فکر و نظر

کشمیر کی تلاش میں: پہلی قسط

کشمیر پر ہونے والے بحث و مباحثہ سے کشمیری غائب ہیں۔ ان کے بغیر ان کی سرزمین کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ اس ستم ظریفی کے ساتھ آپ جہلم کے پانیوں میں غوطہ زن ہو  سکتے ہیں – یہ ندی دونوں طبقے کی نال سے لپٹی ہوئی یادوں اور مضطرب ڈور سے بندھے درد کے ہمراہ رواں ہے۔

ڈل جھیل پر پوسٹ باکس (تمام تصاویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

ڈل جھیل پر پوسٹ باکس (تمام تصاویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

آشوتوش بھاردواج نے آرٹیکل370 کے خاتمہ سے پہلے اور بعد میں کشمیر کے  کئی دورے کیے ہیں ۔ یہ ان کے رپورتاژ  کی پہلی قسط ہے۔

اس جھیل کے کنارے سیاہ لیمپ پوسٹ پر ایک سرخ باکس آویزاں رہتا ہے۔ چمکدار سرخ، گیلے رنگ کے احساس میں مبتلا کرتا، جس کے سیاہ ڈھکن پر سفید رنگ سے تحریر ہے – ایک نو صفر صفر صفر ایک۔ ایسے سرخ ڈبے اب کم ہی نظر آتے ہیں،اور کہیں نظرآتے بھی ہیں تو خستہ حال اور بدنما۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

لیکن یہ سرخی  بل-ورڈ روڈ پر چمکتی رہتی ہے۔ کیا یہاں کوئی خط پوسٹ بھی کرتا ہے؟ 2022 کے اس مارچ میں مجھے یہاں کوئی  آتاہوا نظر نہیں آتا اور نہ کسی ڈاکیہ کو اس کا تالا کھولتے دیکھا۔ اس سرزمین سے جنم لینے والے غیر معمولی شعری مجموعے کا نام ’دی کنٹری ودآؤٹ اے پوسٹ آفس ‘ کے بجائے ’دی پوسٹ آفس ودآؤٹ اے کنٹری‘ بھی ہوسکتا تھا۔ ایک ڈاک خانہ جو خطوط کے انتظار میں  ہے، ایک ایسی سر زمین جہاں کوئی خط نہیں لکھتا، تمام خط تحریر کیے جانے سے پہلے ہی دفن کر دیے جاتے ہیں۔

اس جھیل پر ایک سفید ہاؤس بوٹ بھی ہے – فلوٹنگ پوسٹ آفس۔ یہاں سرکاری بچت اسکیموں کے بورڈز نصب ہیں۔ اس کی سیڑھیاں چڑھتے لوگ کبھی کبھی نظر آ جاتے ہیں۔ شایداپنا اکاؤنٹ کھلوانے یا پیسے نکالنے جا تے ہوں گے۔ یہ جھیل حیرت انگیز ہے – کسی کائناٹ  کو اپنے اندر سموئے۔ انگریزی ناموں والی تمام  ہاؤس بوٹ اس  پانی میں خاموش جزیروں کی طرح آباد ہیں- نیو جرسی، میلبورن، سڈنی، آک لینڈ۔ ان غیر ملکیوں کے نام پر جو کبھی یہاں آئے تھے۔

جنوری 2011 میں جب میں یہاں آیا تو یہ جھیل سفید کانچ  بن چکی تھی۔ میں ایک ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا ہوا تھا۔ باہر سڑک پر جانے کے لیے صبح بیدار ہوتا، شکارے والے چپو  سے برف کی تہہ کو توڑتا، نیچے بہتا ٹھنڈا پانی جھلمل کرتا ہوا اُبھرآتا۔ وہ برف کو توڑتا ہوا، پانی پر  دھیرے دھیرے شکارہ چلاتا ہوا مجھے باہر اتاردیتا۔ میری آمد سے چند ماہ قبل 2010 کے موسم گرما میں وادی کشمیر دہل گیا تھا۔ سینکڑوں لڑکے، عورتیں اور بزرگ پھیرن میں ملبوس سڑکوں پر اتر آتے تھے، سپاہیوں کو پتھرمارتے تھےاور ہندوستانی حکومت کے خلاف غصے کا اظہار کرتے تھے۔ فوجی ان پر گولیاں چلاتے، کئی کشمیری مارے جاتے لیکن اگلے دن وہ نئے جنون کے ساتھ سڑکوں پر آ جاتے۔

ہندوستانی حکومت ہر دن کشمیریوں کے ہاتھوں شکست کھا  رہی تھی۔ چند ماہ بعدجب  میں  واپس آیا، سردیوں کی وجہ سے تشدد بند ہو چکا تھا، لیکن خوف بدستور موجود تھا۔ سیاح بہت کم تھے، اور ہاؤس بوٹ برف پرلکڑی کی مال گاڑیوں کے ڈبوں کی طرح ٹھہری  رہتی تھیں۔ مرغیاں رنگ برنگے شکاروں کے نیچے دبک کر کر سوتی  رہتی تھیں۔ سامنے پہاڑی پر شنکراچاریہ کا غار، سی آر پی ایف کیمپ، پرسار بھارتی سینٹر، پیچھے حضرت بل درگاہ – اور بل ورڈ روڈ پر مسلح فوجی اور ان کی بکتر بند گاڑیاں۔

ڈل جھیل پر تیرتا ڈاک خانہ۔

ڈل جھیل پر تیرتا ڈاک خانہ۔

اس سال،  2022، جھیل میں شکاروں کا ہجوم ہے، لاتعداد سیاح آئے ہیں اور مرغیاں ڈول  رہی ہیں۔ یہ مارچ کے آخری دن ہیں۔ میں حیران ہوں کہ میں نے اپنے پچھلے اسفار میں کئی بار اس جھیل کے کنارے تفریح کی، کئی بار اس جگہ سے گزرا، جھیل کے کنارے بنی اس دیوار پر صبح اور رات ، دوپہر اور شام بیٹھا لیکن یہ لال باکس میری نظروں میں نہیں آیا۔ میں شاید اکیلا نہیں ہوں،  جو اس قدر پریشان حال نظروں سےکشمیر کی داستان لکھ رہا ہوں۔

ان دنوں ہندوستان کشمیر پر بنی ایک فلم کو لے کر سلگ  رہا ہے۔ پچھلی دہائیوں میں کسی فلم نے ملک کو اس قدرنہیں جھلسایا، لیکن کشمیر کے شاید کسی باشندے نے یہ فلم نہیں دیکھی۔ وہ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ آرٹ اور زندگی کے کئی  اور وسیلہ اظہار کی طرح کشمیر کے سینما ہال بھی انتہا پسندانہ تشدد کی وجہ سے بند ہو گئے اور آج تک بند ہیں۔ ’آپ ہندوستان سے آئے ہیں۔ آپ نے ضرور دیکھا ہوگا۔ کیسی  فلم ہے؟’ سری نگر اور اننت ناگ میں  کشمیری مجھ سے پوچھتے ہیں۔

وہ نہیں جانتے کہ ‘قوم پرستانہ جذبات’ کی تشہیر کے لیے ہندوستانی فوج اپنے عظیم الشان ‘چنار آڈیٹوریم’ میں دی کشمیر فائلز  دکھا رہی ہے، ایک  دن میں تین شو۔ سری نگر چھاؤنی میں برفانی ہمالیہ کے نیچے اس آڈیٹوریم کے قریب فوج کی ایک کینٹین ہے جہاں غیر ملکی شراب فروخت ہوتی ہے۔ (عسکریت پسندانہ تشدد کے دوران کشمیر میں شراب پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ اب تک یہ صرف چند مقامات پر دستیاب ہے۔)

آج، 24 مارچ، میں اس آڈیٹوریم میں ایک میٹنی شو دیکھ رہا ہوں۔ شاید فوجی جوانوں اور ان کے اہل خانہ کے درمیان ہال میں بیٹھا واحد سویلین۔ میرے ساتھ والے لوگ اپنے فون پر گوگل کر رہے ہیں کہ پلوی جوشی کا کردار جے این یو کے کس پروفیسر پر مبنی ہے۔ آڈیٹوریم کے اندھیرے میں دو دیگر لوگ اپنے فون پر فلم کے ایک فریم میں موجود ارندھتی رائے اور یاسین ملک کودیکھتے ہیں۔

چنار آڈیٹوریم اور فلم 'دی کشمیر فائلز' کے شو کا بینر۔

چنار آڈیٹوریم اور فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کے شو کا بینر۔

کشمیر پر بحث ومباحثہ  سے کشمیری غائب ہیں۔ اس کے بغیر ان کی سرزمین کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ اس ستم ظریفی کے ساتھ آپ جہلم کے پانی میں غوطہ زن ہو  سکتے ہیں – یہ ندی  دونوں طبقے کی نال سے لپٹی ہوئی یادوں اور مضطرب ڈور میں بندھے درد کے ہمراہ رواں ہے۔ ایک گھاؤ کو دوسرے کے بغیر سنایا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر، 19 جنوری 1990 کی رات، جب کشمیری مسجدوں  سے پنڈتوں کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی،اس کے ٹھیک ایک دن بعد  گاؤ کدل کے قتل کے داستان کے بغیر نامکمل ہو گی، جب سیکورٹی فورسز کی فائرنگ میں سری نگر کے ایک پل پر تقریباً 50 مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔اگر یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جنہیں اپنی آبائی زمینیں چھوڑنے کے لیے  مجبور کیا گیا ، تو یہ ان لوگوں کی بھی کہانی ہے جو پیچھے رہ گئے اور مٹتے چلے گئے۔

یہ اس حسین جھیل کی کہانی ہے جہاں آپ بندوق برداروں سے آمنے سامنے ہوئے بغیر پچاس قدم نہیں چل سکتے۔ وہ سڑکیں جن پر  فوج کی بیابان گاڑیاں گزرتی ہیں اور شہریوں کو دیر تک روک دیا جاتا ہے۔ اس کہانی میں کئی کردار ہیں – وہ مکان جن کے مکینوں  کے لفظ اظہار سے پہلے ہی کھو جاتے ہیں، وہ عورت جو آپ کو آپ کی ‘ہندوستانی شہریت’ کے فائدے بتاتی ہے، دہشت گردوں کی دھمکیوں کے درمیان سری نگر میں زندہ  والا ایک بوڑھا پنڈت، ایک مسلمان لڑکی جس کو حال ہی میں پتہ چلا  ہے کہ وہ اپنا درد پنڈتوں کے ساتھ بانٹتی ہے – اور وہ بزرگ  شاعر بشیر احمد جنہیں ایک ناآسودہ خواب مضطرب کرتا ہے۔ وہ خواب جو ان کی منہ بولی بہن راج دلاری ہانڈو کے شوہر اور ان کے قریبی دوست بشمبھر ناتھ مٹو اکثر سنایا کرتے تھے: ‘میں اپنے خواب میں کم از کم ایک بار یہ دیکھنا چاہتاہوں کہ میں دہلی میں ہوں، لیکن میں ہمیشہ خودکو اننت ناگ کے دیوی بل مندر میں پاتا ہوں۔‘

بشمبھر ناتھ کو جنوری 1990 میں وادی چھوڑنی پڑی۔ کئی شہر بدلنے کے بعد انہوں نے دہلی میں سکونت اختیار کی اور چند سال قبل ان کا انتقال ہوگیا۔ لیکن بشیر احمد، جن کا تنا ہوا چہرہ اور تیز طرار آنکھیں کلنٹ ایسٹ ووڈ کی یاد دلاتی ہیں، آج بھی کسک محسوس کرتے ہیں ۔’جن لوگوں نے پنڈتوں کو مارا وہ سب دہشت گرد نہیں تھے،کئی  ہمارے آدمی بھی تھے۔’

بشیر کی زندگی بھی آسان نہیں رہی۔ ان کے کئی قریبی مسلمان دوست بے حساب تشدد میں مارے گئے۔ انہیں  خود حکومتی حمایت یافتہ مسلح گینگ اخوان کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور چند سال پہلے ان کے نوجوان بیٹے وصالت کو ممبئی میں بمشکل کرایے  پر کمرہ مل پایا۔

کوئی بھی کہانی کسی درد کو مکمل آواز نہیں دے سکتی، لیکن ایک مستند بیانیہ  اپنے مخالف کو شامل کیے بغیربھی اسے سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ٹھیک اس نکتے پر کشمیر فائلز  ناکام ہو جاتی ہے ، ایک فلم کے طور پر بھی اور سیاسی بیان کے طور پر بھی۔ اس مقام پر وہ مروجہ ڈسکورس بھی کالعدم ہو جاتا ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے خوف سے کشمیر کے اسلامی انتہا پسندی کو قبول کرنے سے گریز کرتی ہے۔ لیکن اگر چناب کو پھر سے چہچہانا ہے تو سچ کو سننا اور برداشت کرنا پڑے گا۔

عسکریت پسندی کے اس بیابان علاقے میں جہاں تمام مظلوم مسلمان اپنے اپنے سانحات کے ساتھ ہندوستانی اقتدار کے خلاف کھڑے ہیں، بشیر جیسے انسان کم ہی ہیں جو اپنےہمسایہ  پنڈتوں کے سانحات کا ذکر بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اگست 2019 میں ریاست کی جبری تقسیم کے بعد، میں نے جنوبی اننت ناگ سے لے کر شمالی کپواڑہ تک پورے کشمیر کا سفر کیا ہے – دس میں سے آٹھ مسلمان پنڈتوں کی ہجرت کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ ذرابھی افسوس نہیں۔ کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ ان کے اپنے دکھوں نے انہیں اپنے ہم وطنوں کے دکھوں سے غافل کر دیا ہے، یا چونکہ پنڈتوں کا ایک طبقہ خود کو ‘ہندو’ ہندوستان سے جوڑ کر دیکھتا ہے، اس لیے ‘مسلم کشمیر’ کو ان کے خلاف کھڑا ہونا ہی تھا۔ لیکن پھر کشمیریت کا عظیم الشان تصور سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ ویسے کشمیریت پر یہ سوال اسی کی دہائی میں ہی سامنے آیا تھا جب کشمیری مسلمان پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی تقریر پر جشن منا رہے تھے: ‘کشمیر کے بہادر عوام موت سے نہیں ڈرتے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ کشمیریوں کی رگوں میں مجاہد اور غازیوں کا خون ہے۔‘

بھٹو کشمیری مسلمانوں کی وراثت کو تمام مسلمان حملہ آوروں سے جوڑ رہی تھیں، لیکن کشمیر میں کسی نے بھی اس بات کی مخالفت نہیں کی کہ کشمیر صرف مسلمانوں کا نہیں، بلکہ ان سے پہلے پنڈتوں کا بھی ہے اور شیو فرقے اور شنکراچاریہ کا بھی ہے، کہ مجاہد اور غازیوں کا کشمیریت سے کوئی ناطہ نہیں۔

بے حساب کشمیری مسلمانوں کا خیال ہے کہ ان کی پہلی ‘آزادی’1950 کی دہائی میں آئی  جب شیخ عبداللہ کے دور میں بے زمینوں کو زمین دی گئی (جو کہ جدید کشمیر کا ایک لازمی اور تاریخی موڑ تھا)، دوسری ‘آزادی’ وہ تھی جب  1990 میں مسجدوں سے ملی دھمکی کے بعد پنڈت ہجرت کر گئے – ‘رلیو، گلیو، چلیو’ یعنی مذہب تبدیل کرو، مر جاؤ یا بھاگ جاؤ۔ اور تیسری آزادی کا انتظار ہے۔ کسی بھی دوسرے ہندوستانی صوبے کی طرح، ہم آہنگی کے نعروں کے باوجود، کشمیر میں بھی ایک طویل عرصے سے ایک تلخ  مذہبی درار موجود تھی اور جس کا شکار اقلیت کو ہونا تھا- گجرات میں مسلمان، کشمیر میں پنڈت۔

سری نگر کے اپنے عالیشان  گھر میں بیٹھے بشیر اپنے دوست کے الفاظ یاد کرتے ہیں: ‘بشیر دادا، آپ نے عسکریت پسندی شروع کرنے سے پہلے مجھ سے کیوں نہیں پوچھا؟ آپ نے مجھے اننت ناگ کیوں چھوڑنے  دیا؟’

بشیر کے پاس نہ اس وقت کوئی جواب تھا، نہ آج ہے۔

بشیر احمد۔

بشیر احمد۔

وادی میں کوئی بے قصور نہیں ہے۔ انتہا پسندی کی جڑیں بہت گہری اور دور تک جاتی ہیں۔ میں اپنے کشمیری مسلمان دوستوں سے اکثر پوچھتا ہوں کہ اگر کشمیر ایک سرحدی خطہ نہ ہوتا، اگر اسے پاکستان سے مسلسل تزویراتی اور اقتصادی مدد نہ ملتی تو کیا اس کی شورش یہاں تک پہنچ پاتی؟ ہندوستانی حکومت کے خلاف اپنی  جائز شکایتوں اور مسائل  کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملانا درست اقدام تھا؟ اگر کشمیری یہ جنگ اپنے نام پر، کشمیریت کے نام پر لڑتے تو کیا آپ کی آواز زیادہ توانا نہ ہوتی؟

فطری طور پر سوالات میرے پاس بھی واپس آتے ہیں۔ پہلا سوال خود سائل کے پاس ہی آنا چاہیے۔ ‘آپ کو سب سے پہلےیہ  واضح کرنا چاہیے کہ آپ  ہندوستانی شہری کے طور پر لکھ رہے ہیں’، بتیس برس کے ایک کشمیری مسلمان نے مجھے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔ ہم سری نگر کے ایک مہنگے کیفے میں بیٹھے ہیں۔ وہ ایڈورڈ سعید اور گایتری چکرورتی سپیوک کا حوالہ دیتی ہیں، ان کے الفاظ بے پناہ حرکت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جینز، ٹی شرٹ، ترشے ہوئے چھوٹے بال اس کے چہرے پر بکھرتے ہیں۔ ‘میں  عام کشمیری کی طرح نہیں لگتی  نہ… بیڈ جینز،’ وہ ہنستی ہے۔ وہ ایک یورپی یونیورسٹی سے کشمیر پر ڈاکٹریٹ کر رہی ہے۔ ‘ پنڈتوں کے المیے کے بارے میں (1990 کی) ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے کسی شخص سے پوچھنا بدتمیزی ہے،’ وہ اعلان کرتی ہے۔

کشمیری مسلمانوں کا سیاسی شعور کمال کا ہے۔ اپنی پیچیدہ تاریخ انہیں دو کی گنتی کی طرح یاد ہے، کشمیر پر ‘ہندوستان کے نوآبادیاتی تسلط’ کے بارے میں وہ گھنٹوں بات کر سکتے ہیں، سیکورٹی فورسز کے تمام جعلی تصادم اور قانونی مقدمے اپنی انگلیوں پر گن سکتے ہیں، لیکن ان کے اندر اس کمیونٹی کی ہجرت کی یاد بہت کم ہے جو صدیوں سے چناروں کے درمیان رہ رہی  تھی۔ کیا وہ ایک ایسے ماضی کا سامنا نہیں کرنا چاہتے جو عسکریت پسندی کے بارے میں ان کی سمجھ پر سوال اٹھائے، روادار، سیکولر کشمیری ہونے کی  ان کی اپنی  شناخت کو چیلنج پیش  کرے؟

میدان جنگ میں یادوں کی تباہی اور تعمیر نو شاید ناگزیر ہے – غم سے نجات پانے کے لیے ضروری انسانی حکمت عملیاں۔ مرنے والے کو بھی نئی شناخت ملتی ہے۔ کئی دہائیوں تک  سری نگر کے نقشبند صاحب کے اندر واقع ایک قبرستان کو شہید مرگزار کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں1931 میں ڈوگرہ بادشاہ کے خلاف احتجاج کے دوران فوج کی گولیوں سے ہلاک ہونے والے 22 افراد کو سپرد خاک کیا گیا تھا۔ 1990 میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے لوگوں کی ہلاکت کے بعد ایک نیا قبرستان بنا،  جو اب عوامی یاد میں شہید مرگزار بن گیاہے۔ مقبول ناولوں اور میڈیا رپورٹس میں آج اسی شہید مرگزار کا ذکر کیا جاتاہے، بہت کم لوگوں کو یاد ہے کہ شہید مرگزار کوئی اور ہوا کرتا تھا۔

آپ کو وادی کشمیر میں شہداء کی بہت سی یادگاریں ملیں گی۔ مثال کے طور پر پلوامہ ضلع میں شہداء کے لیے ایک عظیم الشان یادگار اور پارک ہے، ضلع کلکٹر کے دفتر سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر۔ یہ یادگار ریاست کے سب سے بڑے پبلک سیکٹر بینک جموں اینڈ کشمیر بینک نے تعمیر کروائی تھی۔ بینک اس کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے۔ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے بننے والی اس یادگار کا افتتاح اس وقت کے بینک کے چیئرمین مشتاق احمد نے نومبر 2011 میں کیا تھا۔ کیا کوئی دوسری ریاست ہے جہاں کوئی بڑا سرکاری ادارہ عوامی فنڈز سے حکومت مخالف علیحدگی پسندوں کی یادگار بناتا ہے؟ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے بہت سے نکسل گوریلا جنگجو اپنے ہتھیار چھوڑنے کے بعد سماج میں واپس آئے اور سرکاری اداروں میں شامل ہو گئے۔ ان کی  نکسلیوں سے ہمدردی قائم رہتی ہے، لیکن سرکار نے نکسلیوں کی کوئی یادگار نہیں بنوائی۔ پلوامہ کی اس یادگار پر آپ کشمیر اور ہندوستان کے تعلقات کو پڑھ سکتے ہیں۔

(جاری)

(اس رپورتاژکا ترمیم شدہ ورژن ‘تدبھو’ میگزین میں شائع ہوا تھا۔)