الیکشن نامہ

ہریانہ: انتخابی دنگل میں ونیش کو میڈل

انتخابی میدان میں یہ فتح ونیش کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ دراصل شروعات ہے۔ جن عزائم کے ساتھ انہیں ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کو عروج پر خیرباد کہتے ہوئے  سیاست کا رخ کرنا پڑا، ان کی تکمیل کی راہیں اب یہاں سے شروع ہوتی ہیں۔

ونیش پھوگاٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@phogat.vinesh)

ونیش پھوگاٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@phogat.vinesh)

نئی دہلی: جولانہ سے کانگریس امیدوار اور اولمپیئن پہلوان ونیش پھوگاٹ راٹھی6015 ووٹوں سے جیت گئی ہیں ۔ اسٹار پہلوان نے انتخابی دنگل  میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے یوگیش کمار کو پٹخنی دی ہے۔

جولانہ اسمبلی حلقہ میں یہ مقابلہ بی جے پی بنام  کانگریس کے درمیان تھا، کوئی دوسرا امیدوار قریب بھی نہیں آپایا۔ ونیش کو 65080 ووٹ ملے، جبکہ بی جے پی امیدوار کو 59065 ووٹ ملے۔ جولانہ کے موجودہ ایم ایل اے جن نایک جنتا پارٹی (جے جے پی) کے امرجیت ڈھانڈا کو صرف 2477 ووٹ ملے۔ بی جے پی کے باغی اور انڈین نیشنل لوک دل کے امیدوار سریندر لاٹھر 10158 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔

ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کانگریس کے لیے انتہائی مایوس کن اور حیران کن ثابت ہوئے۔ تمام  ایگزٹ پول اور سیاسی تجزیہ کار ہریانہ میں کانگریس کی بڑی جیت کا دعویٰ کر رہے تھے۔ انتخابی نتائج ان دعووں کے بالکل برعکس رہے۔

تاہم، ونیش کے لیے کیے گئے دعوے بالکل درست ثابت ہوئے اور عوام نے انھیں اسمبلی میں بیٹھنے کا موقع  دے دیا ہے۔ تقریباً دو ماہ قبل ونیش کو 100 گرام وزن کی وجہ سے اولمپک فائنل سے نااہل قرار دیا گیا تھا ۔اس کے  ٹھیک ایک ماہ بعد، 6 ستمبر کو، وہ کانگریس میں شامل ہوئیں، اور اسی دن انہیں جولانہ اسمبلی حلقہ سے ٹکٹ دے دیا گیا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ونیش کے سسرال کا گاؤں کھیڑا بختا اسی علاقے میں آتا ہے۔

گزشتہ سال ونیش انڈین ریسلنگ ایسوسی ایشن کے اس وقت کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات کے خلاف دہلی کے جنتر منتر پر دیے گئے دھرنے کے دوران پولیس کی بربریت کا نشانہ بنیں اور پھر سخت جدوجہد کے بعد پیرس اولمپک سے مایوس ہو کر لوٹیں ونیش کی یہ جیت ان کی اولو العزمی کا اعلان ہے۔

ونیش کی یہ جیت ہر اس عورت کی جیت ہے جو تمام ناکامیوں اور مشکلات کے باوجود لڑنا نہیں چھوڑتی۔ جنسی استحصال جیسے سنگین جرم کے خلاف آواز اٹھانے پر انہیں سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ ونیش حکمراں پارٹی اور ان کے حامیوں کی طرف سے لگائی  گئی تہمت کو برداشت کرتی رہیں۔ اس مشکل آزمائش کے بعد وہ پیرس اولمپک میں لڑنے پہنچیں ، جہاں وہ ملک کے لیےمیڈل  لانے کے ساتھ ساتھ اپنے وقار کی جنگ بھی لڑ رہی تھیں۔ لیکن فائنل میں زبردست انٹری کے باوجود وہ تمغے سے محروم رہیں۔ اس ‘ناکامی’ کے بعد انھوں نے کھیل کو الوداع کہہ دیا، لیکن پھر بھی انھوں نے لڑائی نہیں چھوڑی۔ اس باروہ انتخابی میدان میں اتریں ، اور یہاں انہوں نے شاندار  جیت حاصل کی۔

کہا جا رہا تھا کہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ ونیش کی امیج کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ونیش کے برج بھوشن کے خلاف احتجاج کرنے کی نیت پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ الزام لگایا گیا کہ چونکہ ونیش کو سیاست میں آنا تھا اور کانگریس کا ساتھ لینا تھا، اس لیے وہ دھرنے پر بیٹھی تھیں۔ ونیش ان الزامات سے مسلسل انکار کرتی رہی۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ جنتر منتر پر ان کے احتجاج کے دوران کانگریس پارٹی نے ان کی حمایت کی تھی، اس لیے وہ اس پارٹی میں شامل ہوئیں۔

سیاست میں آنے کے سلسلے میں جولانہ میں ایک انتخابی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے ونیش نے کہا تھا، ‘میں نے سڑکوں پر لڑکر دیکھ لیا، اولمپک میں لڑکر دیکھ لیا، کہیں سے بھی انصاف نہیں ملتا۔ انصاف تبھی ملے گا جب آپ اور میں الیکشن جیت کر پارلیامنٹ/اسمبلی میں پہنچیں گے، وہاں پہنچ کر اپنے لوگوں کے لیے کام کریں گے۔’

لیکن یہ بھی کہنا چاہیے کہ انتخابی میدان میں یہ فتح ان کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ دراصل شروعات ہے۔ جن عزائم کے ساتھ انہیں کھلاڑی کی حیثیت اپنے کیریئر کو عروج پر خیرباد کہہ کر سیاست کا رخ کرنا پڑا، ان کی تکمیل کی راہیں اب یہاں سے شروع ہوتی ہیں۔