خبریں

سال 2014 سے بدعنوانی کے معاملے میں جانچ کا سامنا کر رہے 25 اپوزیشن لیڈر بی جے پی میں شامل ہوئے، 23 کو ملی راحت

سال 2014 سے مرکزی ایجنسیوں کی جانچ  کے دائرے میں آنے والے مختلف پارٹیوں کے 25 لیڈران بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں سے 23 کو ان معاملوں میں راحت مل چکی ہے، جن میں وہ تحقیقات کا سامنا کر رہے تھے۔ جبکہ تین کے خلاف درج مقدمات پوری طرح سے بند کر دیے  گئے ہیں اور دیگر 20 معاملے میں جانچ رکی ہوئی ہےیا اس وقت ٹھنڈے بستے میں ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: X/@BJP4India)

(تصویر بہ شکریہ: X/@BJP4India)

نئی دہلی: ایک میڈیا رپورٹ نے اپوزیشن جماعتوں کے ان الزامات کی تصدیق کی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کے لیے ‘واشنگ مشین’ کی طرح کام کر رہی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 سے دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے 25 رہنما، جو مرکزی ایجنسیوں کی جانچ کے دائرے میں تھے، بی جے پی میں شامل ہو ئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 25 لیڈروں میں سے 23 کو ان معاملات میں راحت مل چکی ہے، جن میں وہ تحقیقات کا سامنا کر رہے تھے۔ جبکہ تین رہنماؤں کے خلاف درج معاملے پوری طرح سےبند کر دیے گئے ہیں اور دیگر 20 معاملے میں جانچ رکی ہوئی  ہے یا اس وقت وہ ٹھنڈے بستے میں ہیں۔

اخبار کے مطابق، ‘ان 25 معاملوں میں سے کانگریس کے صرف دو سابق ایم پی جیوتی مردھا اور سابق ٹی ڈی پی ایم پی وائی ایس چودھری کے معاملے ایسے ہیں، جن میں ان کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد بھی ای ڈی کی جانب سے نرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔’

اس رپورٹ کے مطابق، جن لیڈروں نے بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ان میں کانگریس سے دس، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور شیوسینا سے چار چار، ترنمول کانگریس سے تین، تیلگو دیشم پارٹی سے دو اور سماج وادی پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی سے  ایک ایک شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘اس فہرست میں چھ ایسے رہنما شامل ہیں جو عام انتخابات سے چند ہفتے قبل اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں گئے۔’

ایکسپریس کی اس رپورٹ میں گزشتہ سالوں میں پارٹیاں بدلنے والے لیڈروں میں اجیت پوار، پرفل پٹیل، اشوک چوان، ہمنتا بسوا شرما، سویندو ادھیکاری، پرتاپ سرنائک، حسن مشرف، بھاونا گوالی اور کئی دوسرے لیڈر کے نام شامل ہیں۔

نریندر مودی حکومت کے ذریعے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) اور محکمہ انکم ٹیکس (آئی ٹی) جیسی مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے ‘غلط استعمال’ کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں نے پچھلے کچھ سالوں میں بار بار آواز اٹھائی ہے۔

حال ہی میں لوک سبھا انتخابات سے پہلے دو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہیمنت سورین اور اروند کیجریوال کو ای ڈی نے گرفتار کیا ہے۔ کئی دوسرے لیڈروں کے یہاں چھاپے ماری  بھی کی  گئی ہے اور انہیں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا ہے۔

بی جے پی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ایک ‘صاف ستھری’ پارٹی ہے اور باقی تمام پارٹیاں بدعنوانی میں ملوث ہیں، لیکن حالیہ الیکٹورل بانڈ کے انکشافات کے بعد پارٹی کا یہ دعویٰ شکوک کے دائرے میں ہے۔

بتادیں کہ پارٹی کھلے عام ان لیڈروں کو ٹکٹ دے رہی ہے اور ‘اسٹار کمپینر’ کے طور پر پیش کر رہی ہے جن کے خلاف مبینہ طور پربدعنوانی میں ملوث ہونے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔

دی وائر نے بھی ان لیڈروں کی اسٹیٹ وائز فہرست شائع کی تھی، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں اپنی پارٹی چھوڑی ہے۔اس کے بعد سےجہاں سی بی آئی نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (اجیت پوار دھڑے) کے پرفل پٹیل سے متعلق بدعنوانی کے معاملے میں کلوزر رپورٹ دائر کی ہے ۔ وہیں غیر قانونی کان کنی گھوٹالے کے ملزم جی جناردن ریڈی بی جے پی میں شامل ہو ئے ہیں۔

اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں ای ڈی کے ریکارڈ پر سال 2022 میں اسکرول کی ایک رپورٹ آئی تھی۔ اس میں اعداد و شمار اور ان حالات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، جس میں اپوزیشن کے خلاف جانچ کی گئی تھی۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا، ‘اپوزیشن سے جڑے کئی  معاملوں میں اگر ای ڈی کی جانچ کا وقت مشکوک لگتا ہے، تو وہیں اس کے برعکس بی جے پی  لیڈروں کے معاملوں میں کارروائی  کرنے میں ایسی کوئی عجلت نظر نہیں آتی۔’ اس رپورٹ میں پیش کیے گئے حکومتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2017 کے بعد سے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے والے کیسوں میں کس طرح اضافہ ہوا ہے۔

ایک اور تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ای ڈی کے 95 فیصد کیس اپوزیشن لیڈروں کے خلاف تھے۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2014 سے ستمبر 2022 کے درمیان 121 اہم لیڈر ای ڈی کے نشانے پر آئے جن میں سے 115 اپوزیشن لیڈر تھے۔ تب سے یہ فہرست اور بڑی ہو گئی ہے۔