خبریں

’لوک سبھا کی 79 سیٹوں پر ووٹ کے حتمی فیصد میں اضافہ این ڈی اے کی جیت کے مارجن سے زیادہ‘: رپورٹ

مہاراشٹر واقع تنظیم ووٹ فار ڈیموکریسی نے انتخابی عمل میں کچھ واضح خامیوں کی نشاندہی کرنے کے علاوہ تین اہم دعوے کیے ہیں، جو الیکشن کمیشن کے طریقہ کارپر سوال قائم کرتے ہیں۔

(تصویر بہ شکریہ: X/@JPNadda)

(تصویر بہ شکریہ: X/@JPNadda)

نئی دہلی: 18 ویں لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اراکین، ، دونوں نے ہی الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی ) کے متعصبانہ رویے کے خلاف سنگین  الزام عائد کیے تھے۔ باقاعدگی سے پریس کانفرنس کرنے میں ای سی آئی کی ناکامی، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کو نوٹس میں لینے کے معاملے میں ناکامی اور رائے دہندگان کو دبانے کے علاوہ ای وی ایم کی خرابی کی اطلاعات کو نظر انداز کرنے کے رویے نے منصفانہ لوک سبھا انتخابات کے ارد گرد پہلے سے پولرائزڈ ماحول اور پولرائز کر دیا، جبکہ انتخابات پہلے ہی سیاسی سطح پر یکساں مواقع کے فقدان میں ہو رہے تھے۔

نتائج کے ایک ماہ بعد، مہاراشٹر میں واقع شہریوں کے فورم ووٹ فار ڈیموکریسی (وی ایف ڈی) نے کچھ سنسنی خیز دعوے کر کے معاملے کو اور پیچیدہ کر دیا ہے، جس کے باعث الیکشن کمیشن کے طریقہ کارکےحوالے سے خدشات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ،وی ایف ڈی نے انتخابی عمل میں کچھ واضح خامیوں کی نشاندہی کرنے کے علاوہ تین اہم دعوے کیے ہیں۔

ووٹنگ کے دن جاری کیے گئے اعداد و شمار اور ووٹنگ کے حتمی فیصد میں بڑا فرق

سب سے پہلے، اس نے دعویٰ کیا ہے کہ پولنگ کے دن شام 8 بجے ای سی آئی  کی جانب سےشیئر کیے گئے ووٹوں کی تعداد اورحتمی ووٹوں کی تعداد کے درمیان فرق تقریباً 5 کروڑ ہے (صحیح تعداد 46546885 ہے)۔ وی ایف ڈی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ووٹوں کی کل تعداد میں اس قدر تیزی سے اضافہ انتخابی عمل کی شفافیت کے حوالے سے شکوک پیدا کرتا ہے۔’وی ایف ڈی نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ‘ووٹوں کی تعداد میں مرحلہ وار توسیع’کے بغور مطالعے کے بعدنکالےگئے ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں پولنگ کے دن کی شام کو جاری ہوئے پولنگ اور آخری پولنگ کے درمیان ووٹ فیصد میں اضافہ تقریباً 1 فیصد تھا، جبکہ 18ویں لوک سبھا انتخابات میں تمام سات مرحلوں میں یہ فرق 3.2فیصد سے 6.32فیصدکے درمیان رہا۔

اس میں  کہا گیا ہے کہ یہ اعدادوشمار ‘آندھرا پردیش میں 12.54 فیصد اور اڑیسہ میں 12.48 فیصد’ ہے، جبکہ حتمی ووٹنگ فیصد میں اضافے کا مجموعی اوسط 4.72 فیصد ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘…ای سی آئی نے اب تک اس اضافے کے لیے کوئی قابل یقین  وجہ نہیں بتایا ہے۔’

حتمی ووٹنگ فیصد میں اضافہ 79 سیٹوں پر این ڈی اے کی جیت کے مارجن سے زیادہ

دوسرا،وی ایف ڈی نے دعویٰ کیا کہ ووٹنگ کے حتمی فیصد میں تیزی سے اضافہ 15 ریاستوں میں 79 سیٹوں پر بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی جیت کے مارجن سے زیادہ تھا، جن میں سے کئی سیٹ پر این ڈی اے کے امیدواروں نے بہت کم فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان 79 سیٹوں میں سے اڑیسہ کی  18؛ مہاراشٹر کی  11؛ مغربی بنگال کی  10؛ آندھرا پردیش کی  7؛  کرناٹک کی 6؛ چھتیس گڑھ اور راجستھان کی 5-5؛ بہار، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ کی تین-تین ؛ آسام کی 2 نشستیں اور اروناچل پردیش، گجرات اور کیرالہ کی ایک ایک نشست شامل ہیں۔

اس وجہ سےوی ایف ڈی نے الیکشن کمیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ شکوک و شبہات کو دور کرے اور ووٹنگ فیصد میں تیزی سے اضافے کی وجوہات کی شفاف طریقے سے وضاحت کرے۔

تاہم، رپورٹ میں ان نشستوں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا جہاں مخالف امیدواروں نے بھی حتمی ووٹنگ میں اضافے کے مقابلے میں کم فرق سے کامیابی حاصل کی۔ دو متضاد منظرناموں کا تقابلی مطالعہ کرنے سے وی ایف ڈی کا دعویٰ  زیادہ مؤثر ہوتا۔

این ڈی اے نے 18 سیٹوں پربہت  کم فرق سے کامیابی حاصل کی جہاں ووٹنگ کا عمل تنازعہ کا شکار تھا

تیسرا، رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ این ڈی اے کے امیدواروں نے 10 ریاستوں میں 18 سیٹوں پر  بہت کم فرق سے جیت حاصل کی۔ ان تمام انتخابی حلقوں میں سول سوسائٹی کے اراکین اور حزب اختلاف کے امیدواروں نے ووٹنگ اور گنتی کے عمل کے دوران مبینہ بدعنوانی اور ای وی ایم کی خرابی پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔

ان میں سے کچھ سیٹیں بہار کی  سارن، مہاراشٹر کی ممبئی نارتھ ویسٹ اور اتر پردیش کی فرخ آباد، بانس گاؤں اور پھول پور ہیں، جہاں این ڈی اے کے امیدوار بہت کم فرق سے جیتے ہیں۔

رپورٹ میں ووٹروں کو متاثر کرنے کے مختلف واقعات، ای وی ایم کی خرابی، انتخابات کے دوران اپوزیشن کی قیادت والی ریاستوں میں افسران  کے متنازعہ ٹرانسفر، انتخابی عہدیداروں کی مبینہ بدعنوانی، اپوزیشن کی شکایات پر توجہ نہ دینے اور انتخابی مہم کے دوران  کئی مبصرین کی طرف سے اٹھائے گئے اسی طرح کے شکوک و شبہات کے معاملوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

وی ایف ڈی  رپورٹ سابق نوکر شاہ ایم جی دیوشہایم اور کارکن ڈاکٹر پیارے لال گرگ نے لکھی تھی۔ وی ایف ڈی کا قیام  کارکن تیستا  سیتلواڑ، ڈولفی ڈسوزا، فادر فریزر مسکارنہاس اور خلیل دیشمکھ نے کیا تھا۔

گزشتہ 22 جولائی کو ممبئی میں رپورٹ جاری کرتے ہوئےوی ایف ڈی ٹیم نے انتخابات کے دوران پیدا ہوئے تمام شکوک و شبہات اور الزامات کی’خود مختار نگرانی کے تحت آزاد تحقیقات’ کا مطالبہ کیا۔

دی وائر نے اس سلسلے میں ای سی آئی سے جواب طلب کیا ہے۔ جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔