خبریں

کووڈ میں نوکری گنوانے والے 80 فیصد صحافی کو استعفیٰ دینے کے لیے مجبور کیا گیا تھا: رپورٹ

پریس کونسل آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے دوران میڈیا اداروں کی جانب سے صحافیوں کو ہٹانے کے سلسلے میں اس کی تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے 80 فیصد صحافیوں نے کہا کہ ان پر استعفیٰ یا وی آر ایس کا دباؤ تھا۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: کورونا وبا کے دوران صحافیوں کو ہٹانے کے حوالے سے پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وبا کے دوران نوکری سےنکالے گئے اکثر صحافیوں کو ان کے اداروں  نے استعفیٰ دینے یا رضاکارانہ ریٹائرمنٹ (وی آر ایس)لینے کے لیے  مجبور کیا۔

یہ رپورٹ ستمبر 2023 میں تشکیل دی گئی کمیٹی کے سامنے انگریزی، ہندی، مراٹھی اور  بنگالی زبانوں کے 17 میڈیا اداروں  اور 12 جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے کل 51 صحافیوں کے دیے گئے بیان کے بعد تیار کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے 80 فیصد صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا آپشن دیا گیا اور انہیں ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا۔ صرف 37 فیصد نے کہا کہ انہیں معاوضہ دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی سی آئی کے سابق ممبر بلوندر سنگھ  اور آزاد صحافی سیرل سیم کے آزادانہ اندازوں کے مطابق کورونا کے دوران تقریباً 2300-2500 صحافیوں کو  کام سے فارغ کیا گیا۔ تاہم، حقیقی  اعداد و شمار کے اس سے زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ ان کا ڈیٹا بنیادی طور پر انگریزی زبان کے میڈیا تک محدود ہے۔

نوکری  سے ہاتھ دھونے والے صحافیوں میں سے تقریباً 80 فیصد کا تعلق تین بڑے اداروں سے تھا۔ ان میں 19 بینیٹ کولمین اینڈ کمپنی لمیٹڈ، 14 ہندوستان ٹائمز میڈیا اور 8 دی ہندو پبلشنگ گروپ سے تھے۔ کمیٹی کے سامنے گواہی دینے والوں میں دہلی اور ممبئی کے انگریزی میڈیا کے صحافیوں کی تعداد زیادہ تھی۔

شخصی بیانات اور آن لائن بات چیت کی بنیاد پر تیار کی گئی اس رپورٹ کو پی سی آئی نے 5 اگست کو اپنایا تھا۔ ستمبر 2023 میں تشکیل دی گئی ذیلی کمیٹی میں گربیر سنگھ، پرجانند چودھری، پی سائی ناتھ، سنیہاشیش سور، ایل سی گپتا اور سیرل سیم شامل تھے۔

صحافیوں کو استعفی دینے ے لیے مجبور کیا گیا

رپورٹ کے مطابق، کمیٹی کے سامنے گواہی دینے والے صحافیوں میں سے صرف 25 فیصد نے کہا کہ انہیں اپنی کمپنیوں سے نکالے جانے کے بارے میں باضابطہ ای میل موصول ہوئے تھے، جبکہ تقریباً 75 فیصد معاملوں میں یہ صرف زبانی فیصلہ تھا۔

براہ راست سماعت میں 80 فیصد صحافیوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ‘استعفیٰ دینے کے لیے مجبور کیا گیا’ اور انہیں تنخواہوں میں کٹوتی اور نوکری سےنکالے جانے کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع یا باضابطہ جانکاری نہیں دی گئی تھی۔

کویتا ایر، جو اس وقت فری لانس صحافی کے طور پر کام کر رہی ہیں، انہیں  انڈین ایکسپریس میں 18 سال کام کرنے کے بعد 27 جولائی 2020 کو ممبئی بیورو کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں ان کے ساتھ کام کرنے والوں  کو بھیجے گئے ایک ای میل کا حوالہ دیا گیا ہے جس کو 2020 میں ایر کی اجازت سے سیرل سیم نے کووڈ وبائی امراض کے دوران میڈیااداروں کی طرف سے نوکری سے نکالے گئے لوگوں سے متعلق  اپنی تحقیق کے حصے کے طور پر شائع کیا تھا۔

ایر نے کہا کہ انہیں ایک میٹنگ میں بتایا گیا- جس میں انہیں اپنا فون باہر چھوڑنے کو کہا گیا – کہ انہیں ‘استعفی’ دینا ہوگا‘ اور ایک ریلیونگ لیٹر قبول کرنا ہوگا ورنہ انہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔

ایر نے اپنے ای میل میں لکھا کہ اگر انہیں اس بات کا پہلے سے علم ہوتا تب بھی وہ ناخوش  ہی ہوتیں۔ لیکن اس ادارےکے لیے  میرا غرور باقی رہتااور انسانیت کے تئیں اس  ادارے کی  وابستگی برقرار رہتی۔ انہوں نے مزید کہا  کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم سب اب انسان کم اور وائرس زیادہ ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی دہلی، ممبئی اور کولکاتہ میں کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے تقریباً تمام صحافیوں نے ایسا ہی تجربہ بیان کیا۔

میڈیا اداروں کے نام لنکڈ ان پر ایک کھلے خط میں3 اگست 2020 کو آشیش، جنہیں اسی سال جون میں دی ہندو سے نکال دیا گیاتھا،  نے کہا تھا کہ صحافیوں کو فون پر برخاست کر دیا گیا اور کچھ کو دفتر بلایا گیا اور اسی وقت اپنا استعفیٰ دینے کو کہا گیا۔

رپورٹ میں خط کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تو انہیں اس ادائیگی سے محروم کردیا جائے گا جس کے وہ قانونی طور پر حقدار ہیں۔

کمیٹی کے سامنے گواہی دینے والوں میں سے 44 صحافیوں یعنی 80 فیصد نے کہا کہ وہ مالی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ مزید برآں، دیگر 34 نے کہا کہ انہیں خاندانی بچت کا سہارا لینا پڑا، جبکہ 17 کو قرض لینا پڑا اور 12 صحافیوں کو اپنا گھربدلنا پڑا۔

بینیٹ کولمین کمپنی کی ممبئی مرر کے لیے کام کرنے والے فوٹوگرافر دیپک تربھیکر کو ایچ آر نے جنوری 2021 میں ایک وہاٹس ایپ کال پر استعفیٰ دینے کے لیے کہا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انھیں نوکری سے برخاست کرنے کی دھمکی دی گئی۔ 16 سال تک ادارے میں کام کرنے کے باوجود انہیں نوکری سے نکالنے کے بعد صرف ایک ماہ کی تنخواہ دی گئی۔

اپنی نوکری کھونے کے بعد دیپک کو اپنے پراویڈنٹ فنڈ کی بچت کو ممبئی میں اپنے گھر کے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنا پڑا اور  بڑی بیٹی کی تعلیم کے لیے اپنی بیوی کے زیورات کو بھی بیچنے پڑے۔

انہوں نے ذیلی کمیٹی کے سامنے کہا، ‘میرے پاس فوٹو گرافی کے لیے سامان خریدنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ میں اب نیوز فوٹوگرافی نہیں کر رہا ہوں کیونکہ اس میں کچھ بھی طے نہیں ہے۔ آزاد فوٹوگرافروں کو فی تصویر 100-125 روپے ادا کیا جاتا ہے۔ مجھے اس میں مستقبل کے لیے کوئی امید نظر نہیں آتی۔‘

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ لوگ جنہوں نے زبردستی استعفیٰ دینے کے خلاف مزاحمت کی انہیں بالآخر نکال دیا گیا۔

ممبئی مرر میں کام کرنے والی شروتی گنپتیے نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ وہ ان تین لوگوں میں سے ایک تھیں، جنہوں نے زبردستی استعفیٰ لینے کی مخالفت کی تھی۔

اس وقت کمپنی کی طرف سے استعفیٰ  کے معاوضے کے طور پر صرف گزشتہ دو ماہ کی بیسک تنخواہ کی پیشکش کی گئی تھی۔

شروتی نے بتایا، ‘ایک اندازے کے مطابق ممبئی مرر میں اپنی نوکری کھونے والے 100 ملازمین میں سے میرے علاوہ   صرف 2  لوگوں نے استعفیٰ دینے سے منع  کیا  تھا اور بالآخر ہمیں  برخاست کر دیا گیا۔ میں نے زیادہ  معاوضے کے لیے ایک ای میل لکھا۔ تاہم ،کمپنی کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا۔‘

مالی جدوجہد کے علاوہ، صحافیوں نے پینل کو یہ بھی بتایا کہ اس  نے ان کی ذہنی صحت پر بھی اثر ڈالا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اس برطرفی نے کمیٹی کے سامنے گواہی دینے والے 40 (80فیصد)صحافیوں کو جذباتی طور پر متاثر کیا۔وہیں، اس سے 40 (80فیصد) صحافیوں کی خود اعتمادی اور پر بھی اثر پڑا۔ 30 (60فیصد) صحافیوں نے ڈپریشن کی بات کہی اور 27 (54فیصد) نے سماجی علیحدگی  کا احساس کیا۔ خصوصی طور پر سینئر صحافی سب سے زیادہ جذباتی طور پر متاثر ہوئے۔ شخصی سماعت میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کئی سینئر صحافیوں کی آنکھوں میں  آنسو تک آ گئے۔

رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر صحافیوں کونوکری کے سلسلے میں  تحفظ حاصل نہیں ہوگا،تو صحافت کی آزادی سے سمجھوتہ ہی کیا جائے گا۔

معلوم ہو کہ صحافیوں نے وبائی امراض کے دوران فرنٹ لائن ورکر کے  طور پرکام کیا تھا اور مرکزی حکومت کی طرف سے ان کے کام کو ضروری خدمات کےزمرے میں رکھاگیا تھا، لیکن اس نے میڈیا کمپنیوں اور اداروں  کو صحافیوں کو کام سےفارغ کرنے سے نہیں روکا ۔

میڈیا کو ‘ضروری خدمات’ کے زمرے میں شامل کرنے کی منطق  یہ تھی کہ خبروں اور معلومات کی ترسیل بہت ضروری ہے خاص طور پر بحران کے اس دور میں جب لوگ روزانہ کی بنیاد پر بدلتی ہوئی وبائی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں اور غیر رسمی ذرائع سے پھیلائی جانے والی افواہیں لوگوں کی سمجھ  کوکند کر رہی  ہو۔

تاہم، اس ‘ضروری خدمات’ کی ہدایت کو زیادہ تر میڈیا کمپنیوں نے نظر انداز کیا اور انہوں نے مرکزی حکومت کی ہدایت کا بہت کم احترام کیا۔ اورصحافیوں کو اپنی  مرضی کے مطابق نوکریوں سے نکال دیا۔

نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا کی طرف سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان میں اس عرصے کے دوران 626 صحافیوں کی نوکری کے دوران  موت ہوئی، کیونکہ کورونا انفیکشن نے نیوز روم اور صحافیوں کو متاثر کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ میڈیا تنظیموں نے وبائی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والے مالی بحران کو برطرفی کے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔

اس سلسلے میں، کمیٹی نے اپنی سفارشات میں مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت قانون و انصاف سے صحافیوں کے لیے کچھ لازمی شقوں کے ساتھ ایک ماڈل کانٹریکٹ متعارف کرانے کی اپیل کی ہے، جس میں سروس کی کم از کم مدت مقرر کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ایف، گریجویٹی، ای ایس آئی، چھٹیوں کی فراہمی، تنخواہ میں سالانہ اضافہ وغیرہ کا تعین کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔

اس میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ صحافیوں کو قدرتی آفات یا عالمی وبائی امراض کے خلاف انشورنس فراہم کی جائے، زیر التوا لیبر تنازعات کو تیزی سے حل کیا جائے، اور یہ کہ معاوضے اور مراعات تک آسان رسائی فراہم کی جائے جن سے وہ صحافی محروم ہیں جو حکومت کی طرف سے ‘تسلیم شدہ’ نہیں ہیں۔ صحافیوں کی ذہنی صحت کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔