اتر پردیش میں نوجوانوں کے لیے بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ سرکاری نوکریوں کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ بھرتی کے امتحانات کا لمبا انتظار، پھر پیپر لیک کا مسئلہ اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے امتحانات کا رد ہوجانا بھی اب ریاست میں عام سا واقعہ ہے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے نوجوان اس وقت بےروزگاری کے ایشو پر ریاست کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت سے کافی مایوس ہیں۔ بھرتی امتحانات کا لمبا انتظار، امتحان سے پہلے پیپر لیک کا مسئلہ، تو کبھی بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے امتحانات کا رد ہو جانا، یہ سب اب ریاست میں ایک عام سا واقعہ ہے۔
یوپی میں حکومتیں بدلتی رہی ہیں، لیکن سرکاری نوکریوں میں دھاندلی اور پیپر لیک کےمعاملے نہیں۔ فی الحال اتر پردیش میں نقل ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ لوگوں کی مانیں تو یہ صرف بی جے پی حکومت کی بات نہیں ہے، اس سے قبل بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، لیکن اُس وقت بھرتی کے امتحانات بڑے پیمانے پر لیے جاتے تھے۔
اب نوجوانوں کا کہنا ہے کہ پیپر رد ہونے کے بعد امتحانات ہی نہیں ہوتے، بھرتیاں تک نکلنا بند ہو گئی ہیں۔
حکومت یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتی کہ بے روزگاری کوئی ایشو ہے
نوجوانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم ’یووا ہلہ بول‘ کے قومی جنرل سکریٹری پرشانت کمل نے دی وائر کو بتایا کہ پہلے کی حکومتوں میں بھی روزگار اور پیپر لیک کا مسئلہ تھا، لیکن تب سرکاریں اس کو سنجیدگی سے لیتی تھیں اور اسے حل کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ لیکن مرکز کی موجودہ مودی حکومت اور یوپی کی یوگی حکومت اس معاملے میں بالکل سنجیدہ نہیں ہیں۔ حکومت یہ تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتی کہ ریاست میں بے روزگاری ہے۔ منجھولے یا بڑے کاروبار ہیں ہی نہیں، جس کی وجہ سے نوجوانوں پر سرکاری نوکری کے لیےاور زیادہ دباؤ ہے۔
یوپی کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں یوگی آدتیہ ناتھ کے چار لاکھ نوکریوں کے دعوے والے پوسٹر ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی ہوئے لگائے گئے تھے۔ اس بارے میں پرشانت کمل کا کہنا ہے کہ یہ ایک جھوٹی خبر تھی، جس کی ان کی تنظیم نے پرزور مخالفت کی تھی۔ بعد میں حکومت کو اسے ہٹانا بھی پڑا۔
پرشانت کے مطابق،’یہ نوجوانوں کی طاقت ہی ہے، جس نے اپنی جدوجہد کے ذریعے اس بار انتخابات میں بے روزگاری کو بڑا ایشو بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ کم از کم اپوزیشن کی بڑی جماعت اب نوجوانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہے۔ روزگار کا مسئلہ سڑکوں سے لے کر عوامی منشور تک پہنچ گیا ہے۔ پی ایم مودی کے یوم پیدائش کو ‘جملہ دوس’ اور ‘بے روزگاری دوس’ کے طور پر منایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کہیں نہ کہیں بیک فٹ پر نظر آتی ہی ہے۔’
یہ بھرتیاں آخری بار اس سال میں آئیں اور اس کے بعد سے اب تک نوجوان ان کے انتظار میں بیٹھے ہیں
یوپی میں الہ آباد سرکاری نوکریوں کی تیاری کے لیے ایک بڑا ‘ہب’ مانا جاتا ہے۔ یہاں اساتذہ کی بھرتی کی تیاری کرنے والے کئی نوجوانوں نے دی وائر کو بتایا کہ ریاست میں اساتذہ کے 50 ہزار سے زیادہ عہدے خالی ہیں۔ خود یوپی حکومت نے 12 جون 2020 کو سپریم کورٹ کو یہ جانکاری دی تھی۔ حکومت نے اس وقت کہا تھا کہ اس وقت ریاست کے پرائمری اسکولوں میں اساتذہ کے 51112 عہدے خالی تھے۔ اس کے بعد ہر سال ہزاروں اساتذہ کے ریٹائرمنٹ کے باعث اور بھی عہدے خالی ہوئے ہیں، اس کے باوجود 2018 کے بعد سے بھرتی کا عمل شروع ہی نہیں ہوسکا ہے۔
ان امیدواروں نے یہ بھی بتایا کہ ریاست میں اساتذہ کی 5180 آسامیوں کے لیے اشتہار جاری ہونے کے بعد بھی بھرتی کا عمل مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش ایجوکیشن سلیکشن کمیشن سات سال بعد بھی فعال نہیں ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں نوجوانوں کا مستقبل تاریکی میں قیدہے۔
واضح ہو کہ اتر پردیش ہائر ایجوکیشن سروس کمیشن اور سیکنڈری ایجوکیشن سروس سلیکشن بورڈ کو ملا کر اتر پردیش ایجوکیشن سلیکشن کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس سال مارچ میں کمیشن کی بیٹھک بھی ہوئی تھی، لیکن اب تک اس کے چیئرمین، اگزام کنٹرولر اور سکریٹری کی تقرری نہیں ہو سکی ہے۔ اس کمیشن کا کام کب شروع ہوگا اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
سلیکشن کمیشن کی وجہ سے لٹکی ہیں کئی بھرتیاں
امیدواروں کا کہنا ہے کہ اس کمیشن کے ذریعے بیسک ایجوکیشن کونسل کے 1.5 لاکھ سے زیادہ اسکولوں، 4500 سے زائد امداد یافتہ سیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ سے لے کر پرنسپل تک کی تقرریاں کی جانی ہیں۔ اس کے علاوہ امداد یافتہ سنسکرت اسکولوں اور 331 کالجوں میں اسسٹنٹ پروفیسرز اور پرنسپل وغیرہ کی بھرتی بھی اس کمیشن کے ذریعے کی جائے گی، جو اس وقت خالی پڑی ہیں۔
لکھنؤ کی مدھو پاٹھک کا کہنا ہے کہ ہائر ایجوکیشن سروس کمیشن نے امداد یافتہ کالجوں میں اسسٹنٹ پروفیسر کے 1017 عہدوں اور سیکنڈری ایجوکیشن سروس سلیکشن بورڈ نے ایڈیڈ سکینڈری اسکولوں میں ٹرینڈ گریجویٹ ٹیچرز (ٹی جی ٹی) کے 3539 اور لیکچرر (پی جی ٹی) کے 624 کل 4163 عہدوں کے لیے 2022 میں درخواستیں طلب کی تھیں۔ ان آسامیوں کے لیے لاکھوں امیدواروں نے درخواستیں دی تھیں۔ اب یہ بھرتیاں بھی نئے کمیشن کے ذریعے کی جانی ہیں جو فی الحال لٹکی پڑی ہیں۔
تقریباً ایک دہائی قبل، سال 2013 میں ایڈیڈ سیکنڈری اسکولوں میں پرنسپلوں کی بھرتی کے لیے امتحان میں شریک بلیا کے برجیش یادو بتاتے ہیں کہ اس سال پرنسپل کے 632 عہدوں پر بھرتی کے لیے سیکنڈری ایجوکیشن سروس سلیکشن کمیشن نےعمل شروع کیا تھا۔ کئی سالوں تک معاملہ ٹھنڈے بستے میں رہنے کے بعد سلیکشن بورڈ نے نومبر 2022 کے درمیان 632 میں سے 581 آسامیوں کے نتائج کا اعلان کیا۔
لیکن ابھی منتخب افراد میں سے صرف نصف ہی چارج سنبھال سکے تھے کہ ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے انتخابی عمل میں نو سال لگنے کا حوالہ دیتے ہوئے فروری 2023 میں بھرتی کو ہی ردکر دیا۔ یہ ان ہزاروں اور لاکھوں امیدواروں کے ساتھ بیہودہ مذاق تھا، جنہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال اس کے لیے وقف کر دیے۔
سیوا یوجن کاریالیہ میں رجسٹرڈ بے روزگار
لکھنؤ کے ایک امیدوار نے بتایا کہ اتر پردیش میں کسی بھی سرکاری نوکری میں گروپ بی اور سی کے عہدوں کے لیے امیدواروں کو پہلے یو پی پی ای ٹی یعنی اتر پردیش سب آرڈینیٹ سروس سلیکشن کمیشن کا ابتدائی اہلیتی امتحان دینا پڑتا ہے۔ یہ صرف ایک سال کے لیے ہی ویلڈ ہوتا ہے۔ لیکن ایک سال میں اگر بھرتی کا امتحان نہیں ہوا تو اس امتحان کا نتیجہ ناقابل قبول ہو جاتا ہے اور آپ کو دوبارہ امتحان دینا پڑتا ہے۔ یہاں برسوں سے بھرتی کے امتحانات ہی نہیں ہو رہے ہیں، ایسے میں امیدوارکتنی بار یو پی ای ٹی ای کا امتحان دیں۔
وہیں، کئی طالبعلموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک بھرتی چار پانچ سال میں پوری ہو رہی ہے۔ پرائمری ایجوکیشن کی بھرتیاں 6 سال سے نہیں آئیں۔ ٹی جی ٹی، پی جی ٹی ایل ٹی کی بھرتی بھی برسوں سے نہیں نکلی ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں طالبعلم ڈپریشن کا شکار ہیں۔ کئی بار بھرتی کا امتحان درخواست کے اتنے عرصے بعد لیا جاتا ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے امتحان کے لیے بھی کوئی درخواست دی تھی۔ کئی بار ایڈمٹ کارڈ جاری ہونے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ کمیشن کی ہیلپ لائن پر کوئی فون نہیں اٹھاتا، کہیں سے بھی کوئی اطلاع نہیں ملتی، ایسے میں کئی طالبعلموں کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں۔
کئی طالبعلم درخواست دیے بغیر ہی اوور ایج ہو گئے
ان امیدواروں کے درمیان بے روزگاری کی کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جہاں طلباء برسوں سے آسامی آنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ ہزاروں طالبعلم درخواست دیے بغیر ہی اوور ایج یعنی اہلیت کی عمر کی حد کو پار کرکے نوکری کی دوڑ سے باہر ہو جا رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر برسوں بعد کوئی بھرتی آ بھی جائے تو نقل مافیا پیپر لیک کر کے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دے رہے ہیں۔ سرکار اور سسٹم صرف ‘سخت قانون’ اور ‘بہتر امن و امان’ کا ڈھول پیٹتے جا رہے ہیں۔
نوئیڈا اتر پردیش کا نیا ‘کوچنگ ہب’ بن رہا ہے۔ یہاں کئی سالوں سے سرکاری امتحانات کی تیاری کروا رہے ابھیشیک تیواری کہتے ہیں کہ ان کے ادارے میں زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کے طلباء پڑھنے آتے ہیں۔ آج کل گروپ بی اور سی کے لیے بھی درخواستیں بہت بڑھ گئی ہیں، اس لیے طلبہ اپنی تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ کچھ والدین اپنی زمین بیچ کرانہیں بھیجتے ہیں، کئی نوکری کے انتظار میں بھوکے پیاسے پڑھائی کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنے بچے پیسوں کا استعمال فیس اور کتابوں کے لیے کر سکیں۔
پبلک سروس کمیشن کے کئی امیدواروں نے کہا کہ کمیشن نے گزشتہ چھ سالوں سے یوپی ایل ٹی گریڈ ٹیچر کے لیے اشتہار جاری نہیں کیا ہے۔ بلاک ایجوکیشن آفیسر (بی ای او بھرتی) کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ کانسٹبل، اسسٹنٹ ریویو آفیسر (اے آر او) اور ریویو آفیسر (آر او) کے پیپر لیک ہونے سے لاکھوں طلبہ مایوس ہیں۔ لیکھ پال بھرتی کی جوائننگ ابھی تک نہیں آئی ہے۔ ایسے میں ہزاروں طلباء دن رات تناؤ سے گزر رہے ہیں کیونکہ اتر پردیش سب آر ڈینیٹ سلیکشن کمیشن کے کام کرنے کی رفتار بہت سست ہے۔ پہلے امتحان کے انعقاد میں برسوں لگ جاتے ہیں اور پھر پیپر لیک یا دھاندلی کی خبر سے سب کچھ پل بھر میں ختم ہو جاتا ہے۔
حکومت کیا کر رہی ہے؟
ان امیدواروں کی تمام پریشانیوں کے درمیان ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ریاست میں سرمایہ کاری بڑھانے، بے روزگاری کی شرح میں کمی اور دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مسلسل دعویٰ کرتی رہی ہے۔ روزگار کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ریاست میں روزگار میلے اور کئی انویسٹمنٹ سمٹ بھی منعقد کیے گئے ہیں۔
تاہم، یہ اسکیمیں نوجوانوں کو بے روزگاری کی دلدل سے نکالنے میں کس حد تک کامیاب ہوئیں، امیدواروں نے ایک لفظ میں اس کا جواب اسے ’ڈھکوسلے بازی‘ کہہ کر دیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیامانی حلقے وارانسی میں واقع بنارس ہندو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اسکالر انوپم کمار کا کہنا ہے کہ جب غریب طبقے کے طالبعلم کسی یونیورسٹی میں آتے ہیں تو ان کے والدین ان کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کے لیے اپنا پیٹ کاٹتے ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ بچہ آگے پڑھے اور سرکاری نوکری حاصل کرے۔ کیونکہ اس میں جاب سکیورٹی ہے۔ انہیں بے وجہ نوکریوں سے نہیں نکالے جانے کی گارنٹی ہے، لیکن جب یہ نوکریاں خطرے میں ہوں تو طلباء کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
روزگار میلے کے سوال پر انوپم کہتے ہیں کہ اس میں کتنی اور کیسی نوکریاں مل رہی ہیں، یہ دیکھنے والی بات ہے۔
وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا حکومت ان نوکریوں میں جاب سکیورٹی دے رہی ہے؟ کیا ان نوکریوں میں سرکاری نوکریوں کی طرح سہولیات اور دیگر مراعات شامل ہیں؟ کیا یہ نوکریاں امیدواروں کو ان کی اہلیت کے مطابق پیسے دے رہی ہیں؟ اگر ان سب کا جواب نفی میں ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ روزگار میلے کا یہ ڈرامہ بند کرے، کیونکہ یہ صرف لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ سرکاری نوکریاں ختم کرنے اور لوگوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں دھکیلنے کی سازش ہے۔
سرمایہ کاری تو آرہی ہے، لیکن روزگار کتنا مل رہا ہے؟
انوپم کا مزید کہنا ہے کہ اگر ریاست میں باہر سے بڑی سرمایہ کاری آرہی ہے تو یہ اچھی بات ہے، لیکن کیا اس سے نوجوانوں کو روزگار مل رہا ہے، یا یہ صرف کارپوریٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہے۔ اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ اگر حکومت کی جی ڈی پی بڑھ رہی ہے، اور نوجوان سڑکوں پر جدوجہد کر رہے ہیں، تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔ جب کارپوریٹ ٹیکس 30 فیصد سے کم کر کے 22 فیصد کر دیا جاتا ہے، اور عوام کو مہنگائی سے کوئی راحت نہیں ملتی تو اندازہ لگا لینا چاہیے کہ یہ سب کس کے فائدے کے لیے ہو رہا ہے۔
‘مشرق کا آکسفورڈ’ کہے جانے والے الہ آباد یونیورسٹی کے سر جی این جھا ہاسٹل کے طلبہ اس الیکشن میں بے روزگاری کے مسئلے کو سب سے بڑا ایشو مانتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قلیل مدتی ملازمت، جس میں اگنی ویر، اولا، اوبر، زومیٹو والے ڈیلیوری کے کام، عارضی ملازمین وغیرہ کے الگ الگ کام شامل ہیں، یہ کوئی مستقل ملازمت نہیں ہے، جسے حکومت بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ یہ سب صرف سرکاری نوکریوں کو ختم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
ان طلباء کا کہنا ہے کہ ویسے بھی اب حکومت میں کلرک اور چپراسی کی آسامیاں کانٹریکٹ پر بھری جا رہی ہیں۔ جو ریٹائر ہو چکے ہیں، ان کی جگہوں پر بھی کانٹریکٹ والے ہی کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں اسے مستقل روزگار کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ یہ سب صرف ‘گگ اکانومی’ کا حصہ ہے۔ کیونکہ اب سرکاری نوکریوں کی تیاری کرنے والوں کو بھی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ پوری طرح سے خرچ ہوچکے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ انہیں نوکری کب ملے گی، ملے گی بھی یا نہیں۔ اس لیے پیٹ پالنےاور گھر چلانے کے لیے امیدوار اس راستے پر جا رہے ہیں۔
پیپر لیک ان طلباء کی سالوں کی محنت اور پیسہ دونوں ضائع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلباء حکومت اورانتظامیہ سے اور زیادہ ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپر کی سکیورٹی کے اتنے پختہ انتظام ہوتے ہیں، حکومت کے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، پھر بھی یہ لیک کیسے ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ نوجوانوں کو نوکریوں سے دور رکھنے کے لیے ایک گمراہ کن صورتحال پیدا کرنے کی کوشش ہے، تاکہ حکومت کو انہیں نوکریاں نہ دینی پڑے؟
اتر پردیش میں نقل قانون کی تاریخ
قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش ملک کی پہلی ریاست تھی جس نے انٹر ہائی اسکول امتحانات میں نقل پر جیل بھیجنے کا قانون بنایا تھا۔ 1991 میں کلیان سنگھ کی حکومت میں راجناتھ سنگھ یوپی کے وزیر تعلیم تھے۔ اس وقت نقل کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے اینٹی کاپی آرڈیننس نافذ کیا گیا۔ حکومت کے بیشتر وزراء اس آرڈیننس کے خلاف تھے۔ 1992 میں آرڈیننس کے نفاذ کے بعد یوپی میں صرف 14 فیصد انٹرمیڈیٹ اور 30 فیصد ہائی اسکول کے امیدوار پاس ہو سکے تھے۔
تاہم، کلیان سنگھ کی حکومت کو 1993 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ کلیان سنگھ کی حکومت چلی گئی اور سماج وادی پارٹی کو انتخابات میں اکثریت ملی۔ اقتدار میں آنے کے بعد ملائم سنگھ نے کاپی آرڈیننس کو واپس لے لیا تھا۔
آج تقریباً تین دہائیوں بعد بھی نقل اتر پردیش میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بورڈ کے امتحانات کے علاوہ نوکریوں کے امتحانات میں نقل اور پیپر لیک کو روکنے میں آج کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ اس معاملے میں وزیر اعظم مودی کی مقبولیت بھی کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے کئی حامیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ دوسرے محاذوں پر ہٹ مودی-یوگی کی ڈبل انجن والی حکومت یہاں فیل ہے۔
اس بار انتخابات میں بے روزگاری ایک بڑا ایشو
ریاست میں بے روزگاری کس قدر شدید ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے لوگ وزیر اعظم نریندر مودی کے یوم پیدائش کو ‘راشٹریہ بے روزگاری دوس’ کے طور پر منا رہے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں سے بےروزگاری کو لے کر اپوزیشن، نوجوانوں اور کچھ دیگر تنظیموں کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے بعد حکومت اپنی انتخابی مہم کے دوران اس معاملے کو لے کر تھوڑی بے چین نظر آئی ہے۔
کانپور میں گزشتہ کئی سالوں سے سرکاری نوکری کی تیاری کرنے والے نوجوان ویبھو کشواہا کا کہنا ہے کہ پچھلے انتخابات کے مقابلے اس الیکشن میں بے روزگاری ایک بڑا ایشو ہے۔ گمٹی اور چوپال میں لوگ اس کے بارے میں بحث کر رہے ہیں۔ نوجوانوں میں غصہ بھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ غصہ واقعی ووٹوں میں تبدیل ہوگا یا نہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ اپوزیشن نے بھی اس بار روزگار کے حوالے سے اپنی تقریروں اور منشور میں کئی وعدے کیے ہیں، اسے ایشو بنانے کی کوشش کی ہے۔ بہار میں تیجسوی-نتیش حکومت نے یہ کرکے بھی دکھایا ہے۔ یوپی کے امیدوار بہار جا کر نوکری تلاش کر رہے ہیں۔ یہ ریاستی حکومت کی ناکامی ہے۔
ویبھو نے طلبہ کی کئی تحریکوں میں بھی حصہ لیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ڈبل انجن والی حکومت روزگار کے معاملے پر فیل ہے۔
وہ کہتے ہیں، ‘حکومت کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے چاہیے۔ معیشت بڑھ رہی ہے۔ میک ان انڈیا، مینوفیکچرنگ، جی ایس ٹی، رام مندر جیسے کام بڑھیا کیا ہے، لیکن روزگار کے معاملے پر یہ فیل ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ روزگار ہے۔ حکومت نے 2 کروڑ کا وعدہ کیا تھا پورا نہیں ہوا۔ اگنی ویر بھرتی اسکیم سے نوجوان کافی مایوس ہوئے ہیں۔ ایسے میں حکومت سے آئندہ کے لیے امیدیں قائم کرنا بھی بے کار ہے۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر