فکر و نظر

کشمیر کی تلاش میں: چوتھی قسط

رائٹ ونگ کشمیر کو مسلمان حملہ آوروں کی سرزمین قرار دے کر ہندوستان سے اس کی بیگانگی کو اور بڑھا رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان کے ساتھ کشمیر کی خلیج بڑھ گئی ہے۔

(تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

(تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

آشوتوش بھاردواج آرٹیکل 370 ہٹائے جانے سے پہلے اور بعد میں کشمیر کا کئی دورہ کر چکے ہیں۔ یہ ان کے رپورتاژ کی چوتھی قسط ہے۔ پہلی، دوسری اور تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں۔

کشمیری  کیلنڈر میں غالباً ہر تاریخ سرخ ہے، کئی تاریخوں پر متعدد نشان ہیں۔

مثلاً،19 جنوری 1990 کی رات کو کشمیری مسجدوں سے پنڈتوں کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی  اور اس کے ٹھیک ایک دن بعد سری نگر کے گاؤں کدل میں ہندوستانی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے 50 کے قریب مسلمان مارے گئے تھے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پنڈتوں کی ہجرت کے ٹھیک دس سال بعد، مارچ 2000 میں شاید وادی کشمیر کی سب سے سازشی ہلاکتیں ہوئی  تھیں۔ سب سے پہلے، اننت ناگ ضلع کے چتی سنگھ پورہ گاؤں میں پینتیس سکھوں کو امریکی صدر بل کلنٹن کے ہندوستان دورہ سے عین قبل مار دیا گیا۔ ان کے قاتلوں کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ پھر اس واقعہ کے چند دن بعد ہندوستانی  فوج نے اننت ناگ کے پتھری بل علاقے میں کچھ لوگوں کو یہ کہہ کر ہلاک کر دیا کہ وہ  غیر ملکی دہشت گرد تھے، جنہوں نے سکھوں کو مارا تھا۔

لیکن لوگوں نے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ مہلوکین  براری آنگن نامی ایک پڑوسی گاؤں کے رہنے والے گرجر مسلمان تھے۔ اور جب لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کے لیے بیرک پور میں ریلی نکالی تو کئی مسلمان پھر سے سیکورٹی فورسز کی گولیوں سے مارے گئے۔

ہر سال 26 مارچ کو براری آنگن کے یہ خاندان اپنے مقتول  کا سوگ مناتے ہیں۔ ایسے ہی  ایک سال عبدالرشید اور شکور احمد نے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا کہ فوج نے کس طرح ان کے باپ کوہلاک کر دیا تھا۔

عبدالرشید اور شکور احمد۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

عبدالرشید اور شکور احمد۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)

کیا یہ زخم کشمیر کی روح سے کبھی مٹ سکیں گے؟

§

نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی جیسی جماعتیں، جن کے رہنماؤں کو اگست 2019 میں گرفتار کیا گیا تھا، ابھی تک آرٹیکل 370 کے خاتمے کی ذلت سے نکل نہیں پائے ہیں۔ دونوں  ہی پارٹیوں کے اہم لیڈراس سال لوک سبھا انتخابات میں ہار گئے تھے۔ کشمیریوں نے مجھے بتایاتھاکہ وہ اگست 2019 میں عبداللہ اور مفتی خاندان کی گرفتاری کا جشن منا رہے تھے۔

نیشنل کانفرنس کے سری نگر دفتر میں پارٹی لیڈران آج بھی  ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں لوگ پہلے ہی اکثر ‘انڈین ایجنٹ’ کے طور پر دیکھتے تھے، لوگوں کو دوبارہ انتخابی سیاست کے لیے تیار کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

بی جے پی اس سیاسی خلا کا فائدہ اٹھا کر کشمیر میں اپنی بنیاد بنانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کے لیے نئے اتحاد اور محاذ بنانا آسان نہیں ہے اور وادی میں اس کی ساکھ بھی بہت کم ہے۔ آج تک کشمیر کے دس اضلاع سے کوئی رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا۔ اس بار اس نے لوک سبھا میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ اس کے ارکان سخت سکیورٹی کے باوجود آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتے۔ وادی میں رہنے والے کشمیری پنڈت بھی مودی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔

بی جے پی دو اہم گروہوں میں اپنی جگہ تلاش کر رہی ہے – نسبتاً کم تعلیم یافتہ اور بے روزگار نوجوان، جو چھوٹی سرکاری نوکریوں اور ٹھیکوں کے لالچ میں بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں، اور گرجر جیسے قبائل جنہیں کشمیری مسلمان نظر انداز کر تے ر ہے ہیں۔

گرجروں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ لفظ گرجر کو کشمیر میں اکثر گالی  کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ تقریباً 99.3 فیصد گرجر اور بکروال مسلمان ہیں، پھر بھی کشمیر کے متمول مسلمانوں سے ان کی بیگانگی اتنی زیادہ ہے کہ وہ ایک بار لسانی اقلیت کا درجہ بھی مانگ چکے ہیں۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں نافذ ہوئے جنگلات کے حقوق ایکٹ اور شیڈول کاسٹ/ٹرائب ایکٹ کے وہ بنیادی مستفید ہیں۔

بی جے پی ان دو مسلم برادریوں کے درمیان تفرقہ  کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے – ایک مسلمان کو دوسرے کے خلاف کھڑا کر دو۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، درج فہرست قبائل جموں اور کشمیر کی آبادی کا 11.9 فیصد ہیں، جن میں گرجر ریاست کی آبادی 7.8 فیصد ہے اور کل قبائلی آبادی کا 65.67 فیصدہے۔ دوسرا بڑا قبیلہ، بکروال، قبائلی آبادی کا 7.58 فیصد ہے۔

یہ گرجر ہی تھے، جنہوں نے فوج کو کارگل میں دراندازی کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ گرجر برادری ریاست کی خودمختاری چھینے جانے سے ناراض نہیں ہے۔ گرجروں اور کشمیریوں میں بڑا فرق ہے۔ ہم عام طور پر انتہا پسندی اور آزادی کی حمایت نہیں کرتے۔ آزادی کا مطالبہ عام طور پر کشمیری کرتے ہیں،’ اننت ناگ ضلع کے شاہ آباد میں گورنمنٹ ڈگری کالج میں زیر تعلیم ایک گرجر مسلمان طالبعلم کہتے ہیں۔

بی جے پی رہنما الطاف ٹھاکر ان قبائل کو ‘قوم پرست’ کہتے ہیں، جنہیں ان کی پارٹی ‘قوم کی تعمیر’ کے لیے استعمال کرے گی۔

مرکزی حکومت نے اکتوبر 2019 میں جموں و کشمیر میں ہوئے بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کے انتخابات کے لیے ایس ٹی کے لیے 69 سیٹیں محفوظ کی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب کشمیر میں قبائلیوں کے لیے انتخابی نشستیں مختص کی گئیں۔ وسطی کشمیر کے گاندربل (20.53 فیصد) اور باندی پورہ (19.22 فیصد) اور جنوبی کشمیر کے اننت ناگ (10.75 فیصد) اضلاع میں قبائل کی تعداد ٹھیک ٹھاک ہے۔

لیکن ان تمام حربوں کے باوجود بی جے پی ابھی تک کشمیر میں سیاسی گرفت مضبوط نہیں کر پائی ہے۔

§

بستر اور کشمیر کی جغرافیائی اور حیاتیاتی ساخت میں ایک حیرت انگیز مماثلت ہے – انتہائی خوبصورت درخت، آبشاریں، پہاڑیاں، اور ہندوستان اور مسلح جنگجوؤں کے درمیان جاری جنگ۔ ان تنازعات کی نوعیت میں شدید فرق ہے، لیکن دونوں ہی معاشرے ہندوستانی اقتدار کو چیلنج پیش کرتے ہیں اور ہندوستان کے آئیڈیا پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔

لیکن کچھ اہم اختلافات بھی ہیں۔ کشمیر کی کایا بڑی نکھری ہوئی ہے – قرینے سے کھڑےپیڑ، تہوں میں لپٹے بادل، اہل اور رائے رکھنے والےشہری۔ بستر بے ترتیب  اوربے فکر ہے – الجھے ہوئے جنگل اور ندیوں کی بھول بھلیاں، کھوئے ہوئے اور مرجھائے ہوئے جنگل کے باشندے۔ کشمیر اپنی شناخت کے حوالے سے بہت بیدارہے، بستر عام طور پر اپنی شناخت سے لاعلم رہا ہے۔

کشمیر کے مقامی باشندے عموماً خوشحال ہیں۔ سیب، اخروٹ، زعفران اور کرکٹ بلے کے کاروبار سے اچھی خاصی کمائی ہوتی ہے۔ ایک ٹیمپو ڈرائیور کے گھر میں قہوہ کے ساتھ لوگ اچھے خشک میوہ جات لیتے ہیں،بہترین کپ اور پلیٹوں میں۔ جبکہ بستر کے مکین انتہائی غریب ہیں، شدید غذائی قلت اور بیماریوں میں مبتلا ہیں،کسی  اندرونی گاؤں میں پانچ افراد کے خاندان کی سالانہ آمدنی صرف دس ہزار ہے۔ ساری زندگی تیندوپتے اور مہوا بیچ کر حاصل ہونے والے تھوڑے سے پیسوں اور چاول پر گزر جاتی ہے۔

کشمیری مسلمان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، بڑے میڈیا اور اکادمک  اداروں میں نمایاں عہدوں پر فائز ہیں۔ وہ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ‘کشمیر پر ہندوستان کے نوآبادیاتی تسلط’ پر تحقیق کرتے ہیں، کتابیں تصنیف کرتے  ہیں۔ اس کے برعکس بستر کے قبائلی تعلیمی سطح پر کئی نسلیں پیچھے ہیں۔ صحافت میں ان کی کوئی آواز نہیں ہے۔

دونوں معاشرے اپنی زمین اور شناخت کو بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں، لیکن بستر کا نکسلزم بائیں بازو اور سیکولر ہے، جبکہ کشمیری تشدد اسلام کی ڈھال اوڑھے ہوئے ہے۔ یہ مذہبی شناخت اس جدوجہد کے جواز کو کم نہیں کرتی بلکہ اس کے ثقافتی جغرافیے کو محدود کر کے اسے غیر مسلم کمیونٹی کے حقوق سے لاتعلق کر دیتی ہے۔

سب سے اہم فرق یہ ہے کہ کشمیری عسکریت پسندی کی پوری تاریخ میں وادی کی تمام عسکری تنظیمیں کسی بھی خاتون کو بندوق تھما کر اپنے گروہ شامل نہیں کر سکیں، جبکہ دنڈکارنیہ میں بندوق رکھنے والی خواتین ماؤنوازوں کا تقریباً چالیس فیصد ہیں۔ کسی عوامی تحریک کے کردار کا تعین نہ صرف اس کی اسٹریٹجک طاقت سے ہوتا ہے بلکہ اس کے آئین اور تنظیمی ڈھانچے سے بھی ہوتا ہے۔ کشمیریوں کی تحریک کسی عورت کو جگہ کیوں نہیں دے سکی؟ کیا اس کے لیے اسلام کے بارے میں ان کی اپنی سمجھ ذمہ دار ہے؟

اگر کشمیری مسلمانوں کی لڑائی پورے کشمیر کے لیے ہے، ایک ایسی سرزمین جس پر وہ اپنی ایک طویل تاریخ کا دعویٰ کرتے ہیں، تو یہ لڑائی بنیاد پرست اسلام کے جھنڈے تلے نہیں ہو سکتی، خاص طور پر جب مرکز میں ہندوتوا حکومت اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے تیاربیٹھی ہے۔کشمیری عسکریت پسند، علیحدگی پسند اور عام کشمیری شہری ان سوالوں کا کس طرح سامنا کرتے ہیں، یہ ان کی جدوجہد کی وضاحت کرے گا۔

§

لیکن کہیں بڑا سوال دائیں بازو کے لیےہے – کشمیر کو مسلمان حملہ آوروں کی سرزمین قرار دے کر وہ اس کی ہندوستان  سے بیگانگی کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان کے ساتھ کشمیر کی خلیج بڑھ گئی  ہے۔

اگر دائیں بازو چاہیں تو وہ اپنے ایک خود ساختہ ہیرو وویکانند کی حیات  کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ‘دی لائف آف سوامی وویکانند’ میں ایک حیرت انگیز واقعہ درج ہے جب وویکانند شکاگو پارلیامنٹ آف ریلیجنز کے خطاب کے چند سال بعد کشمیر گئے تھے۔ وہ وہاں پر ‘مسلم حملہ آوروں’ کے ہاتھوں تباہ شدہ مندروں کو دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ کشمیر کے مشہور کھیر بھوانی مندر کے صحن میں انہوں نے اپنے آپ سے کہا، ‘لوگوں نے سخت مزاحمت کیے بغیر اس جگہ کو کیسے ناپاک ہونے دیا؟ اگر میں یہاں ہوتا تو کبھی ایسا نہ ہونے دیتا۔ میں اپنی ماں کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کر دیتا۔‘ اور پھر دیوی کالی ان کی سرزنش کرتے ہوئے سامنے آئیں؛ ‘کیا ہوا اگر دوسرے عقیدے کے لوگ میرے مندروں میں داخل ہوئے اور میری مورتیوں کو ناپاک کیا؟ تمہیں اس سے کیا؟ کیا تم میری حفاظت کرتے ہو؟ یا میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں؟’

کھیر بھوانی مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/Shivansh.ganjoo/CC BY-SA 4.0)

کھیر بھوانی مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/Shivansh.ganjoo/CC BY-SA 4.0)

کچھ دنوں بعد وویکانند کوایک بار پھر اسی کھیر بھوانی مندر کی خستہ حالت دیکھ کر دکھ ہوا،  اور وہ بیلور کی طرح وہاں بھی ایک نیا مندر بنانا چاہتے تھے۔ ایک بار پھر دیوی ماں نمودار ہوئی: ‘میرے بچے! اگر میں چاہوں تو اپنے  بے شمار مندر بنا سکتی ہوں… میں اسی وقت اسی جگہ پر سات منزلہ سونے کا مندر بنا سکتی ہوں۔’

ان کے الفاظ نے اس مضطرب شاگرد کے اندر کی تاریکی کو دور کر دیا۔ وویکانند نے محسوس کیا کہ ‘میری تمام حب الوطنی مٹ گئی ہے۔سب کچھ مٹ  گیا۔’ ان کی  ‘قلب ماہیت ‘ ہو گئی تھی، اور ‘اب صرف ایک سنیاسی تھے، سنیاسی کا روشن برہنہ پن پہنے ہوئے ‘۔

کارسیوک اورسویم سیوک نہیں بن سکتے، لیکن وہ اس واقعہ کو اپنی روزانہ کی پوجامیں شامل توکر سکتے ہیں۔

(جاری)