خبریں

جموں و کشمیر: پی ایس اے کے تحت حراست کو رد کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا – ہندوستان پولیس اسٹیٹ نہیں ہے

جنوبی کشمیر کے شوپیاں کے باشندے ظفر احمد پرے کے خلاف گزشتہ سال پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا اور انہوں نے اپنی حراست کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ اس معاملے پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں، جس میں قانون کی حکمرانی ہے، پولیس اور مجسٹریٹ کسی شخص کو اٹھا کر اس کے خلاف مقدمہ درج کیے بغیر پوچھ گچھ نہیں کر سکتے۔

جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: jkhighcourt.nic.in)

جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: jkhighcourt.nic.in)

نئی دہلی: جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت کشمیر کے ایک 26 سالہ باشندے کی حراست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس حراست کی توثیق کرنا اس بات کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا کہ ہندوستان ایک پولیس اسٹیٹ ہے، جو کہ یہ نہیں ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں، جس پر قانون کی حکمرانی ہے، پولیس اور مجسٹریٹ کسی شخص کے خلاف مقدمہ درج کیے بغیر اسے اٹھا کر پوچھ گچھ نہیں کر سکتے۔

اس معاملے میں جنوبی کشمیر کے شوپیاں کے رہنے والے ظفر احمد نے گزشتہ سال پی ایس اے کے تحت درج کیے گئے مقدمے کے سلسلے میں اپنی حراست کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

جسٹس راہل بھارتی نے اس معاملے میں 22 مارچ کو فیصلہ دیا تھا، جسے سوموار (15 اپریل) کو اپ لوڈ کیا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جواب دہندہ نمبر 2 (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، شوپیاں) کے اس طرح رویے کو قبول کرنا ہندوستان کے ایک پولیس اسٹیٹ ہونے کے منفی تصور کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا جو کسی بھی طرح سے تصور سے بالاتر ہے۔

جسٹس بھارتی کے مطابق، حراست کا حکم صرف الزامات پر مبنی ہے اور کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ ایک بھی حوالہ ایسا نہیں ہے کہ درخواست گزار کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ درج ہو۔

جسٹس بھارتی نے کہا کہ شخص کے خلاف کوئی مجرمانہ مقدمہ درج کیے بغیر ڈوزیئر میں شامل پولیس کے بیانات اور حراست کے حکم کی بنیاد پر کسی شہری کی ذاتی آزادی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

عدالت نے پوچھا کہ اگر درخواست گزار کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے تو کس قانون کے تحت اسے اٹھا کر پوچھ گچھ کی گئی۔

عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حراست کی بنیاد خود ایک مسخ شدہ حقیقت ہے، جو سنگین نوٹس کے لائق ہے۔ اس میں کسی رجسٹرڈ مجرمانہ فعل میں درخواست گزار کے ملوث ہونے کا واضح طور پر ذکر نہیں ہے۔ ورنہ یہ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، شوپیاں کے ڈوزیئر میں اور ضلع مجسٹریٹ، شوپیاں کے ذریعے دیے گئے نظر بندی کے حکم نامے کی حمایت میں اس حقیقت کا ذکر ضرور ہوتا۔ اس کے باوجود، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے حراست کی بنیاد میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ درخواست گزار سے پوچھ گچھ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ درخواست گزار لشکر طیبہ/ ایچ ایم تنظیموں کے سرگرم دہشت گردوں کا ایک کٹر اوور—گراؤنڈ ورکر (اوجی ڈبلیو) تھا۔ ڈی ایم شوپیاں نے یہاں تک کہا کہ درخواست گزار ضلع شوپیاں میں سرگرم دہشت گردوں سے رابطے میں تھا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘اب، اگر درخواست گزار نے پوچھ گچھ کے دوران مبینہ طور پر اپنے خلاف تمام منفی حقائق کا انکشاف کیا ہے… تو ضلع مجسٹریٹ شوپیاں کو ریکارڈ پر رکھنا چاہیے کہ درخواست گزار کو پہلے کس قانونی اختیار کے تحت اٹھایا گیا تھا، جس کے تحت مبینہ پوچھ گچھ کی گئی، تاکہ مدعا علیہ کی طرف سے حراست کی بنیادوں میں بیان کردہ مبینہ انکشافات کیے جا سکیں۔’

جسٹس بھارتی نے کہا، ‘ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس پر قانون کی حکمرانی ہے۔ اس میں پولیس اور ڈی ایم کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ ایک شہری کو اس کے خلاف کوئی مجرمانہ مقدمہ درج کیے بغیر اٹھایا گیا تھا اور مبینہ پوچھ گچھ سے درخواست گزار کے خلاف احتیاطی حراست کا معاملہ پایا گیا۔’

آرڈر کے مطابق، ‘جموں—کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978 یا اس معاملے کے لیے یونین ٹریٹری جموں و کشمیر کی حکومت کے تحت  کام کرنے والے ڈی ایم سے یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ ڈوزیئر میں پولیس کے ہی ورژن کو دہرائے اور حراست کا حکم دے۔ ‘

Categories: خبریں

Tagged as: , , , ,