ہے، جہاں حکمران جماعت اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہے اور لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں مواقع کے کسی بھی امکان کو پوری طرح سے ختم کر رہی ہے۔ایسی من مانی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔’

پارٹیوں نے دلیل دی کہ ‘مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا کھلم کھلا غلط استعمال الیکشن کمیشن کی سابقہ ہدایات، عوامی نمائندگی ایکٹ اور آئی پی سی کی دفعات کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔’

انہوں نے بتایا کی کہ الیکشن کمیشن نے 2019 میں ایک سرکلر میں ایسا کہا تھا، ‘انتخابی مدت کے دوران نفاذ کی کارروائی، یہاں تک کہ صریح انتخابی بددیانتی (ووٹرز کے رویے کو متاثر کرنے کے لیے پیسے کی طاقت کا استعمال) کو روکنے کے نظریے سے کیا گیا ہو،  انتہائی غیر جانبدار، منصفانہ اور غیر امتیازی ہو۔اس کے علاوہ، انتخابی مقاصد کے لیے اس طرح کے غیر قانونی فنڈز کے مشتبہ استعمال میں  ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ نافذ ہونے تک کے چیف الیکشن  آفیسر کو صحیح ڈھنگ سے معاملے کی اطلاع دی جانی چاہیے۔’

انہوں نے کہا کہ ماڈل ضابطہ اخلاق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقتدار میں رہنے والی پارٹی چاہے وہ مرکز میں ہو یا متعلقہ ریاستوں میں، اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی بھی شکایت کنندہ کو یہ وجہ نہ دی جائے کہ اس نے اپنی انتخابی مہم کے مقاصد کے لیے اپنی سرکاری حیثیت کا استعمال کیا ہے۔

اس کے علاوہ ، انہوں نے دلیل دی کہ ‘بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی گرفتاریاں، چھاپے اور تحقیقات’ بھی ‘غیر ضروری اثر و رسوخ’ کے مترادف ہیں جیسا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ اور آئی پی سی میں اہتمام ہے۔

انہوں نے کہا، ‘سیاسی جماعتوں کے انتخابی امکانات میں مداخلت کی منظم کوشش کے ساتھ مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا غلط استعمال واضح طور پر ‘غیر ضروری اثر و رسوخ’ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔’

Categories: خبریں

Tagged as: , , , ,