خبریں

کشمیر کی تلاش میں: دوسری قسط

کشمیر اس وقت دو طرح کے جذبات سے بر سرپیکار ہے؛ شدید غصہ اور احساس ذلت، اور گہری مایوسی کی یہ کیفیت غیرتغیرپسند ہے۔ نہ تو پاکستان آزادی دلا سکتا ہے اور نہ ہی مرکز کی کوئی آئندہ حکومت 5 اگست سے پہلے کے حالات کو بحال کر پائے گی۔

سری نگر کا زیرو برج (تصویر بہ شکریہ: فلکر/ Juan M. Gatica/CC BY-SA 2.0)

سری نگر کا زیرو برج (تصویر بہ شکریہ: فلکر/ Juan M. Gatica/CC BY-SA 2.0)

آشوتوش بھاردواج آرٹیکل 370 ہٹائے جانے سے پہلے اور اس کے بعد کشمیر کے  کئی دورے کر چکے ہیں ۔ یہ ان کے رپورتاژ کی دوسری قسط ہے۔ پہلی قسط  یہاں ملاحظہ کریں ۔

کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو آپ  اجتماعی حافظے سے ختم کر نے اور نئی یادوں کی تعمیر  کی کوشش کہہ سکتے ہیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی ریاست کو اس کے مقننہ اور عوام  کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر تقسیم کیا گیا اور یونین ٹیریٹری میں بدل  دیا گیا۔ آئین کے مطابق، ریاست کی تقسیم سے پہلے اس کی اسمبلی کی سفارش لازمی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

جلد ہی کشمیر کے تعلیمی اداروں میں ترنگا اور قومی ترانہ لازمی قرار دے دیا گیا۔ ایک سینئر فوجی افسر نے مجھے بتایا، ‘ہندوستان کشمیر سے تقریباً غائب رہا ہے۔ اسکولوں میں ہندوستانی علامتوں کے بارے میں بہت کم پڑھایا جاتا ہے۔ یہاں کے بچے ہندوستانی یادداشت کے بغیر بڑے ہوتے آئے ہیں۔ ہمیں اس کو  بدلنا ہوگا۔‘

مرکزی حکومت کشمیر میں ‘قومی شناخت’ کی تعمیر و تشکیل  کر رہی ہے۔ اگست 2019 کے بعد کشمیر میں کئی ‘ہند نواز’ آوازیں ابھری ہیں-ہندوستان کے لیے اپنے عقیدےکا اعلان کر تے تمام صحافی، کارکن اور این جی اوز۔ حکومت ان نوجوان کشمیری مسلمانوں کو پیسہ، سیکورٹی، رہائش اور دفاتر بھی فراہم کرتی ہے۔

گزشتہ برسوں میں ‘حب الوطنی’ کا عوامی اظہار زبان زد عام ہوا ہے۔ 23 مارچ  2022 یعنی یوم پاکستان کے موقع پر سری نگر کے لال چوک پر  ایک کشمیری ٹی وی چینل ‘کشمیر اسپیکس’ کے موضوع پر پروگرام کر رہا تھا۔ سڑک اور اسٹیج پر ترنگا لہرا رہا تھا۔ کشمیری بولنے والے ہندوستان سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے اور کشمیر میں پاکستان نواز لابی کی شدید مذمت کر رہے تھے۔

لال چوک۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

لال چوک۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

لال چوک جو کسی زمانے میں عسکریت پسندی کا ہیڈ کوارٹر تھا، نے کر وٹ لے  لی تھی۔ لال چوک ہندوستان کے خلاف مزاحمت کا اہم مرکز تھا، یہاں پرتشدد حکمت عملی بنائی جاتی تھی،  ثقافتی پروگرام منعقد کیے جاتے تھے۔ لیکن آج یہاں اے این این نیوز چینل ہندوستان  کی حمایت میں بحث و مباحثہ کرا رہا تھا۔ غور کریں کہ چند سال قبل حکومت نے کشمیر کے تمام چینلوں پر پابندی عائد کر دی تھی، صرف یہی چینل آج کشمیر میں چل رہا ہے۔

اس سال سری نگر پریس کلب کو بند کرانے کے پس پردہ بھی’ہند نواز’ صحافیوں کی ایک مہم تھی، جن کا ماننا تھا کہ پریس کلب ‘پاکستان نواز’ صحافیوں کا اڈہ بن گیا تھا۔ کبھی مزاحمت کی علامت رہے ‘رائزنگ کشمیر’ اور ‘گریٹر کشمیر’ اخبار آج وزیر اعظم یا لیفٹیننٹ گورنر کی تصویروں اور چاپلوس خبروں سے پُر نظر آتے ہیں۔

مثال کے طور پر، 29 اکتوبر 2019 کو یورپی یونین کے اراکین پارلیامنٹ کشمیر کی تقسیم کے بعد کی صورتحال کا معائنہ کرنے سری نگر آئے تھے۔ اس دن رائزنگ کشمیر کا اداریہ تھا – ‘سائیکل چلانے کے فائدے’۔ جب 12 فروری 2020 کو کئی غیر ملکی سفیرسری نگر کے دورے پر آئے ، اس اخبار کا اداریہ تھا – ‘اچھے گارجین کیسے بنیں’۔

مجھے یہ یقین کرنے میں تامل ہے کہ ان اخبارات کے مدیران یہ خبریں اپنی مرضی سے شائع کر رہے ہوں گے۔ اس خوف کا تصور کیجے جس کے تحت کبھی بولڈ رہےمدیران کو آج سائیکل اور ذیابیطس پر مضامین شائع کرنے پڑ رہے ہیں۔ کشمیر میں صحافت روزمرہ کی تذلیل کا باعث ہے۔ وہ تمام حقوق جن کے ساتھ دیگر ریاستوں میں صحافی کام کرتے ہیں (حالانکہ حالیہ برسوں میں حکومت  ملک بھر میں صحافت کو دھمکی دیتی آ رہی  ہے) کشمیر میں ندارد ہیں۔

رائزنگ کشمیر کا بدلا ہوا رنگ۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

رائزنگ کشمیر کا بدلا ہوا رنگ۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

جب کشمیر میں 5 اگست 2019 کے بعد کئی مہینوں تک انٹرنیٹ بند رہا تو سری نگر کے صحافی اپنی خبریں بھیجنے کے لیے ہر شام ایک سرکاری میڈیا سینٹر جاتے تھے۔ تقریباً دو سو صحافیوں میں صرف دس کمپیوٹر۔ جب میں اس سال نومبر میں کشمیر آیا تو اپنی خبریں وہیں سےبھیجتا تھا-لمبی لمبی قطاریں لگتی تھیں۔ ہم جانتے تھے کہ جیسے ہی ہم سرکاری کمپیوٹر پر اپنا ای میل کھولیں گے، ہمارا پاس ورڈ فوراً حکومت کے پاس چلا جائے گا، لیکن ہم بے بسی سے اپنی پرائیویسی اور اپنے آئینی حقوق کو پامال ہوتے دیکھ رہے تھے۔

‘آپ ہر صبح اٹھ کراس  پروپیگنڈہ کو دیکھتے ہیں، روز ذلیل ہوتے ہیں،’ایک مضبوط قد کاٹھی  کے نوجوان کشمیری تاجر کہتے ہیں۔ چمکدار شلوار قمیض اور بھاری گہنے پہنےان کی بیوی اس کے پاس بیٹھی ہے۔ وہ ایک سرکاری کالج میں ٹیچر ہیں؛’جب انہوں نے مجھے کالج میں قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا تو مجھے لگا جیسے میرا ریپ ہو رہا ہے۔’ ان کے شوہر کا اصرار ہے کہ ‘وہ بالکل بھی سیاسی نہیں ہیں، لیکن وہ بھی ریاست کی بربریت کو برداشت نہیں کرپائیں۔’

میں خاموشی سے سنتا ہوں۔ یہ میرے شعور اور تخیل سے باہر کی تصویر ہے۔ کشمیری لڑکیاں اسکول کی قطار میں ‘جن گن من’ گا رہی ہیں، اپنے ساتھ ریپ ہونے کا احساس کر رہی ہیں۔ میں اس توہین کی شدت کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ اگلے دن ایک فوجی افسر کے سامنے یہ بات اٹھاتا ہوں۔ وہ اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘کشمیریوں کے اندر وکٹم ہڈ کمپلیکس موجود ہے، وہ اپنی ہر مشکل کو بڑا کرکے دکھاتے ہیں، اور اس سے بھی کئی گنا زیادہ کسی  باہر والےکو  سناتے ہیں۔’

ہندوستانی حکومت اور کشمیریوں کے درمیان خلیج ناقابل تسخیر معلوم ہوتی ہے، لیکن میرے ایک کشمیری مسلمان دوست بڑی گہری بات  کہتے ہیں؛’کشمیر کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہرطبقہ اپنی تکلیف کو سب سے بڑا سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ زیادہ ناانصافی ہوئی ہے، پنڈتوں کو لگتا ہے کہ وہ کہیں بڑے وکٹم  ہیں۔‘یہاں تک کہ جموں کے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں کہ سب سے بڑی ناانصافی ان کے ساتھ ہوئی، کشمیر پر ساری توجہ رہی، اسکیموں کا پیسہ جاتا رہا، لیکن ‘ہندو ہونے کے باوجود جموں کو نظر انداز کیا گیا’۔

مصیبتوں اور دعووں کا یہ مقابلہ مذاکرات اور حل کے امکانات کو کم کر دیتا ہے۔

حقارت کے احساس کومیں نے نومبر-دسمبر 2019 میں کہیں  گہرائیوں سے محسوس کیا تھا۔ حال ہی میں ریاست کو تقسیم کیا گیاتھا، ایسا لگ رہا تھا کہ وادی میں جلد ہی کوئی دھماکہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اپنے بعد کے سفر میں میں نے دیکھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس کہیں غائب ہوگیا، یا شاید لوگ خاموشی سے دکھ سہنے کے عادی ہو گئے، یا کسی ‘ہندوستانی’ کے سامنے اپنے دکھ کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔

کوئی بھی ’ہندوستانی‘ اس توہین کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا۔ مثال کے طور پر، شدید سردیوں کے دوران سری نگر کے رہائشی علاقوں میں بجلی چلی جاتی ہے اور ہیٹر بند ہو جاتے ہیں۔ کئی دنوں تک لوگوں کے گھروں کے سامنے اور سڑکوں پر برف جمی رہتی ہے، لیکن سرکاری ملازمین برف ہٹانے نہیں آتے۔

اس وقت کشمیر میں دو طرح کے جذبات بر سرپیکار ہیں۔ شدید غصہ اور ذلت،کسی  چنگاری کی توقع جو ہندوستانی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔ دوسرے، گہری مایوسی کی یہ کیفیت  اب غیر تغیر پسند ہے۔ تمام تیوروں کے باوجود نہ تو پاکستان آزادی دلا سکتا ہے اور نہ ہی مرکز کی  کوئی آئندہ حکومت 5 اگست سے پہلے کے حالات کو بحال کرپائے گی یا کرنا چاہےگی۔

‘دفعہ  370 کبھی 50 منزلہ عمارت  ہوا کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دو منزلہ  رہ گئی۔ لیکن جس طرح سے اسے ہٹایا گیا، لوگوں نے خود کو ٹھگا ہوامحسوس کیا۔ تاہم، جب یہ ہوگیا ہے، توہمیں اس کے ساتھ رہنا ہوگا،‘ رفیق بلوٹ کہتے ہیں، جو اُڑی ضلع میں بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کے چیئرمین ہیں۔

فوجی حکام کا اصرار ہے کہ تشدد میں کمی آئی ہے اور دراندازی میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے اور سیاح واپس لوٹ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ستمبر 2021 کے بعد جون 2022 تک ،یعنی صرف دس مہینوں میں تقریباً ایک کروڑ سیاح کشمیر آچکے تھے۔ وادی کشمیر میں سرگرم دہشت گردوں کی تعداد پہلی بار دو سو سے نیچے آئی تھی۔ دہشت گردانہ تشدد میں کمی کی بہت سی وجوہات ہیں- سیکورٹی فورسز کے درمیان بہتر تال میل، جموں و کشمیر پولیس کی قلب ماہیت، علیحدگی پسندوں اورباغیوں کے خلاف سخت کارروائی، فوجی صلاحیت میں اضافہ، انٹلی جنس  کا بہترنظام اور پاکستان کی نسبتاً خاموشی۔

کئی  کشمیری گویا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب ان کا پڑوسی متحرک ہو گا۔

لیکن اگر اگست 2019 کی تقسیم اور اس کے بعد لگنے والے کرفیو نے بہت سے کشمیری مسلمانوں کو ضلالت  کے دلدل میں چھوڑ دیا، تو  انہیں ان احساسات کو بانٹنے کا موقع بھی فراہم کیا جن کا پہلے اظہار نہیں کیا گیاتھا۔ مثال کے طور پر، ایک زمانے میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں مارے گئے عسکریت پسندوں کے جنازے میں ہجوم دیکھنے کو ملتا تھا، چیخ و پکار کرتے اور اپنے سینوں کو پیٹتےانسان نظر آتے تھے۔ لیکن دہشت گردوں کی گولیوں سے مارے گئے لوگوں کا جنازہ بھی عوامی  طور پرممکن نہیں تھا۔ لوگ دہشت گردوں کے خوف سے اپنے لواحقین کی موت کا ماتم بھی نہیں کر پاتے تھے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں کمیونٹی کا احساس مزید گہرا ہوگیا، اپنی برادری کو بچانے کی مشترکہ خواہش، یہ احساس کہ گولی کہیں سے بھی آئے، شکار کشمیری ہی ہوگا – چاہے وہ ریہڑی  والا ہو یا سپاہی یا پڑوس  کا لڑکا جو  اے کے -47 لے کر لڑنے چلا گیا تھا۔ مارچ 2022 میں دہشت گردوں نے بڈگام ضلع میں ایک اسپیشل  پولیس افسر اور اس کے بھائی کو قتل کر دیا۔ ان کے جنازے میں ہزاروں لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔

عوام اس کے درمیان ابل رہی ہے، چاہے آپ اسے نہ دیکھ سکیں۔ ‘آپ سطح پر امن دیکھ رہے ہیں، کیونکہ ہم اندر سے پھوٹ رہے ہیں۔ میں جھیل کے کنارے آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں، مسکرا رہا ہوں، لیکن میں گہرائی میں ابل  رہا ہوں،‘ ایک کشمیری نوجوان نے ایک اندھیری شام میں  مجھے بتایا۔ سری نگر کا زیرو برج  دور تک جگمگا رہا تھا۔

سری نگر جہلم پر بنے لکڑی کے پلوں کا شہر ہے۔ آپ ایک محلے سے دوسرے محلے میں جانے کے لیے پل پار کرتے ہیں۔ ان پلوں پر ریہڑی والے اور مچھلی بیچنے والی خواتین بیٹھی رہتی  ہیں۔ کسی کمیونٹی کی نفسیات بھی اس کے جغرافیہ سے چلتی ہے – اس کی ندیاں، وادیاں، پہاڑ، صحرا،بیابان جنگل، سبز میدان۔ ان تمام علاقوں کے مکینوں کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کا کوئی حصہ ان کے جغرافیہ سےبھی طے ہوتاہوگا۔

ستم ظریفی ہی ہے کہ پلوں کے سہارے دوریاں مٹاتا آیا شہر ہندوستان کے ساتھ تمام پل توڑنے کے درپے ہے، چاہے اس کی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ کشمیر پچھلے پانچ سالوں سے اس مہلک  جذبےکے ساتھ نہیں جی رہا ہے، یہ کئی نسلوں اور کئی طبقوں کی اجتماعی ناکامی ہے۔ کشمیری زبان میں پل کا نام کدل ہے – ایسے ہی ایک کدل پر  1990 کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا، جب فوج کی گولیوں سے مسلمان مارے گئے تھے۔

سری نگر کے سات پل اہم  ہیں،سب کی زبان پر ہیں، کئی صدیوں پہلے بنائے گئے تھے- امیر کدل، حبہ کدل، فتح کدل، زینہ کدل، علی کدل، نوا کدل، صفا کدل۔

حبہ کدل کا نام کشمیر کی مشہور شاعرہ حبہ خاتون کے نام پر رکھا گیا ہے۔

ایک پل سب سے آخری  میں آیا اور اس کا نام  زیرو برج پڑ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سری نگر کی پہلی سافٹی آئس کریم یہیں ایک ریستوراں میں ملا کرتی تھی– زیرو ان ۔ میں اکثر شام کو کشمیری دوستوں کے ساتھ یہاں آ جاتا  ہوں۔ دور پہاڑ پر آرمی کیمپ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے – پاکستان کس طرف ہوگا؟ لشکر اور حزب کے دہشت گرد کہاں سے آتے ہوں گے؟

‘امن؟ کہاں ہے امن؟ اس سے زیادہ سپاہی آپ کو روئے زمین پر کہیں نہیں ملیں گے۔ ان فوجیوں کی یہاں موجودگی بذات خود تشدد ہے۔‘ وہ نوجوان کہتا ہے۔

مجھے یاد آتا ہے کہ بستر کے کانگریس لیڈر کواسی لکھما نے ایک بار مجھ سے کہا تھا؛’اتنی ساری فورس ہیں یہاں۔ ہماری مٹی کو خراب کر رہی ہیں۔ قبائلی رہنما لکھما کہتے تھے کہ پولیس کے بوٹ اور بندوقوں کی موجودگی محض ان کے جنگل کومیلا کر دیتی ہے۔

کشمیری شایدٹھیک کہتے  ہیں۔ باہر سے آیا ایک ‘ہندوستانی’ ان کے غصے کو نہیں سمجھ سکتا۔ چونکہ اس ‘ہندوستانی’ کی سمجھ ادھوری ہے،  اس کے الفاظ بھی ناکافی رہیں گے۔

اگست 2019 میں کشمیر کی تقسیم کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ کشمیر کسی بھی وقت پھٹ جائے گا اور یہ آتش فشاں 2010 اور 2016 کی گرمیوں سے زیادہ شدید ہو گا۔ لیکن ستمبر اور اکتوبر گزر گئے، کشمیر پر امن رہا۔ پھر کہا گیا کہ سردیوں کے بعد دھماکہ ہوگا، پھر گرمیاں آگئیں اور پھر ایک اور سردی اور نئی گرمیاں۔ میں گزشتہ برسوں میں بہت سے کشمیری مسلمانوں سے اس پر بات کرتا  رہا ہوں – کشمیر میں شہری مزاحمت میں آئی گراوٹ کو ہندوستانی حکومت اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ کشمیر کی خاموشی کو کس طرح دیکھا جائے؟

ایک صبح میرے ساتھ چائے پیتے ہوئے ایک کشمیری نوجوان ایک زبردست بصیرت پیش کرتا ہے۔ ‘ہمیں مزاحمت کا طریقہ بدلنا ہوگا۔ حالات سیکورٹی اداروں کے حق میں ہیں۔ ہم ایک لاش گرائیں گے، وہ ہمارے چار لوگوں کو ماریں گے۔ ہم اپنی جان گنوانے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔‘

وادی میں مزاحمت کا ایک پیٹرن  ہے۔ 2008 میں یہ عموماً ریلیوں اور نعروں کے ذریعے درج ہوا۔ اگلے سال نعروں کے ساتھ پتھراؤ شروع ہوا،  اور 2010 میں تمام غصے کا اظہار عموماً پتھر بازی کے ذریعے ہوا۔ حزب کمانڈر برہان وانی 2010 کے بدترین موسم گرما کا نتیجہ تھا۔ 2016 میں برہان کے قتل نے سینکڑوں برہانوں کو جنم دیا، لیکن مناسب تربیت اور ہتھیاروں کے بغیر یہ لڑکے ہندوستانی  فوج کا سامنا نہیں کر سکتے تھے۔

اور پھر فروری 2019 آیا، جب سی آر پی ایف کے 40 سپاہی خودکش بمبار عادل ڈار کے ہاتھوں مارے گئے – وادی کشمیر میں فوج پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ۔ کشمیر کی پرتشدد تاریخ میں فدائین حملے بہت کم ہیں، لہٰذا عادل ڈار کی کارروائی  نے وادی کو دہلا دیا تھا، ہندوستان اور پاکستان کو تقریباً جنگ کی طرف دھکیل دیا تھا۔

کسی انتہا پسند، دہشت گرد یا انقلابی تنظیم کا رکن،یا کوئی  سپاہی موت کے خوف پر قابو پانے کے بعد ہتھیار اٹھاتا ہے۔ یہ شخص اپنی موت کو شہادت سمجھتا ہے اور اسے کسی بڑے مقصد سے جوڑتا ہے۔ یہ شخص خود کو مرتا دیکھ سکتا ہے، دوسروں کو مار سکتا ہے۔ لیکن فدائین بالکل مختلف کاروبار ہے۔ نکسل تحریک کو پچپن سال گزر چکے ہیں، ہزاروں پولیس والوں کوانہوں نے  مار گرایا، وہ پولیس کےساتھ لڑتے ہوئے کئی گنا زیادہ کامریڈساتھیوں کو کھو دیا۔ وہ اس احساس کے ساتھ جیتے ہیں کہ آج کی رات آخری رات ہوسکتی ہے، لیکن آج تک نکسلی دستے سے ایک بھی خودکش لڑاکا نہیں نکلا ہے اور نہ ہی انہیں اس کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔

خودکش انسانی بم شاید کسی بھی پرتشدد تنظیم کا سب سے زیادہ مہلک، لبھانے اور ورغلانے والا حربہ ہے – اور آخری بھی۔ اس کے بعد کچھ نہیں بچتا۔

کشمیر میں اقوام متحدہ کا دفتر۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

کشمیر میں اقوام متحدہ کا دفتر۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

‘جو عادل احمد ڈار نے پلوامہ میں کیا تھا، آج کشمیر میں صرف وہی ماڈل کام کر سکتا ہے۔’ سری نگر کی اس صبح وہ  کشمیری نوجوان مجھے بتاتا ہے، اور فوراً یہ بھی کہتاہے، جیسے کچھ ادھورا رہ گیا ہو: ‘لیکن یہ کشمیر کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔’

اس وادی میں کوئی بھی بات چیت دہشت گردی اور دہشت گردوں پر بحث کیے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ لوگ اصرار کرتے ہیں کہ انہیں عسکریت پسند کہا جائے نہ کہ دہشت گرد۔ یہ صورت حال ہندوستان کے ایک اور میدان جنگ بستر کے برعکس ہے، جہاں قبائلیوں کا ایک طبقہ نکسلیوں سے منہ موڑ رہا ہے، یہاں تک کہ نکسلائٹ بھی تھکنے لگے ہیں۔ کشمیر میں عام لوگ بھی نہیں تھکے ہیں،لمبی دوڑ کے لیے تیار ہیں۔ آپ کو کشمیر کے کونے کونے میں خوفناک سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔

کشمیر کے انٹلی جنس نظام کے بارے میں میری سب سے تباہ کن یاد دسمبر 2019 کی اس سرد اور تاریک شام کی ہے، جب میں نے خانہ بل میں ڈی آئی جی آفس کے سامنےسےبس لی تھی۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر آٹھویں جماعت کا ایک معصوم سا لڑکا بیٹھا تھا۔ ہم اگلے گھنٹے تک باتیں کرتے رہے۔ وہ دفعہ 370 اور 371 کی پیچیدگیوں سے واقف تھا۔ لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب کے درمیان لطیف فرق کی وضاحت کر سکتا ہے۔ وہ اپنے علاقے میں سرگرم مجاہدین اور دہشت گردوں کے نام بتا سکتا تھا۔ اس نے مزید کہا کہ 5 اگست کے بعد لگائے گئے طویل کرفیو اور لاک ڈاؤن کا اصل فائدہ دہشت گردوں کو ہوا تھا۔ وہ اکثر گاؤں میں آ جاتے تھے، مقامی لوگوں کے ساتھ رہتے تھے کیونکہ فون بند ہونے کی وجہ سے مخبر پولیس سے رابطہ نہیں کر پاتے تھے۔ 5 اگست کے بعدسے کئی مہینوں تک ہندوستانی انٹلی جنس نظام معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔

(جاری)