خبریں

اے جی نورانی: ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

وفاتیہ: نورانی کے علم و تحقیق کا دائرہ بہت وسیع تھا، جس کا ادراک ان کی تصنیفات سے بخوبی ہوتا ہے۔ دراصل، چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات، جموں و کشمیر کا سوال، ہندوستانی آئین، برطانوی آئینی تاریخ، قانون، حیدرآباد، اسلام، انسانی حقوق، سیاسی مقدمے، جدوجہد آزادی، بابری مسجد اور ہندوتوا وغیرہ ایسے موضوعات ہیں، جو ان کے تبحر علمی کے وقیع اور گراں قدرحوالے کہے جا سکتے ہیں۔

اے جی نورانی (1930-2024) کی فائل فوٹو۔ تصویر: شاہد تانترے۔

اے جی نورانی (1930-2024) کی فائل فوٹو۔ تصویر: شاہد تانترے۔

مفکر، دانشور اور قانون داں عبدالغفور نورانی – جنہیں ان کے بصیرت افروز کالم اور کتابوں کے قارئین کم و بیش سات دہائی سے اے جی نورانی کے نام سے جانتے تھے – ممبئی میں 94 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کے جانے کے بعد ہم عالمی سفارت کاری اور آئینی تاریخ کے ایک چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا سے محروم ہوگئے۔

نورانی نہ صرف تاریخ نویس تھے بلکہ ملک و قوم کے ضمیر کے پاسبان اور انسانی اقدار کے علمبردار بھی تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ وہ ریاستیں جو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے تقدس کو پامال کرتی ہیں، وہ دراصل اپنے ہی لوگوں کی بدترین دشمن ہیں۔

حلقہ احباب میں غفور کے نام سے پہچانے جانے والے نورانی کچھ عرصہ سے علیل تھے، لیکن خرابی صحت کے باوجود بابری مسجد تنازعہ میں سپریم کورٹ کے سفاکانہ فیصلے کے حوالے سے ایک کتاب پر تن دہی سے کام میں مصروف تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ موت ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، لیکن ان کا عقیدہ بہرحال یہی تھا کہ مجھے اپنا کام کرنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ  کتاب مکمل نہ ہوئی ہو، لیکن امید کرنی چاہیے کہ اس حوالے سے انہوں نے علمی ورثہ کے طور پر اپنے پیچھے  کسی اسکالر یا ناشر کے کام کرنے کے لیے خاطر خواہ مواد چھوڑا ہوگا۔

آزاد ہندوستان نے متعدد ممتاز عالم اور دانشور پیدا کیے، لیکن نورانی بے مثل اور یکتائے روزگار تھے۔ قانون داں، مؤرخ، سیاسی تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے پاسبان — سب ایک ہی قالب اور سانچے میں مجتمع اور ڈھلے ہوئے۔

ان کے علم کا کینوس بے حد وسیع تھا، جو ان کی کتابوں، مضامین، اوپ-ایڈ اور کتابوں کے تبصرے کے حیرت انگیز تخلیقی تسلسل میں منعکس ہوتا ہے؛ مثلاً، چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات، جموں و کشمیر کا سوال، ہندوستانی آئین، برطانوی آئینی تاریخ، قانون، حیدرآباد، اسلام، انسانی حقوق، سیاسی مقدمے، جدوجہد آزادی، بابری مسجد اور ہندوتوا جیسے مضامین ان کے تبحر علمی کے گراں قدر حوالے ہیں۔

لارڈ ڈیننگ یا اسرائیلی سپریم کورٹ کے جج ونوگراد کے موضوع پر بات کرنی ہو یا پھرہندوستانی عدلیہ کے بارے میں — انہیں ان سارے موضوعات پر عبور حاصل تھا۔ ان کی ہر کتاب یکساں طور پر عام قارئین اور اہل علم کے لیے بیش قیمتی ہے اور حوالہ جاتی بھی۔

ایک دانشور کی حیثیت سے، غفور بھائی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی معاشرت سے ناواقف تھے۔ انہیں ٹائپ رائٹر پربھی کام کرنے کا کوئی تجربہ نہ تھا، اس لیے وہ اپنے مضامین ہاتھ سے تحریر کیا کرتے تھے۔

ان کی تحقیق کے بنیادی ماخذ مختلف موضوعات پر مشتمل اخبار کے تراشے ہوا کرتے تھے، یہ ان کی دیرینہ خصلت تھی، دراصل 1940 کے عشرہ میں اپنے زمانہ طالبعلمی میں ہی انہوں نے یہ عادت بنا لی تھی، اور اپنی اس خو کے وہ کئی دہائیوں تک اسیر رہے۔ ان کا مطالعہ وسیع و عمیق تھا، انہوں نے خوب پڑھا اور کثرت سے نوٹس بھی لیے۔ اپنی صوابدید کے مطابق، انہوں نے ان میں سے بہتوں کو رد ی کے حوالے کرنے سے بھی گریز نہیں کیا، دراصل یہ وقت کے ساتھ کارآمد نہیں رہ گئے تھے – یہ اصل میں ایک ایسے صاحب نظر مصنف اور مفکر کی فہم و فراست تھی، جنہیں کوئی ادارہ جاتی پشت پناہی حاصل نہیں تھی اور جن کے وسیع تر تحقیقی تقاضے یعنی کتابوں کے انبار کے آگے بمبئی میں نیپین سی روڈ پر واقع ان کا فلیٹ تنگنائے میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔

نورانی سرکاری دستاویزوں (غیر درجہ بند اور کمیاب) مثلاً، بیانات اور گزٹ نوٹیفیکیشن کی تلاش میں سرگرداں رہنے والے جفاکش اور سخت گیر محقق تھے، کیونکہ وہ اخباروں کی رپورٹنگ کی صحت کے حوالے سے بجا طور پر بدگمان تھے، خصوصی طور پر خارجہ پالیسی اور کشمیر کے حوالے سے۔

بعض اوقات، ساؤتھ بلاک کے افسران جو ان کی باریک بینی کے قائل تھے اور امر واقعہ کے عین مطابق ہونے کے ان کے وصف کے باعث ان کا احترام بھی کرتے تھے، اختلاف رائے کے باوجود انہیں مطلوبہ مواد فرہم کرتے تھے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ کسی نیوز رپورٹ میں ایرانی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو دیے گئے دستاویز کا گمراہ کن حوالہ دیکھنے کے بعد، انہوں نے دہلی میں اپنے کسی دوست سے نہ صرف اس مخصوص دستاویز کے لیے بلکہ اس کے بعد ہونے والی پیش رفت کے مکمل احوال کے حصول تک کے لیے درخواست کر دی تھی۔

آگرہ میں ناکام ہند و پاک سربراہی اجلاس (مذاکرہ) کے بعد، وہ اٹل بہاری واجپائی اور پرویز مشرف کے درمیان ہوئی گفت وشنید کا مکمل ریکارڈ اکٹھا کرنے کے لیے اتنے پرعزم تھے کہ انھوں نے اس منحرف اور  منسوخ شدہ مسودہ اعلامیہ کی کاپی حاصل کرنے کی غرض سے اسلام آباد کا دورہ تک کیا، اور 2005  میں اپنی ان کوششوں کے نتائج کو فرنٹ لائن میگزین میں شائع بھی کروایا۔

ایک مصنف کے طور پر ان کی خوبی راست گوئی تھی۔ بنیادی دستاویزوں اور تحقیق کے دیگر روایتی آداب کے علاوہ، انہوں نے ذاتی ملاقات اور بات چیت کو بھی تحقیقی وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔

دہلی کے ان کے دورے ہمیشہ ملاقاتوں کے سلسلے سے بھرے ہوتے تھے – جہاں وہ افسران، سفارت کار، صحافی اور دانشوروں کے ساتھ – ہمیشہ شیڈول کی پابندی کرتے ہوئے ’ون آن ون‘ ملاقات کو پسند کرتے تھے، اورکبھی گروپ میٹنگ کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے بھی خوب  دورے کیے، یہاں ان کے روابط کا دائرہ بہت وسیع  تھا۔ بے باکی کے ساتھ اس سابقہ ریاست کے مظلوم شہری اور ان کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے باعث یہاں انہیں قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

نورانی نے وکیل کے طور پر تربیت حاصل کی تھی۔ بامبے ہائی کورٹ کے علاوہ انہوں نے سپریم کورٹ میں بھی وکالت کی۔ حالانکہ، سچ پوچھیں تو انہوں نے اپنی وکالت کے دوران بہت زیادہ معاملے نہیں نمٹائے، حتیٰ کہ جب انہوں نے کالم نگار اور اس کے بعد ایک دانشور کے طور پر اپنی شناخت مستحکم کرلی، تو انہوں نے شاید ہی کسی معاملے کی پیروی کی۔ اپنی وکالت کے زمانے میں وہ 1960 کی دہائی میں شیخ عبداللہ کی قید کے دوران ان کے وکیل تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نورانی کو بھی انہی پریونٹیو ڈٹینشن کے تحت کچھ عرصہ کے لیے جیل رسید کیا گیا، جس کے غیر آئینی پہلو کے بارے میں وہ لکھ چکے تھے۔

نورانی چار دہائیوں سے زیادہ صحافت سے وابستہ رہے۔ انہوں نے فرینک موریس کی سرپرستی میں انڈین ایکسپریس کے لیے باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا اور پھر سی آر ایرانی 1990 کی دہائی کے اواخر تک ’دی اسٹیٹس مین‘ میں ان کے کالم کو چھاپتے رہے۔ 1960 کی دہائی کے بعد سے بمبئی، دہلی، چنئی اور کلکتہ کے تمام  بڑے مدیران — موریس، شام لال، لنڈسے ایمرسن، گری لال جین، ایس ملگاوکر، کلدیپ نیر، اندر ملہوترا، ہیرنمے کارلیکر، سعید نقوی، پریم شنکر جھا، ایس نہال سنگھ، دینا وکیل، این رام، خشونت سنگھ اور دلیپ پڈگاؤنکر— کے ساتھ غفور کی خوب بنی اور پھر اکثر سے ان کے تعلقات بگڑے بھی؛ یو ں کہہ سکتے ہیں کہ محبت اور نفرت کا رشتہ قائم و دائم رہا۔ انہوں نے کچھ لوگوں کےعرفی نام (زیادہ تر خوش آمدانہ) بھی رکھے تھے۔ کئی دہائیوں بعد جب بھی وہ ان کے بارے میں بات کرتے، تو ان کا عرفی نام لیتے ہوئے بڑی  خوشی محسوس کرتے تھے۔

نورانی سے میری پہلی ملاقات، غالباً 1997 میں پریس انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام ’یو این کنونشن اگینسٹ ٹارچر‘ کے حوالے سے منعقدہ ایک ورکشاپ میں ہوئی تھی۔ وہ مجھ سے بڑی گرم جوشی سے ملے، شاید اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ 1993 میں میرے بھائی (جو اس وقت آکسفورڈ میں لاء لکچرر تھے) نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ایک فرانسیسی این جی او’ایف آئی ڈی ایچ‘ کے لیے رپورٹ تیاری کی تھی، اور جسے انہوں نے خوب سراہا بھی تھا۔ ہماری دوستی اگلے چند سالوں میں ان کے دہلی کے متواتر دوروں کے دوران اور گہری ہو گئی، اس دوران مجھے ان کی شخصیت کے ایک اور پہلو سے آشنا ہونے کا موقع ملا، یعنی لذید کھانوں کے لیے ان کا شوق، یا یوں کہیں کہ جنون۔

سال  2019 میں دہلی میں ایک کتاب  کے رسم اجرا کی تقریب میں اے جی نورانی (1930-2024) کی فائل فوٹو۔ تصویر: شاہد تانترے

سال  2019 میں دہلی میں ایک کتاب  کے رسم اجرا کی تقریب میں اے جی نورانی (1930-2024) کی فائل فوٹو۔ تصویر: شاہد تانترے

مجھے ان کے ساتھ پرانی دہلی میں کبابچی یا قورمہ کی تلاش میں کئی بار جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔

ان دوروں سے پہلے، وہ مجھے ایک چھوٹی سی پرچی تھما دیتے تھے، جس میں ’ریستوراں‘ کا نام لکھا ہوتا تھا، ہمیں اس ریستوراں کا پتہ لگانا ہوتا تھا، پہلے تو ہم ادھر ادھر خوب بھٹکتے۔ اور پھر اپنے ایمبیسڈر میں جامع مسجد یا نظام الدین کی طرف نکل پڑتے تھے۔

غفور ہمیشہ خوش پوش اور خوش لباس نظر آتے تھے۔ لیکن ایک بار جب وہ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں اپنے کمرے سے نیچے آئے اور محسوس کیا کہ فضا میں خنکی ہے، تو فوراً واپس گئے، اس کے بعد جیکٹ اور ٹائی زیب تن کرکے نیچے آئے۔ میں نے پوچھا، ٹائی کیوں؟ انہوں نے جواب دیا، ’ایک غیر مہذب شخص ہی ٹائی کے بغیرجیکٹ پہنے گا!‘

البتہ جب ہم اُردو بازار کے قریب اترے اور اس گولا کباب بنانے والے کو ڈھونڈنے لگے جس کے بارے میں غفور کو کسی نے بتایا تھا، تو ان کی ٹائی غیر ضروری طور پر لوگوں کی نگاہ کا مرکز بننے لگی۔

وہ چھوٹے سے چھوٹے ڈھابے پر ٹھہرتے اور گوشت کی ڈش کے معیار کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے برتنوں میں جھانکنے پر اصرار کرتے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ جیسے جیسے ان کا چلنا پھرنا کم ہوتا گیا، ویسے ویسے یہ مٹرگشتی مشکل ہوتی چلی گئی اور بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

نورانی اپنی عادت کے مارے تھے، ان کی اپنی پسند اور ناپسند تھی۔ آئی آئی سی میں وہ صرف اور صرف  کمرہ نمبر 38 میں ہی ٹھہرتے تھے، کسی اور کمرے میں بالکل نہیں۔ اگر وہ آپ سے کھانے پر مل رہے ہوتے ، تو وہ کسی کو، حتیٰ کہ کسی شناسا کو بھی، میز کے آس پاس ایک لمحے کے لیے بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ کسی بھی طرح کی بد اخلاقی یا بدتمیزی کو برداشت کرنا انہیں گوارہ نہیں تھا۔ اور ایک بار جب کوئی شخص ان کے صبرکا امتحان لے لیتا تو وہ ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ ہو جاتا۔ میں چند ایسے سنیئر صحافی یا اسکالر کو جانتا ہوں، جنہیں غفور نے باہر کا راستہ دکھایا تھا، اور جب انہی میں سے کسی ایک کی خاطر میں نے مصالحت کی کوشش کی، تووہ اپنی ضد سے باز نہیں آئے۔ میں نے احتجاج کیا، ’لیکن غفور، مسٹر ایکس کی کس بات سے آپ ناراض ہو گئے؟‘ دراصل، انہیں اس واقعہ سے متعلق تفصیلات یاد نہیں تھیں، سوائے اس کے کہ مذکورہ جرم ایک دہائی پہلے سرزد ہوا تھا۔

کسی اور ملک میں، نورانی جیسے دانشور کو ملک و قوم کا دبستان اور خزینہ علم تصور کیا جاتا، ان کے بصیرت افروز کالموں کو مرتب کیا جاتا۔ لیکن ہندوستان میں، ان کی تلخ و ترش زبان اور تند و بے باک قلم – جو پرانے وقتوں کی اسلوب نگارش کی طرح صاف و شفاف تھی – نے انہیں ہر طبقے میں (اور خصوصی طور پر ‘اسٹیبلشمنٹ’، خواہ اقتدار میں کوئی ہو) متعدد دشمن عطا کیے اور آخر کار وہ ہندوستان میں فرنٹ لائن اور پاکستان میں ڈان (مؤقر اخبار اور رسالے) تک محدود ہو کر رہ گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب دو سال قبل خرابی صحت نے انہیں اپنی ساری توانائی ان کتابوں کے لیے صرف کرنے کو مجبور کر دیا جو وہ لکھنا چاہتے تھے۔

اکثر بات چیت میں انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کاعلمی اور تحقیقی سرمایہ دہلی کی کسی اچھی ریسرچ لائبریری میں جگہ پائے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے ’نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری‘ کا تذکرہ ایک ممکنہ کتب خانے کے طور پر کیا تھا، لیکن یہ بات این اے ایم ایل کے ’پی ایم ایم ایل‘  بننے اور اس کے مختلف مشتبہ ایسوسی ایشن اور طریقوں کو اپنانے سے پہلے کی ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔