خبریں

آندھرا پردیش: ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت میں سی ایم نائیڈو، کہا – لوگوں کے جذبات اس سے وابستہ ہیں

نائیڈو کی پارٹی بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کا حصہ ہے، جو ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اب نائیڈو نے کہا ہے کہ لوگوں کے جذبات ذات پرمبنی مردم شماری سے وابستہ ہیں اور ملک میں اقتصادی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔

تصویر بہ شکریہ: Facebook/tdp.ncbn.official)

تصویر بہ شکریہ: Facebook/tdp.ncbn.official)

نئی دہلی: ذات پر مبنی  مردم شماری کا ایشو کچھ عرصے سےسرخیوں میں ہے۔ اس  کی بازگشت انتخابی جلسوں سے لے کر ملک کی پارلیامنٹ تک میں  سنائی دیتی رہی ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اب نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے اتحادی بھی اس حوالے سے کھل کر اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے صدر اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندربابو نائیڈو کا اس سلسلے میں ایک بیان سامنے آیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں چندر بابو نائیڈو نے کہا کہ ملک میں ذات پر مبنی  مردم شماری ضرور ہونی چاہیے، اس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں اور ملک میں اقتصادی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے لوگوں کے جذبات کا احترام کیا جانا چاہیے۔

چندر بابو نائیڈو نے اپنے انٹرویو میں کئی دیگر مسائل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا این ڈی اے حکومت کی جانب سے وقف بل لانے جیسے فیصلے لینے سے پہلے آپ کو یا آپ کی پارٹی کو اعتماد میں لیا گیا تھا، تو انہوں نے کہا، ‘نہیں… ہم نے اپنی رائے دے دی ہے۔ ہم پارلیامنٹ میں بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔’

مرکز کی جانب سے اپوزیشن کو نشانہ بنانے کے لیےسرکاری مشینری کے غلط استعمال کے الزامات سے متعلق سوال پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہاں، کچھ ریاستوں میں ایسا ہوا ہے۔ لیکن، اگر کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو فطری طور پر تفتیش ہونی چاہیے۔ ثبوت کے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا – یہ درست نہیں ہے۔’

ایک وقت میں نائیڈو کے قریبی رہے دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو جیل میں ڈالنے اورکسی  پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر کو جیل میں ڈالنے سےاس پارٹی کے مستقبل پرپڑنے والے  برے اثرات کے بارے میں نائیڈو نے کہا، ‘ میں خصوصی طور پر اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔’ انہوں نے کہا کہ سیاست میں ایسی زور آزمائش ہوتی ہی ہے، لیکن حتمی فیصلہ عوام کرتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا، ‘کیا تفتیشی ایجنسیوں کے اقدامات لوگوں کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں؟ اگر نہیں، تو یہ کیا اشارہ کرتا ہے؟’ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لیے ہمیں اس طرح کام کرنا ہوگا کہ کوئی ایجنسی یا شخص اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کر سکے۔

مردم شماری میں تاخیر اور مرکز اور ریاستوں کی طرف سے بنائی جا رہی پالیسیوں پر اس کے اثرات کے بارے میں پوچھے جانے پر، نائیڈو نے کہا، ‘… پہلے، مردم شماری حقائق کو جمع کرنے کے لیے ضروری ہوتی تھی – جیسے کہ آبادی کی صورتحال، اقتصادی صورتحال، اور دیگر بنیادی چیزیں۔ لیکن اب ریئل ٹائم ڈیٹا دستیاب ہوتا ہے۔ ہم میڈیکل ریکارڈ کے ریئل ٹائم اپ ڈیٹ کے ساتھ آیوشمان بھارت اسکیم کولاگو کر رہے ہیں، جو ہمیں ملک کی صحت کی صورتحال بتائے گی۔ اسی طرح ڈی بی ٹی (ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر) بھی ہے۔ اگر ہم ان تمام اعداد و شمار – آبادیاتی، معاشی، تعلیمی اور مہارت سے متعلق ڈیٹا کو مربوط کرتے ہیں – تو ہم ذات، مذہب، اقتصادی  حیثیت اور تعلیم کی بنیاد پر خاندانوں کی ریئل ٹائم  پروفائل دیکھ سکتے ہیں۔’

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ محسوس کرتے ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری ہونی چاہیے، تو انھوں نے کہا، ‘ہاں، یہ ہونی چاہیے۔ اس کے بارے میں ایک جذبات ہیں، اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں  ہے۔ آپ ذات پر مبنی  مردم شماری کریں، اقتصادی  تجزیہ کریں اور ہنر کی مردم شماری کریں۔ اس پر کام کریں کہ کیسے ان تمام چیزوں کو تیار کیا جائے  اور اقتصادی  عدم مساوات کو کم کیا جائے۔’

غورطلب  ہے کہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی قیادت کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی مرکزی حکومت ذاتپر مبنی  مردم شماری کے خلاف رہی ہے۔ اس لحاظ سے نائیڈو کا، ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت میں کھڑا ہونا این ڈی اے اور بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف نظر آتا ہے، جوکہ  مرکز میں حکومت چلانے کے لیے نائیڈو کی پارٹی ٹی ڈی پی کی حمایت پر منحصر ہیں۔

تاہم، بی جے پی اور ٹی ڈی پی کے درمیان ریزرویشن کو لے کر نظریاتی اختلافات بھی رہے ہیں، جہاں بی جے پی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے خلاف ہے، وہیں نائیڈو کے آندھرا پردیش میں مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جاتا ہے۔ ان اختلافات کے باوجود اتحاد میں دونوں جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے سوال پر نائیڈو نے کہا، ‘ایک خاندان میں بھی دو بھائی ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوتے… ہمارے نظریاتی اختلافات ہوں گے، لیکن ہم مل کر کام کریں گے۔ یہ بہت آسان ہے۔ میری پارٹی ایک علاقائی پارٹی ہے، اور ان کی پارٹی قومی پارٹی ہے۔ ہم دونوں کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم ملک وقوم  کے لیے کیسے کام کرتے ہیں۔ نیشن بلڈنگ اور ملک کے لوگوں کو فائدہ پہنچاناہی حقیقی معنی رکھتا ہے۔’