بی جے پی لوک سبھا انتخابات 2024 میں پہلے ہی مسلمان مخالف مہم چلا رہی ہے۔ پی ایم -ای اے سی کی رپورٹ آنے کے بعد میڈیا اس کے کچھ حصوں کا حوالہ دے کر سنسنی خیز خبریں دکھا رہا ہے، جس سے لگتا ہے کہ بی جے پی کے جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ ایک انتخابی ریلی میں مسلمانوں کو ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والے’ کہا تھا۔
وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل (پی ایم — ای اے سی) کی ایک رپورٹ سرخیوں میں ہے۔ پرانے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1950 سے 2015 کے درمیان ہندوستان کی آبادی میں اقلیتوں کی حصے داری بڑھی ہے۔وہیں ہندو آبادی کی حصے داری گھٹی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ 1950 سے 2011 کے درمیان ہندوستان میں تمام مذہبی گروہوں کی آبادی مسلسل بڑھی تھی۔
اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ آبادی میں اضافے یا عدم اضافہ کا براہ راست تعلق خواتین کی خواندگی، ان کے بااختیار ہونے، بچوں کی اموات کی سطح اور دیگر سماجی و اقتصادی پہلوؤں سے ہے۔ اگر پی ایم-ای اے سی مردم شماری کے انہی پرانے کے اعداد و شمار کو دیکھے، جس کا وہ حوالہ دے رہا ہے تو پتہ چلے گا کہ شمالی ہندوستان میں ‘ہندو’ اور ‘مسلمان’ دونوں کی آبادی میں اضافے کی شرح جنوبی ہندوستان کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کیا ہے؟
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، 1951 میں ہندوؤں کی آبادی 33.36 کروڑ تھی جو 2015 میں بڑھ کر 99.53 کروڑ ہو گئی۔ یعنی اس عرصے میں ہندوؤں کی تعداد میں 69.17 کروڑ کا اضافہ ہوا۔ جہاں تک مسلمانوں کی تعداد کا تعلق ہے تو 1951 میں ان کی تعداد 3.54 کروڑ تھی جو 2015 میں بڑھ کر 17.97 کروڑ ہو گئی۔ یعنی اس عرصے میں مسلمانوں کی تعداد میں 14.42 کروڑ کا اضافہ ہوا۔
آبادی میں کتنے فیصد حصے داری میں اضافہ ہوا یا کمی واقع ہوئی ہے، اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ملک کی آبادی میں ہندوؤں کی حصے داری 1951 میں 84.98 فیصد تھی، جو 2015 میں کم ہو کر 78.06 فیصد ہو گئی ۔ یعنی آبادی میں ہندوؤں کی حصے داری 6.92 فیصد کم ہوئی۔ اسی عرصے میں مسلمانوں کی حصے داری 9.91 فیصد سے بڑھ کر 14.09 فیصد ہو گئی۔ یعنی آبادی میں مسلمانوں کی حصے داری 4.81 فیصد بڑھ گئی۔
لیکن ای اے سی کی رپورٹ نہ تو کل آبادی کے فرق پر زور دیتی ہے اور نہ ہی یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آبادی میں کس کی حصے داری کتنی فیصد بڑھی یا کم ہوئی۔ای اے سی کی رپورٹ میں ریٹ آف چینج یعنی تبدیلی کی شرح پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آبادی میں ہندو اور مسلمانوں کی حصے داری میں کس شرح سے تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ہندوؤں کی آبادی میں تبدیلی کی شرح -7.8 ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں تبدیلی کی شرح 43.2 ہے۔
مجموعی طور پر پرانے ڈیٹا کو ہی پی ایم —ای اے سی کی رپورٹ میں نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جہاں کروڑ یا فیصد میں مسلمانوں کی آبادی میں معمولی اضافہ نظر آ رہا ہے، وہیں ریٹ آف چینج میں اعدادو شمار بڑا ہو جا رہا ہے۔
آبادی میں اضافہ کو انتخابی مسئلہ بننا ہی تھا
بی جے پی لوک سبھا انتخابات 2024 میں پہلے ہی مسلم مخالف مہم چلا رہی ہے۔ رپورٹ آنے کے بعد میڈیا اس کے کچھ حصوں کا حوالہ دے رہا ہے اور سنسنی خیز خبریں دکھا رہا ہے، جو کہ بی جے پی کے جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے جیسا نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کو ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والے’ کہا تھا۔
انتخابات سے قبل ہی ایسے اشارے مل رہے تھے کہ آبادی میں اضافہ انتخابی بحث کا محور بن جائے گا۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ‘آبادی میں اضافے کے چیلنجز’ سے نمٹنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی بات کہی تھی۔
تاہم، یہ بیان دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے اپنی ہی وزارت کی طرف سے پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اقتصادی سروے 2018-19 کی باتوں کی تردید کی۔ اقتصادی سروے میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں اگلی دو دہائیوں میں آبادی میں تیزی سے کمی دیکھنے کو ملے گی۔
وزیر خزانہ نے 2024 کے لیے عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں بغیر کسی ڈیٹا کے کہہ دیا کہ ہندوستان میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جبکہ ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ 2019 سے 2024 کے درمیان ہندوستان کی کم ہوتی آبادی کی شرح بڑھ گئی ہے۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا نے تشویش کا اظہار کیا
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا نے میڈیا رپورٹنگ کو گمراہ کن اور تشویشناک قرار دیا ہے۔ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پونم متریجا نے کہا ہے کہ ‘میڈیا جس طرح مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ دکھانے کے لیے اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے وہ غلط بیانی کی ایک مثال ہے۔ ساتھ ہی یہ وسیع تر آبادیاتی رجحانات کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔’
فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ ‘ہندوستان کی مردم شماری کے مطابق، گزشتہ تین دہائیوں میں مسلمانوں کی دہائیوں کی شرح نمو میں کمی آرہی ہے۔ 1981-1991 میں مسلمانوں کی شرح نمو 32.9 فیصد تھی، جو 2001-2011 میں گھٹ کر 24.6 فیصد ہو گئی۔ یہ کمی ہندوؤں کے مقابلے زیادہ ہے۔ 1981-1991 میں ہندوؤں کی شرح نمو 22.7 فیصد تھی، جو 2001-2011 میں گھٹ کر 16.8 فیصد ہوگئی۔ 1951 سے 2011 تک مردم شماری کا ڈیٹا دستیاب ہے۔ اس مطالعے کا ڈیٹا بڑی حد تک مردم شماری کے ڈیٹا سے ملتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیٹا نئے نہیں ہیں۔
ہندوستان کی آبادی میں ‘مسلمانوں’ کی حصے داری بڑھنے کی سچائی؟
جب نریندر مودی جیسے رہنما مسلمانوں کو ہندوستان کی آبادی میں اضافے کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، تو وہ نہ صرف ایک کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہے ہوتے ہیں بلکہ غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر مذاہب کی طرح مسلمانوں میں بھی کل زرخیزی کی شرح (ٹی ایف آر) میں گزشتہ چند دہائیوں میں کمی آئی ہے۔
ممبئی واقع انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز کے سابق سربراہ کے ایس جیمز نے 2021 میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ 1951-61 سے 2001-2011 کی مردم شماری کے دوران ہندوستان میں تمام مذاہب کے مقابلے مسلمانوں کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس کے باوجود مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح میں سات فیصد اور ہندو آبادی میں اضافے کی شرح میں تین فیصد کی کمی واقع ہوئی۔
مسلمانوں کا روایتی طور پر دوسرے مذہبی گروہوں سے ٹی ایف آر زیادہ تھا، اس لیے فطری طور پر ان میں ٹی ایف آر میں کمی بھی کسی دوسرے گروہ سے زیادہ ہو گی کیونکہ ان میں اس کی کی گنجائش زیادہ ہے۔
پچھلے سال ‘آئیڈیاز فار انڈیا’ کی طرف سے کیے گئے ایک تجزیے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وقت کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ٹی ایف آر کے درمیان فرق کم ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف مذہبی گروہوں کے لوگوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں فرق کم ہوگیا ہے۔
ہندوستان کی آبادی میں اضافے کی شرح کی حقیقت کیا ہے؟
ہندوستان نے 2011 کے بعد سے مردم شماری نہیں کی ہے۔ لیکن دیگر عالمی سروے بتاتے ہیں کہ ہندوستان نے آبادی کے لحاظ سے چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 19 جولائی، 2022 کو راجیہ سبھا میں سی پی آئی (ایم) کے رکن پارلیامنٹ جان برٹاس کے ایک سوال کے جواب میں وزیر صحت بھارتی پروین پوار نے دعویٰ کیا تھا کہ مرکزی حکومت آبادی پر قابو پانے میں کامیاب رہی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں پارلیامنٹ میں پوچھے گئے کسی بھی سوال کے جواب میں حکومت نے مسلمانوں کو آبادی میں اضافے کی وجہ نہیں مانا ہے۔
دنیا نے بھی ہندوستان کے گرتے ہوئے ٹی ایف آر کا نوٹس لیا ہے۔ یو این ایف پی اے نے نومبر 2022 میں کہا تھا، ‘اچھی خبر یہ ہے کہ ہندوستان کی آبادی میں اضافہ مستحکم ہوتا دکھائی دے رہا ہے… کل 31 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں (جو کہ ملک کی آبادی کا 69.7 فیصد ہیں) میں شرح پیدائش 2.1 کی متبادل سطح سے کم پر ہے۔’ اس سال مارچ میں دی لانس ٹی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کا ٹی ایف آر مزید کم ہونے والا ہے۔ یہ 2027 تک 1.75 تک پہنچ سکتا ہے۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر