خبریں

ای وائی اسٹافر کی موت: وزیر خزانہ نے دیا اسٹریس مینجمنٹ کاسبق، کانگریس نے کہا – متاثرہ  کو قصوروار ٹھہرانا بیہودگی

پونے کی ایک کمپنی میں کام کرنے والی سی اے اینا سیبسٹین کی 20 جون کو دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی۔ ان کی ماں کا دعویٰ ہے کہ زیادہ دیر تک کام کرنے اور کام کے زیادہ دباؤ کی وجہ سے ایسا ہوا۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالجوں کو طالبعلموں کو اسٹریس مینجمنٹ سکھانا چاہیے۔

مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@nirmala.sitharaman)

مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@nirmala.sitharaman)

نئی دہلی: وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے اتوار کے روز ارنسٹ اینڈ ینگ (ای وائی ) میں کام کرنے والے ایک نوجوان سی اے پروفیشنل کی حالیہ موت کا حوالہ دیتے ہوئے  کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ‘اسٹریس مینجمنٹ’ سکھانے پر زور دیا۔ بعد میں کانگریس نے ان کے اس تبصرے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، چنئی کے ایک کالج میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیتا رمن نے کہا کہ اگرچہ تعلیمی ادارے اچھی تعلیم فراہم کرتے ہوں اور کیمپس  بھرتی کے ذریعے طلبہ کی نوکری یقینی بناتے ہوں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں کچھ ایسی چیزیں بھی سکھانی چاہیے جو گھروں  میں سکھائی جاتی ہیں۔

انہوں  نے کہا، ‘میں ایک ایسے مسئلے پر بات کر رہی تھی جو پچھلے دو دنوں سے اخباروں میں ہے۔ ہمارے بچے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے جاتے ہیں اور اچھے نمبروں سے پاس ہوتے ہیں۔ ایک پارٹنرشپ والی کمپنی ہے… وہاں ایک خاتون اسٹافر تھی، جس نے سی اے کی اچھی پڑھائی کی تھی، وہ کام کا دباؤ برداشت نہیں کر پا رہی تھی، تین دن پہلے ہمیں خبر ملی کہ وہ نہیں رہیں۔ وہ کام کا دباؤ جھیل  نہیں پائی۔‘

وزیر خزانہ کے مطابق دباؤ برداشت کرنے کی طاقت ایشور سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ایشور پر یقین رکھیں، ہمیں اس کی مہربانی کی ضرورت ہے۔ ایشور کی تلاش کریں اور اچھا نظم و ضبط سیکھیں۔ اس سے آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ خود اعتمادی بڑھنے سے ہی اندرونی طاقت پیدا ہو گی… تعلیمی اداروں کو روحانیت لانی چاہیے۔ تب ہی ہمارے بچوں کو اندرونی طاقت ملے گی۔ اس سے ان کی اور ملک کی ترقی میں مدد ملے گی۔ یہ میرا پختہ یقین ہے۔‘

واضح ہو کہ کیرالہ سے تعلق  رکھنے والی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ (سی اے) انا سیبسٹین پیرائیل ای وائی ، پونے میں کام کرتی تھیں اور اس سال 20 جون کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہوگئی۔ ان کی ماں کا الزام ہے کہ اس کی وجہ کام کا زیادہ بوجھ اور کمپنی میں کام کاخراب کلچر تھا۔

حال ہی میں خاتون کی ماں نے اکاؤنٹنگ فرم کو لکھے گئے خط میں دعویٰ کیا تھا کہ زیادہ دیر تک کام کرنے سے ان کی بیٹی کی جسمانی، جذباتی اور ذہنی صحت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ انا کی ماں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کام کے زیادہ بوجھ کی وجہ سے بے چینی، بے خوابی اور تناؤ کا شکار تھی۔ انہوں نے ایسی مثالیں بھی دیں جہاں ان کے منیجر نے ان کی خیرخواہی  کے بجائے کام کو ترجیح دی۔

ان کی ماں کے مطابق، انا، جوای وائی گلوبل کی ایک رکن فرم ایس آر بٹلی بوئی میں آڈٹ ٹیم کے حصے کے طور پر چار ماہ تک پونے کے ای وائی میں کام کرتی تھی، رات گئے اور یہاں تک کہ ہفتے کے آخر میں بھی کام کرتی تھی۔ ماں نے دعویٰ کیا کہ وہ زیادہ تر بری طرح تھک کر اپنے پی جی لوٹتی تھی۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، فرم نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اس واقعہ پر ہنگامہ آرائی کے بعد مرکز نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ بگ فور اکاؤنٹنگ فرم ای وائی کے ورک کلچر کی تحقیقات کرے گا۔

مرکزی وزیر محنت اور روزگار منسکھ منڈاویہ نے کہا، ‘چاہے وہ وہائٹ کالر نوکری پیسہ  ہو یا کوئی  بھی ملازم، جب بھی ملک کے کسی شہری کی موت ہوتی ہے، تو اس کا غمگین ہونا فطری ہے۔ معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے اور تحقیقات میں جو بھی حقائق سامنے آئیں گے اس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔‘

مرکزی وزیر مملکت شوبھا کرندلاجے نے جمعرات کو کہا کہ وزارت نے اس سلسلے میں شکایت درج کرائی ہے۔

کانگریس نے وزیر خزانہ کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا

دریں اثنا، اپوزیشن پارٹی کانگریس نے نرملا سیتا رمن کے ریمارکس پر تنقید کرتے ہوئے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری (تنظیم) کے سی وینوگوپال نے ایک پوسٹ میں لکھا ، حکومت اور وزیر خزانہ صرف اڈانی اور امبانی جیسے کارپوریٹ کا درد دیکھ سکتے ہیں، محنتی اور محنت کش نوجوان نسل کا درد نہیں، جہاں انا جیسے نئے لوگوں کا لالچی کارپوریٹ نظام کے ذریعے استحصال کیا جاتا ہے اگر وہ بے روزگاری کےاس تاریخی دور میں نوکری حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘

کانگریس لیڈر کے مطابق، وزیر خزانہ کی جانب سے انا اور ان کے خاندان کو قصوروار ٹھہرانا اور یہ مشورہ دینا کہ انا کو گھر پر  ہی ‘اسٹریس مینجمنٹ’ سیکھنا چاہیے تھا، سراسر ظلم ہے۔

انہوں نے پوچھا، ‘متاثرہ کو اس طرح  سے قصوروار ٹھہرانا بیہودگی ہے اور اس طرح کے بیانات سے جو غصہ اور نفرت محسوس ہوتی ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حکومت کتنی ظالم اور سفاک ہو سکتی ہے؟ کیا ان کے اندرہمدردی کا احساس ختم ہو چکا ہے؟‘

وینوگوپال نے کہا، ‘والدین اب بھی اس المناک سانحے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ٹاکسک ورک کلچر کی وجہ سے کارپوریٹ پریکٹس کا ایمانداری سے جائزہ لینا چاہیے تھا اور ملازمین کی حفاظت کے لیے ضروری اصلاحات کی جانی چاہیے تھیں۔‘

این ایچ آر سی نے ملازم کی موت پر وزارت محنت و روزگار کو نوٹس جاری کیا

دریں اثنا، قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) نے سنیچر (21 ستمبر) کو انا کی موت پر محنت اور روزگار کی مرکزی وزارت کو نوٹس جاری کیا۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، اپنے نوٹس میں کمیشن نے کہا کہ یہ معاملہ کام کی جگہ پر نوجوان شہریوں کو درپیش مسائل، جس میں تناؤ، بے چینی اور نیند کی کمی شامل ہے، کے حوالے سے  شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے،جو ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات  ڈال رہا ہے۔

کمیشن نے وزارت سے معاملے کی تحقیقات کے نتائج اور اس طرح کے واقعات کے دوبارہ نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیلات طلب کی ہیں۔

اس میں اس بات پر بھی زور دیاگیا ہے کہ کاروبار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہی لیں اور انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے ساتھ ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے کام اور روزگار کی پالیسیوں اور ضوابط کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ اور نظر ثانی کریں۔

کمیشن کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے،’اس معاملے میں نوجوان اسٹافر کی دردناک موت نے اشارہ دیا ہے کہ ملک میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔’