خبریں

دہلی یونیورسٹی نے فلسطینی نظموں سے متعلق پروگرام کو رد کیا

اس بارے میں منتظمین کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جب رجسٹرار سے پروگرام کو اچانک رد کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ جبکہ اس پروگرام کے انعقاد کے لیے آرٹس فیکلٹی کے ڈین سےتحریری طور پر پیشگی اجازت لی گئی تھی اور اس کمرے میں کوئی دوسرا پروگرام بھی نہیں تھا۔

دہلی یونیورسٹی میں فلسطینی نظموں کے مجموعے پر منعقد پروگرام کی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: پروفیسر اپوروانند

دہلی یونیورسٹی میں فلسطینی نظموں کے مجموعے پر منعقد پروگرام کی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: پروفیسر اپوروانند

نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی نے فلسطینی نظموں کے مجموعہ ‘کویتا کا کام آنسو پونچھنا نہیں’ پر مذاکرہ  اور پوئٹری ریڈنگ’آؤ سنیں فلسطین کی آواز’ کا پہلے سے طے شدہ پروگرام رد کر دیا۔ یہ پروگرام گزشتہ سوموار (15 اپریل) کو یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی کے کمرہ نمبر 22 میں ہونا تھا۔ لیکن جمعہ (12 اپریل) کی شام کو اس کے منتظمین شعبہ اردو کی پروفیسر ارجمند آرا اور شعبہ ہندی کے پروفیسر اپوروانند کو ایک میل کے ذریعے اس کی منسوخی کی اطلاع دی گئی۔

اس حوالے سے منتظمین کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جب رجسٹرار سے پروگرام کو اچانک رد کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ جبکہ اس پروگرام کے انعقاد کے لیے آرٹس فیکلٹی کے ڈین سے تحریری طور پر پیشگی اجازت لی گئی تھی اور اس کمرے میں کوئی دوسرا پروگرام بھی نہیں تھا۔

تاہم، یونیورسٹی سے اجازت نہ ملنے کے باوجود منتظمین نے کمرہ نمبر 22 کے باہر فلسطین کی صورتحال پر بات چیت  کی اور پوئٹری ریڈنگ کی۔ پروگرام کے آغاز میں پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ کمرہ نمبر 22 کسی زمانے میں بحث و مباحثے کی جگہ ہوا کرتا تھا لیکن پچھلے دس سالوں میں اس یونیورسٹی میں شاید ہی کوئی بامعنی بحث ہوئی ہو۔ اب یہاں صرف ایک قسم کی بحث ہوتی ہے، اگر اسے بحث کہا جا سکے تو!

تصویر بہ شکریہ: پروفیسر اپوروانند

تصویر بہ شکریہ: پروفیسر اپوروانند

پروفیسر اپوروانند نے مزید کہا، ‘گزشتہ سال اکتوبر سے غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں  پوری دنیا کی اکیڈمک برادری فکر مند ہے۔ اکتوبر سے اب تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں ساٹھ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ بچے ہیں۔ زندہ بچ گئے لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جن کےجسم پر کئی زخم ہیں۔ انہیں ساری زندگی اسی معذوری کے ساتھ رہنا ہے۔’

انہوں نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں غزہ پر اسرائیلی حملے کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں لیکن ان ممالک کی حکومتیں اس کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔ ان کے خلاف مقدمے درج ہو رہے ہیں، گرفتاریاں ہو رہی ہیں، لیکن یہ آوازیں دبائی نہیں جا سکتی ہیں۔ اگرچہ ہندوستان کی اکیڈمک دنیا باقی دنیا سے مختلف نہیں ہے، یہاں دہلی یونیورسٹی میں ایک تقریب کے انعقاد کے لیے جگہ نہ ملنا ہمارے اپنے ملک کے موجودہ دور کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے پروفیسر اپوروانند نے کہا، ‘پوری دنیا اور بین الاقوامی عدالت اس معاملے میں اسرائیل کی مذمت کر رہی ہے اور اسرائیل جو غزہ میں کر رہا ہے اسے ‘نسل کشی’ مان رہی ہے۔ لیکن ہندوستان واحد ملک ہے جو جنگ کے ان حالات میں اپنے مزدوروں کو اسرائیل بھیج رہا ہے، کیونکہ وہاں سے فلسطینی مزدوروں کو نکالے جانے کی وجہ سے مزدوروں کی شدید کمی ہوگئی ہے۔’

تصویر بہ شکریہ: پروفیسر اپوروانند

تصویر بہ شکریہ: پروفیسر اپوروانند

پروفیسر ارجمند آرا نے کہا کہ جو لوگ چار پانچ سال پہلے یونیورسٹیوں میں آئے ہیں، انہیں موجودہ حالات  نارمل لگتے ہوں گے۔ ان کے لیے یہ تصور کرنا ذرا مشکل ہے کہ یونیورسٹی ایک الگ طرح کی جگہ ہوا کرتی تھی۔ کلاس روم تو سیکھنے کی جگہ تھی ہی، لیکن ہم اس سے زیادہ کلاس روم کے باہر سیکھتے تھے۔ بحث و مباحثے لگاتار ہوتے رہتے تھے۔ یونیورسٹیوں میں بحث کی  وہ جگہ مسلسل تنگ ہوتی جا رہی ہے، اور اب تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج کی دنیا میں سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے درمیان جو گٹھ جوڑ ہے اس کی وجہ سے میڈیا میں بھی فلسطین کی آواز سنائی نہیں پڑتی۔ لیکن وہ آواز موجود ہے یہ بتانے کے لیے اس شعر خوانی اور پوئٹری ریڈنگ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ادب انسانی تجربات کی وحدت کا اظہار کرتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ان تجربات کو ہندی قارئین تک پہنچایا جائے۔

پروگرام کے آخر میں پروفیسر اپوروانند اور پروفیسر ارجمند آرا نے مجموعہ سے کچھ اشعار سنائے ۔ پروفیسر آرا نے بتایا کہ ‘میں تم ہوں’ نظم کے شاعر رفعت العریر، جن کی نظمیں اس مجموعے میں شامل ہیں، وہ اسرائیلی حملے میں مارے گئے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ فلسطین کا خیال زندہ رہنا چاہیے۔