اگست 2019 میں دعوے کیے جا رہے تھے کہ بہت جلد کشمیری پنڈت کشمیر واپس آجائیں گے، باقی ہندوستانی بھی پہلگام اور سون مرگ میں زمین خرید سکیں گے۔ لیکن حالات اس قدر بگڑے کہ وادی میں باقی رہ گئے پنڈت بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
آشوتوش بھاردواج آرٹیکل 370 ہٹائے جانے سے پہلے اور بعد میں کشمیر کا کئی دورہ کر چکے ہیں۔ یہ ان کے رپورتاژ کی تیسری قسط ہے۔ پہلی اور دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں۔
بی جے پی کے تمام دعووں کے باوجود کشمیر میں مقیم پنڈت ذرا سی عزت کے لیے ترس رہے ہیں۔ دسمبر 2019 میں ‘کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی’ کے صدر سنجے ٹِکو نے مجھے بتایا تھا، ‘1990 کی دہائی کے مقابلےآرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد میں زیادہ خطرہ محسوس کرنے لگا ہوں۔’ وہ سری نگر کے بربرشاہ علاقے میں ایک پرانے مکان میں رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی طرف سے انہیں ملنے والی دھمکیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بزرگ ہوتے انسان امید کھو رہے ہیں۔ 2021 کے نصف آخر میں حکومت کو انہیں سکیورٹی دینی پڑی، وہ کئی ماہ تک گھر سے باہر نہیں نکلے۔اگر کبھی ڈاکٹر وغیرہ کےلیے جاتے بھی تھے تو پوری سیکورٹی میں۔
اگلے سال وہ مجھ سے بولے ،’پولیس میرے بارے میں فکر مند ہے۔ مجھے کچھ ہوا تو وادی میں پنڈتوں کی آخری آواز بھی ختم ہوجائے گی۔‘
اس شخص کی تکلیف میں آپ پنڈتوں کے بارے میں دائیں بازو کے کھوکھلے دعووں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے کمرے میں رنگین قالین بچھی ہے، جو روایتی کشمیری گھروں میں نظر آتی ہے۔ قالین میں ہلکی سی سلوٹ بھی انہیں پسند نہیں۔ میرے بیٹھنے سے تھوڑی سلوٹیں پڑ گئی ہیں۔ وہ اسےبے ادبی سمجھتے ہیں، اور میں شرمندہ جاتاہوں۔
ان کی تنظیم نے پنڈتوں کی نقل مکانی کا گہرائی سےمطالعہ کیا ہے۔ 31 دسمبر 1989 کو کشمیر میں 77137 پنڈت خاندان تھے۔ مئی 1990 تک تقریباً 70000 خاندان اپنے گھر بار چھوڑ چکے تھے۔ باقی بھی آہستہ آہستہ چلے گئے، آج تقریباً 800 رہ گئے ہیں۔ وہ دہشت گردانہ حملوں میں پنڈتوں کی ہلاکتوں پر سرکاری اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں۔ ریاستی حکومت ہلاکتوں کی تعداد 219 بتاتی ہے، لیکن ان کی تنظیم کے مطابق صرف 1990 میں ہی 574 پنڈت مارے گئے تھے۔
‘ہر کوئی کشمیریوں کو بیئرر چیک کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مسلمانوں کے نام پر، پنڈتوں کے نام پر، ڈوگروں کے نام پر… آپ جس طرح چاہیں،ہمیں استعمال کر سکتے ہیں۔‘ان کی آواز ڈوبنے لگتی ہے۔
ٹکو ان چند پنڈتوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے کبھی وادی چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا، لیکن اب وہ خوفزدہ ہیں۔ اگست 2019 میں دعوے کیے جا رہے تھے کہ بہت جلد پنڈت لوٹ کرکشمیر آجائیں گے، اورباقی ہندوستانی بھی پہلگام اور سون مرگ میں زمین خرید سکیں گے۔ 2020 میں، ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ’ہم واپس آئیں گے’ کی مہم چلنے لگی، اور پنڈت اپنی ہجرت کے تیسویں سال میں اپنی سرزمین پر واپس آنے کی قسم کھانے لگے۔
لیکن حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ وادی میں رہ گئے پنڈت بھی اپنا گھر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی تھی، جس میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ وہ حکومت کو انہیں محفوظ مقامات پر لے جانے کا حکم دے۔
سنجے ٹکو کی اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ اور مرکزی حکومت وادی میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور انتظامیہ کی وجہ سے کشمیر میں رہنے والی مذہبی اقلیت مایوسی کا شکار ہو چکی ہے۔ انتظامیہ ان کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔
کشمیری پنڈتوں کا اصرار ہے کہ ان کے لیے ایک بڑا منصوبہ اپریل 2008 میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے متعارف کرایا تھا، جب انھوں نے وادی میں لوٹنے کے خواہش مندلوگوں کے لیے’کشمیری تارکین وطن کی واپسی اور بحالی’ کے نام سےایک پیکیج کا اعلان کیا تھا ۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بازآبادی اسکیم کے تحت نوکری لیتے وقت پنڈتوں کو یہ حلف نامہ دینا پڑتا ہے کہ وہ کشمیر میں ہی کام کریں گے اور اگر وہ کسی بھی وجہ سے کشمیر سے ہجرت کرتے ہیں تو انہیں نوکری سے برخاست کردیا جائے گا۔
اپنی برادری پر حملہ ہوتے دیکھ کر مہاجر پنڈت اس حلف نامے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کسی ایسی جگہ کا نام بتائیں جہاں کسی کو نوکری ملنے سے پہلے ایسا بانڈ لکھنے کو کہا جاتا ہے۔ ‘ہمیں اس طرح کیوں ذلیل کیا جاتا ہے؟’، وہ پوچھتے ہیں۔
ہجرت کے بعد واپس آنے والے یہ پنڈت خاندان عارضی مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں۔ ایسبیسٹوس کی چھت والے گھر گرمیوں میں گرم ہو جاتے ہیں۔ پانی کی قلت اور بدحال نالیاں الگ سے اذیت ہیں۔ کیمپوں کے اندر اور باہر دہشت گردوں کے حملوں سے بچانے کے لیے بھاری سکیورٹی فورسز تعینات ہیں۔ کشمیر کے یہ باشندے اپنی ہی زمین پر دربےمیں بند مرغیوں کی طرح رہتے ہیں۔ اگر ہندوستان میں پاکستان کی جیت پر تالیاں بجانے والے کشمیری مسلمانوں کے خلاف حکومت مقدمہ درج کرتی ہے، تو کشمیر میں پنڈتوں کے لیے ہندوستان کی جیت کا جشن منانا خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔
اننت ناگ کے ایک کیمپ میں، 695 پنڈت خاندان کسی طرح کل 177 کوارٹر میں مقیم ہیں، اس اذیت ناک یاد کے ساتھ کہ تھوڑے سے فاصلے پر ان کے بڑے بڑے گھر اور باغات ویران پڑے ہیں، لیکن اب ان کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ اس کیمپ کے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں بزرگ بھارت بھوشن بھٹ رہتے ہیں۔ ان کی بیٹی سرکاری ملازم ہے۔ وہ مجھے بہت پیار سے اندر بلاتے ہیں۔ ان کے پاس ہندوستانی حکومت کے خلاف ڈھیر ساری شکایتیں ہیں۔
کولگام ضلع کے چوگام گاؤں میں پنڈتوں کے کئی گھر ویران پڑے ہیں۔ چوگام میں تقریباً 50 کشمیری پنڈت خاندان رہتے تھے، آج صرف ایک رہ گیا ہے۔ کچھ گھر مسلمان پڑوسیوں نے خرید لیے ہیں اور کچھ کھنڈر بن چکے ہیں۔ چنار اور اخروٹ کے درختوں سے گھرے ان گھروں کے چاروں طرف زرد پتے بکھرے ہوئے ہیں۔ اس خوبصورت وادی میں ایسے اداس اور تباہ حال مکانات دیکھ کر انسان مضطرب ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ وادی کشمیر پنڈتوں کی ہجرت کی لعنت کے ساتھ جی رہی ہے۔ چوگام کے ایک اکیلے دروازے کی جھری سے ایک پنڈت عورت جھانک رہی ہے، بات کرنے سے ہچکچا تی ہے۔
کلدیپ کول نے 6 مارچ 1990 کو چوگام میں اپنا گھر چھوڑ ا تھا۔ وہ جموں میں آباد ہوئے اور گھر اپنے پڑوسی فاروق احمد کو بیچ دیا۔ وہ واپس آنا چاہتے ہیں لیکن راستہ نظر نہیں آتا۔ سنجے ٹِکو کچھ تلخ لیکن سچ کہتے ہیں،’ہیش ٹیگ مہم سے کچھ نہیں بدلے گا۔ کتنے پنڈت واقعی واپس آکر آباد ہونا چاہتے ہیں؟‘
وادی میں رہنے والے کشمیری پنڈت اس بات سے بھی مایوس ہیں کہ تمام خطرات کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود ان کی آواز گم ہے اور کسی کی اس پر توجہ نہیں ہے، جبکہ دہلی اور بیرون ملک رہنے والے خوشحال پنڈت اپنی برادری کے ترجمان بن چکے ہیں۔ وہ پنڈت خاندان جنہوں نے بدترین تشدد کے دوران بھی اپنا کشمیر نہیں چھوڑا، اور اسلامی انتہا پسندی کے خلاف کھڑے رہے، کشمیر کی بحث میں انہیں بہت کم جگہ ملتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں وادی میں رہنے والے پنڈتوں اور مہاجر پنڈتوں کے درمیان رسہ کشی مزید گہری ہوئی ہے۔ یہ کشمیر کے پیچیدہ بین کمیونٹی تعلقات کو کانٹے دار بنا سکتا ہے۔
لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پنڈت کبھی واپس آسکیں گے؟ ان کی واپسی کشمیری مسلمانوں کے کھلے دل سے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔ اصولی طور پر، اگرچہ مسلمان پنڈتوں کی واپسی کے خلاف نہیں ہیں، کچھ مسلمان ان پر ہونے والے تشدد کے لیے معافی بھی مانگتے ہیں، لیکن وہ ان کی واپسی کے لیے پرجوش دکھائی نہیں دیتے۔ پنڈت خاندانوں کے ایک ماہ یا پندرہ دن کے لیے کشمیر واپس آنے اور اپنے پرانے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ رہنے کی بہت سی کہانیاں ہیں جنہوں نے ان کے گھر مہنگے داموں خریدلیے تھے۔ دونوں خاندانوں کی جذباتی ملاقات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی گردش کرتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ محبت تب تک قائم رہتی ہے جب تک کہ مسلم خاندانوں کے معاشی مفادات متاثر نہ ہوں۔ جو گھر اور باغات اب ان کے پاس چلے گئے ہیں، وہ آسانی سے پنڈتوں کو واپس نہیں کرنے والے ہیں۔ گزشتہ بتیس سالوں سے پنڈتوں کی ہجرت کی یاد کو مٹانے والی کمیونٹی اس جائیداد کو پنڈتوں کے حوالے کیسے کرے گی؟
کشمیر آج ایک مسلم ریاست ہے، شاید یہ بہت پہلے ہو چکا تھا- اگر اس کو تسلیم کرنے سے آپ کا سیکولرازم یا سیاسی تقدس پامال ہوتا ہے، تو آپ انسان نہیں، کسی نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کشمیر اور ہندوستانی جمہوریہ پر ایک سوال ہے۔ آپ ان کی واپسی کو یقینی نہیں بنا سکتے، لیکن کم از کم ان کے المیے کو تسلیم توکر سکتے ہیں۔
(جاری)
Categories: فکر و نظر