فکر و نظر

کچاتھیو جزیرے سے متعلق تنازعہ: تاریخ، سیاست اور نتائج

کچاتھیو جزیرے کی سیاسی تاریخ اور اس معاملے پر بی جے پی کی طرف سے کھڑا کیا گیا تنازعہ بتاتا ہے کہ طویل عرصے سے تمل ناڈو میں سیاسی زمین تلاش کر رہی پارٹی کے لیے یہ موضوع  رائے دہندگان کو لبھانے کا ذریعہ محض ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور کچاتھیو جزیرہ۔ (تصویر بہ شکریہ: PIB/Google Map)

وزیر اعظم نریندر مودی اور کچاتھیو جزیرہ۔ (تصویر بہ شکریہ: PIB/Google Map)

نئی دہلی: 5 مارچ 2024 – بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تمل ناڈو ریاستی اکائی کے صدر کےاناملائی آر ٹی آئی کے تحت ہندوستانی وزارت خارجہ میں ایک درخواست دائر کرتے ہیں۔ مذکورہ عرضی میں وہ نصف صدی قبل ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے متعلق دو مخصوص دستاویزوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یہ معاہدہ 1974 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی قیادت والی حکومت ہند نے سری لنکا کی حکومت کے ساتھ کیا تھا، جو کہ ایک غیر آباد جزیرے ‘کچاتھیو’ کی ملکیت سے متعلق تھا۔ معاہدے کے تحت یہ جزیرہ سری لنکا کو دیا گیا تھا۔

عام طور پر آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات حاصل کرنا کسی جدوجہد سے کم نہیں ہوتا۔ ایک محکمے سے دوسرے محکمے کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، اور اگر جانکاری حساس ہو تو اپیل در اپیل سے گزرتے ہوئے  چیف انفارمیشن کمشنر (سی آئی سی) تک سے فریاد کرنی پڑتی ہے۔ حالیہ دنوں میں آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات حاصل کرنا اتنا مشکل ہو گیا ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ کو بھی رہنما خطوط جاری کرنے پڑے ہیں۔

لیکن، اس معاملے میں غیر متوقع طور پر 12 مارچ کو صرف چار دنوں میں وزارت کی طرف سے اناملائی کو مطلوبہ دستاویز فراہم کر دیے  گئے۔ تین دن بعد ہی  16 مارچ کو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا۔ جلد ہی بی جے پی تمل ناڈو کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کرتی ہے، جن میں اناملائی کوئمبٹور لوک سبھا حلقہ سے امیدوار بنائے جاتے ہیں۔

تمل ناڈو کے 39 لوک سبھا حلقوں میں 19 اپریل کو مجوزہ پولنگ کے لیے نامزدگی کا عمل 30 مارچ کو ختم ہوگیا، اور 31 مارچ کو، کچاتھیو جزیرہ تمل ناڈو کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔

کچاتھیو سیاست کے مرکز میں کیسے آیا ؟

خود وزیر اعظم نریندر مودی  31 مارچ کو اپنے ایکس ہینڈل سے ایک خبر کا لنک شیئر کرتے ہیں، جو مذکورہ آر ٹی آئی سے حاصل کردہ دستاویزکے ذریعے تیار کی گئی تھی۔ ساتھ ہی مودی لکھتے ہیں،’آنکھ کھولنے والی اور چونکا دینے والی (خبر)! نئے حقائق بتاتے ہیں کہ کس طرح کانگریس نے بے حسی کا مظاہرہ  کرتے ہوئے کچاتھیو سری لنکا کے لیے چھوڑ دیا۔ اس نے ہر ہندوستانی کو ناراض کیا ہے اور لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ہم کانگریس پر کبھی بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کی یکجہتی، سالمیت اور مفادات کو کمزور کرنا 75 سالوں سے کانگریس شیوہ رہا ہے۔’

اس کے بعد سے ہی کچاتھیو کو لے کر مرکزی حکمراں جماعت بی جے پی اور اپوزیشن پارٹی کانگریس آمنے سامنے آگئیں۔ پانچ دہائیوں کے بعد گرے مردے  اکھاڑے جانے لگ جاتے ہیں۔ بی جے پی کے الزامات کا کانگریس بھی سختی سے جواب دیتی ہے۔ کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے جوابی حملہ میں کہتے ہیں؛

‘تمل ناڈو میں انتخابات سے پہلے آپ اس حساس معاملے کو اٹھا رہے ہیں، لیکن آپ کی اپنی حکومت کے اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے 2014 میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ‘ 1974 میں ایک معاہدے کے تحت کچاتھیو سری لنکا چلا گیا…؟ آج اس کو کیسے واپس لیا جا سکتا ہے؟’ پردھان منتری جی، آپ کو بتانا چاہیے، کیا آپ کی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے اور کچاتھیو کو واپس لینے کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے؟’

بی جے پی کے دعوے میں کئی جھول ہیں

بحث آگے بڑھی تو کئی ایسے حقائق سامنے آئے جنہوں نے بی جے پی کی نیت پر سوال کھڑے کر دیے۔ پہلا، تنازعہ کا انتخابی تاریخوں سے تصادم، جسے کھڑگے کے اس سوال سے مزید تقویت ملتی ہے کہ مودی حکومت نے اب تک کیا کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کچاتھیو پر بحث شروع کرنے کے بعد وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے ایک پریس کانفرنس بھی کی ۔ اس حوالے سے جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے ٹال مٹول کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

تاہم، انہوں نے آر ٹی آئی کے تحت موصولہ دستاویزوں کا حوالہ دے کر کانگریس اور ڈی ایم کے (تامل ناڈو کی اس وقت کی حکمران جماعت) کو بھی نشانہ بنایا ۔ لیکن، جنوری 2015 میں ان کی وزارت کی طرف سے دیا گیا ایک آر ٹی آئی جواب ان کے اور ان کی پارٹی کے اس دعوے کو انتہائی کمزور کر دیتا ہے کہ کانگریس اور ڈی ایم کے نے ملی بھگت کر کے کچاتھیو کا ہندوستانی علاقہ سری لنکا کو سونپا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ اس وقت جئے شنکر ہی وزارت میں خارجہ سکریٹری تھے۔

تب  27 جنوری 2015 کو ایک آر ٹی آئی کے جواب میں وزارت نے 1974 اور 1976 کے معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا، ‘ان میں ہندوستانی علاقے کا حصول یا اسے  چھوڑنا شامل نہیں تھا کیونکہ متنازعہ علاقے کی کبھی بھی حد بندی نہیں کی گئی تھی۔ معاہدوں کے تحت کچاتھیو ہندوستان-سری لنکا بین الاقوامی میری ٹائم باؤنڈری لائن کے سری لنکائی حصے پرواقع تھا۔’

اس سلسلے میں کانگریس کے جنرل سکریٹری (مواصلات) جئے رام رمیش پوچھتے ہیں، ‘کیا ڈاکٹر جئے شنکر، جو اب وزیر خارجہ ہیں، وزارت خارجہ کی طرف سے 27 جنوری 2015 کو دیے گئے جواب کو مسترد کر رہے ہیں، جبکہ اس وقت بھی  خارجہ سکریٹری وہی تھے؟’

کچاتھیو کی بات کرتے ہوئے بی جے پی اور مودی ماہی گیروں کی حالت زار کا بھی مسلسل ذکر کر رہے ہیں کہ سری لنکا کو یہ جزیرہ دینے کے بعد ہر روز ہندوستانی  ماہی گیروں کو سری لنکا میں حراست میں لیا جاتا ہے، لیکن بی جے پی کے اس دعوے کو مودی کے ہی سابق وزیر خارجہ وزیر مملکت جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ کا پارلیامنٹ میں دیا گیا ایک جواب خارج کر دیتاہے۔

غور طلب ہے کہ 15 مارچ 2017 کو وی کے سنگھ نے پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ ‘سری لنکائی  حکومت کے ذریعے ماہی گیروں کی گرفتاری کا مسئلہ کچاتھیو سے براہ راست متعلق نہیں ہے۔ تمل ناڈو کے ماہی گیروں کو صرف کچاتھیو میں گرفتار نہیں کیا گیا، ان میں سے کئی کو ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان پانیوں میں گرفتار کیا گیا۔’

آر ٹی آئی

موصولہ آر ٹی آئی جواب میں نہرو کے ایک بیان کا ذکر ہے، جس میں انہوں نے کچاتھیو کو اہمیت نہ دینے کی بات کہی تھی۔ اپنی پریس کانفرنس میں ان الفاظ کو دہراتے ہوئے ایس جئے شنکر نے کہا کہ جواہر لال نہرو نے 1961 میں لکھا تھا، ‘میں اس چھوٹے سے جزیرے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور مجھے اس پر اپنا دعویٰ ترک کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی نروپما سبرامنیم کہتی ہیں، ‘پنڈت جواہر لال نہرو کے ان الفاظ کے پیچھے ان ہندوستانی تاملوں کے بارے میں تشویش ہوسکتی ہے، جنہیں 19ویں صدی میں مزدوری کے لیے رامناتھ پورم سے سری لنکا (اس وقت سیلون) لے جایا گیا تھا۔ 1948 میں سری لنکا کی آزادی کے بعد ان کی شہریت رد کر دی گئی۔ نہرو اس سے پریشان تھے۔ ان کی ترجیحات میں ہندوستانی تامل تھے اور کچاتھیو کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے تھے۔’

بی جے پی تمل ناڈو کی موجودہ حکمران جماعت ڈی ایم کے پر بھی حملہ کر رہی ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایم کروناندھی نے کچاتھیو میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کہتی ہیں کہ ’50 سال سے ڈی ایم کے جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ اسے تمل ناڈو حکومت کے علم میں لائے بغیر سری لنکا کو دیا گیا تھا۔ کیا اس وقت کروناندھی نے کچاتھیو کو اس وقت کی وزیر اعظم کی جانب سے’چٹان کا ٹکڑا’ کہنے کے خلاف احتجاج کیا تھا؟’

اس پر نروپما کہتی ہیں، ‘ڈی ایم کے کی ملی بھگت کے الزامات کے برعکس جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستی حکومت کو اندرا گاندھی کے فیصلے کے بارے میں صرف اس وقت کے خارجہ سکریٹری کیول سنگھ نے مطلع کیا تھا اور رضامندی دینے کو کہا تھا۔ یہ تمل ناڈو کے لیے آرٹیکل 370 جیسا لمحہ رہا ہوگا، جیسے کہ مودی نے جموں و کشمیر کے لوگوں سے مشورہ کیے بغیر یا انہیں مطلع کیے بغیر ہی ختم کردیا۔’

بتا دیں کہ بعد میں ڈی ایم کے نے بھی کچاتھیو پر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ تمل ناڈو کی دوسری اپوزیشن پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے نے بھی ایک درخواست دائر کی ہے۔ دونوں ہی زیر غور ہیں۔

تاہم، جئے رام رمیش کہتے ہیں، ‘بی جے پی تمل ناڈو کے صدر نے ریاست میں خلفشار پیدا کرنے کے لیے آر ٹی آئی دائر کی، اس سے وی وی آئی پی ٹریٹمنٹ ملا اور فوری جواب ملا۔ جبکہ اہم عوامی مسائل پر لاکھوں آر ٹی آئی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔’

کیا کچاتھیو واقعی ہندوستان کا حصہ تھا ؟

نروپما کا کہنا ہے کہ کچاتھیو کبھی بھی سرکاری طور پر کسی ہندوستانی نقشے کا حصہ نہیں تھا۔ وزارت خارجہ کا 2015 کا مذکورہ بالا آر ٹی آئی جواب بھی یہی کہتا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ‘ہندوستان 1947 میں اور سری لنکا 1948 میں آزاد ہوا۔ دونوں ممالک کے ماہی گیروں نے کچاتھیو کے غیر متعین علاقے میں مچھلیاں پکڑنا جاری رکھا تاہم دونوں جانب سے جزیرے پر دعویٰ کیا جاتا رہا۔ ہندوستان نے سری لنکا کو اپنی سرزمین نہیں دی تھی، لیکن کچاتھیو پر اپنا دعویٰ چھوڑ دیا تھا، اور اس کے پیچھے بہت سی وجوہات تھیں۔’

وہ مزید کہتی ہیں، ‘سب سے پہلے، لاکھوں بے وطن ہندوستانی تاملوں کے مسئلے کو حل کرنے کا عمل، جو ایک دہائی قبل لال بہادر شاستری کے وزیر اعظم کے دور میں شروع ہوا تھا، مکمل ہوا۔ دوسرا، سری لنکا چین کے قریب تھا، اس نے 1971 کی جنگ میں پاکستان کو ایندھن بھرنے میں بھی سہولت فراہم کی، اس قدم سےسری لنکا کے ساتھ دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات قائم کیے۔ ہندوستان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سری لنکا نے ویج بینک پر اپنا دعویٰ چھوڑ دیا ۔ کچاتھیو معاہدے کی وجہ سے ہی تیل سے مالا مال یہ علاقہ آج ہندوستان کے دائرہ اختیار میں ہے۔’

معاملے کو طول کیوں دیا گیا ؟

آر ٹی آئی دائر کرنے سے لے کر مودی کے کچاتھیو کے تذکرے تک کی کرونولاجی سے پتہ چلتا ہے کہ طویل عرصے سے تمل ناڈو میں سیاسی زمین تلاش کر رہی بی جے پی کے لیے یہ مسئلہ رائے دہندگان کی توجہ مبذول کرنے والا ہے۔ اس معاملے کو اٹھانے والے دن ہی مودی نے تمل ناڈو کے ایک چینل کو انٹرویو بھی دیا تھا ۔

نروپما کہتی ہیں، ‘بی جے پی تمل ناڈو میں کسی بھی طرح اچھے نتائج چاہتی ہے۔ یہاں ہندو مسلم کارڈ نہیں چلتا، اس لیے اسے کوئی اور مسئلہ نظر نہیں آیا۔ اگرچہ، اس مسئلے سے اسے تمل ناڈو میں اتنا فائدہ نہیں ہوگا، لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ راشٹرواد کی مدد سے شمالی ہندوستان میں اس کا فائدہ اٹھائے۔’

بتادیں کہ تمل ناڈو کا یہ مسئلہ مودی نے 2 اپریل کو اتراکھنڈ میں بھی اٹھایا تھا ۔

دی ہندو کی ایک رپورٹ بتاتی  ہے کہ کچاتھیو مسئلے نے کبھی بھی انتخابی سیاست کو متاثر نہیں کیا۔ یہاں تک کہ رامناتھ پورم لوک سبھا حلقہ میں بھی ، جوکچاتھیو کے پاس واقع ہے، وہاں 1977 کے بعد سے ہوئے 12 لوک سبھا انتخابات میں صرف دو بار ہی ایسے امیدوار نے جیت حاصل کی ہے جو کانگریس یا ڈی ایم کے کی طرف سے حمایت یافتہ نہ ہو۔

دریں اثنا، ایک دلچسپ پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نروپما کہتی ہیں کہ آج بھی بی جے پی اس جزیرے کو واپس لینے کا کوئی دعویٰ نہیں کر رہی ہے۔ یہ صرف ایک انتخابی ایشو ہے جو انتخابات کے بعد ٹھنڈے بستے میں چلا جائے گا، جیسا کہ بی جے پی اس سے قبل بھی دیگر ریاستوں میں کر چکی ہے۔

سابق خارجہ سکریٹری اور سری لنکا میں ہائی کمشنر رہیں نروپما مینن راؤ کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سال 2022 میں موجودہ حکومت نے کچاتھیو پر سابقہ حکومتوں کے موقف کی ہی پیروی کی تھی، حتیٰ کہ عدالت میں یہ کہا تھا کہ ‘کچاتھیو کو واپس لانا ممکن نہیں ہے۔’