کم لوگوں کو علم ہے کہ منموہن سنگھ نے بڑی سریلی آواز پائی تھی، وہ ‘لگتا نہیں ہے جی میرا’ اور امریتا پریتم کی نظم ‘آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول’ بڑی پرسوز آواز میں گاتے تھے۔ اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اردو ادب اور شاعری کا بھی ستھرا ذوق رکھتے تھے۔
یہ شاید 1998-99 کا سال رہا ہوگا۔ نئی دہلی کے 24، اکبر روڈ پر واقع کانگریس ہیڈ کوارٹر میں دیر رات گئے کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ایک میٹنگ کور کرنے کے بعد میں بس اسٹاپ کی طرف رواں تھا۔ جن رپورٹروں نے کانگریس بیٹ اس دور میں کور کی ہے، وہ جانتے ہیں کہ کانگریس کی اکثر میٹنگیں رات کو 8 بجے کے بعد ہی شروع ہوجاتی تھیں اورعام حالات میں ان کی بریفنگ آدھی رات کے بعد ہوتی تھیں۔
نہ جانے اس پارٹی کو صحافیوں سے کون سے جنم کا بدلہ لینا ہوتا تھا کہ حساس مواقع پر میٹنگ کی روداد معلوم کرنے کے لیے لیڈروں کے گھروں کے چکر لگاتے ہوئے کئی بار پوری رات گزر جاتی تھی۔
اس علاقہ میں بس یا آٹو ملنا محال ہوتا ہے، اس لیے کندھے پر اپنا بیگ لٹکائے میں پہلی کراسنگ کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ایک ماروتی سوزکی 800 میرے پاس آکر رکی۔
پہلے تو میں سمجھا کہ بھٹکا ہوا کوئی ڈرائیور راستہ معلوم کرنا چاہتا ہے۔ مگر ڈرائیور نے شیشہ نیچے کرتے ہوئے کہا؛
نوجوان، کیا میں تمہیں کہیں ڈراپ کر سکتا ہوں؟
میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ سابق وزیر خزانہ اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن منموہن سنگھ تھے، جو بعد میں دس سال تک ہندوستان کے وزیر اعظم رہے۔
ابھی 25 دسمبر کی رات 92 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ بھی اس میٹنگ کے بعد اپنے گھر جا رہے تھے۔ دروازہ کھول کر میں نے ان کو بتایا کہ میں جنوبی دہلی میں رہتا ہوں اور صفدر جنگ مقبرہ کے مقابل اربندو مارگ اسٹاپ پر اس وقت بس مل سکتی ہے۔ انہوں نے تغلق روڑ پولیس اسٹیشن سے ٹرن لےکر مجھے صفدر جنگ چوراہے پر چھوڑ دیا۔
اسی طرح 2004 کے عام انتخابات کے وقت کانگریس پارٹی کے مینی فیسٹو کے اجراء کے بعد مجھے ڈوئچے ویلے یعنی جرمن ریڈیو کی اردو سروس کے لیے اردو میں ساؤنڈ بائٹ چاہیے تھے۔
ڈوئچے ویلے نے ہمیں منی ڈسک ریکارڈر دیے ہوئے تھے۔ میں صفدر جنگ روڑ پر واقع ان کی سرکاری رہائش گاہ پہنچا۔ وہ اس وقت راجیہ سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن تھے۔ رہائش گاہ کے لان میں کئی اور چینل کے کیمرہ وغیرہ موجود تھے۔ ان سے فراغت کے بعد انہوں نے مجھے وقت دیا۔
مگر یہ کیا، ڈسک ریکارڈر میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی تھی، وہ ٹریک کو سیو ہی نہیں کررہا تھا۔ یہ گیڈجٹس کسی وقت بچوں کی طرح اچانک غیر متوقع طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
میں نے ان سے گزارش کی کہ ان کا انٹرویو سیو نہیں ہوا۔ دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر انہوں نے انٹرویو دے دیا۔ مگر معلوم ہوا کہ یہ ٹریک بھی سیو نہیں ہوا ہے۔ میں کبھی بیٹری تو کبھی ڈسک چیک کر رہا تھا۔
میرے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ مجھے پریشان دیکھ کر انہوں نے تسلی دے کر کسی کو چائے لانے کے لیے کہا۔”ریلیکس، میں ابھی میٹنگ کے لیے جا رہا ہوں، شام کو دوسرا ریکارڈر لے کر آجانا،“ انہوں نے کہا۔
مگر میری تو ایک گھنٹہ کے بعد ہی اسٹوری کی ڈیڈ لائن تھی۔ میں نے بون میں ڈوئچے ویلے کے دفتر میں فون کرکے اردو سیکشن کے ہیڈ مرحوم سید اعجاز حسین شاہ صاحب سے درخواست کی کہ وہ وہیں اسٹوڈیو سے منموہن سنگھ کے لینڈ لائن نمبر پر کال کرکے ان کا انٹرویو ریکارڈ کرکے پھر میری اسٹوری میں ضم کریں۔
دس منٹ کے بعد جب وہ کال کرکے منموہن سنگھ کا انٹرویو ریکارڈ کر رہے تھے، تو میں پاس میں چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ اس واقعہ کے ایک ماہ سے کچھ کم عرصہ کے بعد ہی وہ ہندوستان کے وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہوگئے۔ یہ کسی شخص کی عاجزی اور مہربانی کی ایک انتہا تھی۔
ان کی بیٹی دمن سنگھ کے مطابق پاکستانی پنجاب کے چکوال ضلع کے ایک گاؤں گاہ میں وہ 1932 کے موسم خزاں میں پیدا ہوئے تھے۔ کب، وہ کوئی نہیں جانتا ہے، کیونکہ ان کے والد گرومکھ سنگھ اس وقت پشاور میں کمیشن ایجنٹوں کی ایک فرم میں بطور کلرک کام کرتے تھے۔ لہذا کسی نے دن اور ماہ کا ریکارڈ ہی نہیں رکھا۔
یہ فرم افغانستان سے خشک میوہ جات درآمدکرکے متحدہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں سپلائی کرتی تھی۔ نومولود بچے کو راولپنڈی سے تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر حسن ابدال نامی قصبے میں واقع پنجہ صاحب لے جایا گیا۔ جہاں گرنتھی نے مقدس گرنتھ صاحب کا صفحہ کھول کر ان کا نام منموہن رکھ دیا۔
وہ اپنے دادا سنت سنگھ اور دادی جمنا دیوی کی گود میں پلے بڑھے۔ اسکول میں استاد دولت رام نے اپنے رجسٹر میں ان کی تاریخ پیدائش 17 اپریل درج کی۔
منموہن سنگھ کے اس دور کے اسکول کے ساتھی گاہ کے راجہ محمد علی، جو 2008 میں دہلی آئے تھے سے میری ملاقات گولف لنکس میں واقع نیشنل ہائیڈرو الکٹرک پاور کارپوریشن یعنی این ایچ پی سی کے گیسٹ ہاوس میں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ؛
موہنا نہایت ہی قابل مگر شرمیلا بچہ تھا۔ اس کی جیبیں خشک میوں سے بھری ہوئی ہوتی تھیں۔ یہ دیگر بچوں کے لیے اس سے دوستی کرنے کی خاص وجہ ہوتی تھی۔ موہنا واحد بچہ تھا، جو استاد منشی عبدالکریم کی چھڑی اور ان کے غیض و غضب سے بچتا تھا۔ کیونکہ اس کا کلاس ورک مکمل ہوتا تھا اور اردو اور ریاضی میں پورے اسکول میں طاق تھا۔
محمد علی بتاتے تھے کہ دیگر بچوں کی طرح وہ شور شرابہ اور کھیلوں سے دور بھاگتا تھا۔ جب وہ کھیل میں شامل ہونے سے ہچکچاتا تھا،ہم اسے گاؤں کے تالاب میں پھینک دیتے تھے۔
چوتھی جماعت کے بعد اس بچے کو پشاور کے خالصہ ہائی اسکول فار بوائز بھیجا گیا۔ جہاں اس نے فارسی، انگریزی، تاریخ، جغرافیہ کا مطالعہ کیا۔ مگر تقسیم کے بعد خاندان ہوشیارپور منتقل ہوگیا، جہاں انہوں نے عسرت کے د ن گزارے۔
مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں کسی پارٹی کے دوران ایک بار ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ونود شرما نے ان کو بتایا کہ وہ ہوشیار پور گئے تھے اور انہوں نے وہ اسٹریٹ لیمپ پوسٹ دیکھا، جہاں منموہن سنگھ پڑھائی کرتے تھے، کیونکہ ان کے گھر والے بجلی کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔
غربت اور افلاس کے اس پس منظر کو انہوں نے کبھی بھی اپنی کمزوری یا اس کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے استعمال نہیں کیا۔
پنجاب یونیورسٹی میں معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد منموہن سنگھ نے کیمبرج یونیورسٹی سے معاشیات میں آنرز کی ڈگری اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ہی معاشیات پڑھائی۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں، امرتسر میں ان کے پڑوسی، مصنف ملک راج آنند دہلی لے گئے اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے ملوایا، جنہوں نے باصلاحیت نوجوان ماہر اقتصادیات کو اکانامک سروس کی بیوروکریسی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔
مگر کالج نے بیرون ملک تعلیم کے لیے ان کو فنڈ فراہم کیا تھا، اس لیے وہ وہاں ایک خاص مدت تک نوکری کرنے کے پابند تھے۔ 1966 میں وہ، جنیوا میں تجارت اور ترقی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس (یواین سی ٹی آے ڈی) میں شامل ہوئے۔ تاہم، تین سال بعد دہلی اسکول آف اکنامکس کی فیکلٹی میں شامل ہونے کے لیے واپس آئے۔ ان دنوں اس ادارہ کے اساتذہ میں نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین، جگدیش بھگوتی اور سکھامائے چکرورتی جیسے بین الاقوامی شہرت کے ماہر اقتصادیات شامل تھے۔
وقت کے وہ اتنے پابند تھے کہ ان کے معمولات کو دیکھ کر گھڑی ملائی جاسکتی تھی۔ ایک بار پارلیامنٹ ہاؤس کی لائبریری بلڈنگ میں معروف دانشور اے جی نورانی کی ایک کتاب کا اجراء اسپیکر سومناتھ چٹرجی کر نے والے تھے۔ کارڈ پر چھ بجے کا وقت درج تھا، مگر تقریب ساڑھے چھ بجے شروع ہونے والی تھی۔ ناشروں نے کارڈ شاید وزیر اعظم ہاؤس بھی بھیجا تھا، مگر ان کو توقع نہیں تھی کہ منموہن سنگھ بھی اس میں شرکت کے لیے وارد ہوں گے۔
پارلیامنٹ ان دنوں سیشن میں تھی۔ میں مین بلڈنگ سے لائبریری بلڈنگ کی طرف جب روانہ ہوا، تو دیکھا کہ وزیر اعظم کی سیکورٹی پر مامور ایس پی جی کا دستہ کوریڈور اور بلڈ نگ کے باہر تعینات تھا۔
پہلے سمجھا کہ شاید اس بلڈنگ میں کوئی اور میٹنگ بھی ہو رہی ہوگی، جس میں وزیر اعظم کو شرکت کرنی ہوگی۔ مگر لائبریری بلڈنگ کے جس ہال میں کتاب کی رونمائی ہونے والی تھی، اس میں پورے چھ بجے منموہن سنگھ داخل ہوئے اور پچھلی نشست پر براجمان ہوگئے۔
نورانی صاحب اور اسپیکر کو اطلاع دی گئی اور وہ تقریباً دوڑتے ہوئے پہنچ گئے۔ تقریب وقت سے پہلے ہی شروع کرنی پڑی۔ وزیر اعظم کو اسٹیج پر یا پہلی صف میں بار بار آنے کی دعوت دی گئی، مگر انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ وہ صرف نورانی صاحب کو سننے کے لیے وارد ہو گئے ہیں اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان تک دعوت نامہ پہنچ گیا تھا۔
وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالنے سے قبل وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئر مین تھے۔ وہاں ملازم میرے ایک رفیق کا کہنا ہے کہ ان دنوں چیئرمین کا کمرہ پانچویں فلور پر ہوتا تھا۔ وہ صبح نو بجے آفس پہنچ کر لفٹ کا استعمال کیے بغیر سیڑھیوں سے اوپر جاتے تھے اور کسی بھی فلور کے کسی بھی کمرے میں داخل ہوکر اچانک حاضری کا معائنہ کرتے تھے۔ ان کے دور میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ نو بجے کے بعد دفتر آئے اور ان کے لفٹ کے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے سبھی فلورز اور سیڑھیوں کی پابندی سے صفائی ستھرائی بھی ہونے لگی۔
ان کا وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کا قصہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ پہلے پانچ سالہ دور حکومت میں ان کے میڈیا ایڈوائز سنجے بارو نے اپنی کتاب ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر: دی میکنگ اینڈ ان میکنگ آف منموہن سنگھ میں لکھا ہے کہ؛
مئی 1991 میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد جب کانگریس پارٹی کی صدارت اور بعد میں وزارت اعظمیٰ نرسمہا راؤ کے سپرد کی گئی، تو ان کو ایسے وزیر خزانہ کی تلاش تھی، جس کی بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں کچھ ساکھ ہو اور آئی ایم ایف سے قرض کے لیے بات چیت کر سکے۔ راؤ کی پہلی پسند آئی جی پٹیل تھے، جو وزارت خزانہ کے سابق سکریٹری تھے اور لندن اسکول آف اکنامکس کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کے بعد ہندوستان لوٹ آئے تھے۔ تاہم، پٹیل نے معذوری ظاہر کی اور وہ اپنے آبائی شہر بڑودہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے چلے گئے۔
بتایا جاتا ہے آنجہانی راجیو گاندھی کے پرنسپل سکریٹری پی سی الیگزینڈر نے راؤ کو منموہن سنگھ کا نام دیا تھا۔ جب الیگزینڈر نے ان کو رات گئے فون کیا، تو وہ ہالینڈ کے سفر سے لوٹ کر سو گئے تھے۔
ان کے داماد وجے تنخواہ نے فون اٹھایا۔ الیگزینڈر نے تعارف کرنے کے بعد منموہن سنگھ کو جگانے کے لیے کہا۔ جب ان کو بتایا گیا کہ اگلے دن ان کو راشٹرپتی بھون یا صدارتی محل میں آکر حلف لینا ہے، تو شاید نیند کے خمار یا تھکاوٹ سے چور سنگھ نے اس کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا۔
وہ اگلی صبح معمول کے مطابق یو جی سی کے دفتر گئے۔ اس بار نرسمہا راؤ نے خود فون کرکے ان کو گھر جاکر بند گلا کوٹ پہن کر راشٹرپتی بھون پہنچنے کی تاکید کی۔
سنگھ کا کہنا تھا کہ حلف لینے والے وزیروں کی قطار میں بیٹھ کر وہ خود بھی اسی قدر حیران و پریشان تھے، جتنے دیگر لوگ تھے۔
ہندوستان کی پر اعتماد جمہوریت اور سیاسی استحکام کی داغ بیل اگر پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ڈالی،تو اس کی معیشت کو مستحکم اور عالمی سطح پر لانے کا پورا کریڈیٹ منموہن سنگھ کو جاتا ہے۔
جب انہوں نے وزارت خزانہ کا چارج سنبھالا، تو زر مبادلہ کے ذخائر بس دو ہفتوں کے درآمدات کے لیے بمشکل کافی تھے۔ ملک کے سونے کے ذخائر بینک آف انگلینڈ میں گروی رکھے جا چکے تھے۔ بین الاقوامی کمرشل بینک ہندوستان کو نئے قرضے دینے سے انکار کر رہے تھے۔ یہ لگ رہا تھا کہ ہندوستان ڈیفالٹ کرے گا۔ اس کا دوست سویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔ روس خود مغربی ممالک کی طرف آس لگائے بیٹھا تھا۔
صورتحال کم وبیش ایسی ہی ہے، جیسی اس وقت پاکستان کو درپیش ہے۔ اپنی پہلی بجٹ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کو مدد دینے والے تنگ آچکے ہیں۔ اس لیے کشکول کو توڑ کربرآمدات میں زبردست اضافہ کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد بڑے پالیسی اعلانات ہوئے۔
بدنام زمانہ لائسنس پرمٹ راج کا خاتمہ،درآمدی محصولات میں کمی، ان گنت ایسے اقدامات اٹھائے گئے۔ آزاد معیشت کے دروازے کھولے گئے۔ 24 جولائی 1991 کو ڈاکٹر سنگھ کی پہلی بجٹ تقریر وکٹر ہیوگو کے مشہور اقتباس کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی: ”زمین کی کوئی طاقت اس خیال کو نہیں روک سکتی جس کا وقت آ گیا ہو۔“ان تمام سالوں میں منصوبہ بند ترقی کے نام پرحکومتیں صنعتوں کو بلا امتیاز تحفظ فراہم کر رہی تھی، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی مسابقت کے قابل ہی نہیں رہ گئی تھیں۔
ان پے در پے اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے کانگریس پارٹی مقبولیت کھو رہی تھی۔ نہ صرف اپوزیشن بلکہ کانگریس کے اندر سے ان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی تھیں۔پارٹی اقتصادی لبرلائزیشن کو نہرو کے نظریہ کی نفی سمجھتی تھی۔ معاشی اصلاحات جادو کی چھڑی نہیں ہوتے ہیں۔ یہ کئی برسوں کے بعد گراؤنڈ پر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔
منموہن سنگھ نے خود ایک بار یہ واقعہ سنایا کہ انہوں نے استعفیٰ لیٹر ٹائپ کرکے اپنی جیب میں رکھا ہوا تھا، اور کئی دفعہ وزیر اعظم کو پیش کیا۔ایک دفعہ تو انہوں نے وزیر اعظم کو استعفیٰ پیش کر کے دفتر جانا ہی بند کردیا۔ کھاد پر سبسڈی کم کرنے کی وجہ سے اپوزیشن نے پارلیامنٹ کو جام کر دیا تھا۔
راؤکو کسی نے کہا کہ پارٹی کے کسی سینئر لیڈر کو بھیج کر منموہن سنگھ کو استعفیٰ واپس لینے کے لیے کہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ پارٹی ہی ان کی مخالف ہے اور وہ پارٹی کے کسی سیاستدان کی نہیں سنیں گے۔
نرسمہا راؤ نے قائد اپوزیشن اٹل بہاری واجپائی سے درخواست کی کہ وہ سنگھ کو منائیں اور ان کو سیاست کا پاٹھ بھی پڑھائیں۔
دوسری طرف راؤ نے منموہن سنگھ کو واجپائی سے ملنے کی صلاح دی۔ بقول سنگھ جب وہ پارلیامنٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے چیمبر میں داخل ہوئے، تو واجپائی نے چھوٹتے ہی کہا؛
اب تم ایک ٹیکنوکریٹ نہیں، بلکہ سیاستدان ہو، اس لیے کھال موٹی رکھو۔ مخالفت برداشت کرنے کی عادت ڈال لو۔ بار بار وزیر اعظم کو استعفیٰ پیش کر کے ان کی مشکلات اور نہ بڑھاؤ۔ ہمیں معلوم ہے کہ جو کچھ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ ملک کی اس وقت ضرورت ہیں۔ مگر ہم اپوزیشن ہیں اور ہم کو تنقید تو کرنی ہی ہے۔
کھاد کی سبسڈی پر شاید دو روپے بڑھائے گئے تھے، تو واجپائی نے پوچھا کہ کس قدر گنجائش ہے۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ ایک روپے کا بوجھ اٹھایا جاسکتا ہے۔ واجپائی نے صلاح دی کہ ایک روپے کم کرنے کا اعلان کرو، ایک روپے خزانہ کو مل ہی رہا ہے۔ اس کے اگلے روز پارلیامنٹ کا جام ختم ہوگیا۔
واجپائی نے بھی ایک بار اتفاق کیا کہ نرسمہا راؤ کے دور کی اقتصادی اصلاحات نے کانگریس پارٹی کی لٹیا ڈبودی اور اس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے بل بوتے پر بر سر اقتدار نہیں آئی، مگر اس نے آنے والی حکومتوں کے لیے تعمیر اور ترقی کے دروازے کھول دیے۔
خود واجپائی حکومت کے دور میں پھر منموہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے پہلے پانچ سال ہندوستان میں جو ریکارڈ گروتھ درج ہوئی، اس کی جڑیں نوے کی دہائی کے معاشی اقدامات تھے، جو دس سال بعد اپنی افادیت دکھا رہے تھے۔
ہندوستان میں ایک طاقتور مڈل کلاس ابھر رہا تھا۔ نوے کی دہائی میں جب بطور رپورٹر ہم انتخابات یا کسی اور واقعہ کی کوریج کے لیے دہلی سے باہر جاتے تھے، تو بس یا ٹرین کا سفر کرتے تھے۔ مگر 2000 کی دہائی آتے آتے شاید ہی کسی رپورٹر نے کبھی بس یا ٹرین کا سفر کیا ہو۔ وہ اب جہاز یا ٹیکسی کے بغیر سفر کرتے ہی نہیں ہیں۔
ان اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے میڈیا کے علاوہ دیگر صنعتوں میں بھی بے شمار پیسہ آگیا۔
جب 2004میں غیرمتوقع طور پر اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی بی جے پی حکومت شکست سے دوچار ہوئی، تو طے تھا کہ کانگریس کی صدر اوریونائیٹد پروگرسیو الائنس یعنی یو پی آئی کی قیادت کر رہی سونیا گاندھی وزیر اعظم بن جائیں گی۔
طریقہ کار کے مطابق انہوں نے صدر اے پی جے کلام سے ملاقات کر کے حکومت سازی کا دعویٰ بھی کیا۔ مگر جب کانگریس پارٹی کی پارلیامانی پارٹی کا اجلاس پارلیامنٹ کے سینٹرل ہال میں منعقد ہوا، تاکہ ان کو باضابطہ لیڈر منتخب کیا جائے، تو انہوں نے اس عہدے کے لیےمنموہن سنگھ کا نام تجویز کرکے سب کو چونکا دیا۔
منموہن سنگھ کے اقتدار کا پہلا پانچ سال یقیناً موجودہ ہندوستان کا سنہری دور تھا۔ تاریخی لینڈ مارک سماجی قوانین حق اطلاعات قانون، نیشنل دیہی صحت مشن اور دیہی روزگار گارنٹی قانون اس دور میں پاس ہوئے۔ مسلمانوں کے حوالے سے جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا، جس نے پہلی بار مسلمانوں کی معاشی اور سماجی صورتحا ل کا جائزہ لےکر ان گنت سفارشات پیش کیں۔
مگر ان کے دورہ اقتدار کے دوسرے پانچ سال مایوس کن تھے۔
کہتے ہیں کہ شکست کے بعد سبکدوش وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے نئی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کے چارمنصوبوں جن میں امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ، پاکستان کے ساتھ امن مساعی، ملک میں دریاؤں کو آپس میں جوڑنا اور شمال جنوب، مشرق سے مغرب تک ہائی وے کی تعمیر کے پروجیکٹس کو جاری رکھا جائے۔
بس دریاؤں کے منصوبے کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ایشوز پر منموہن سنگھ نے کام جاری رکھ کے خاصی پیش رفت حاصل کی۔ پاکستان کے ساتھ امن مساعی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ لگتا تھا کہ بس ان دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تنازعہ کشمیر بس اب حل ہونے کو ہے۔
بطور وزیر اعظم وہ بیرون یا اندرن ملک دورہ کے دوران پریس کانفرنس منعقد کرکے میڈیا کے روبرو ہوجاتے تھے۔
سابق وزیر اطلاعات مینش تیواری کے مطابق دس سال کے عرصہ میں انہوں نے 117 پریس کانفرنسوں سے خطاب کرکے تیکھے سوالات کے جوابات دیے۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دس سالہ اقتدار میں کبھی کسی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا ہے۔
اسی طرح وہ ناشتہ پر متواتر ایڈیٹرز، پبلشرز اور ٹی وی اینکرز کے ساتھ آف ریکارڈ ملاقات کرتے تھے۔ کئی ایسی ملاقاتوں میں مجھے بھی حصہ لینے کا موقع ملا ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے وزیر اعظم کے گھر پہنچنے کا مطلب ہوتا تھا کہ سات بجے سے قبل ہی گیٹ پر رپورٹ کرنا۔
سنجے بارو کے مطابق جب ایک بار انہوں نے پبلشرز کے گروپ کو مدعو کیا تو ہندوستان ٹائمز کی شوبھنا بھارتیہ ٹائمز آف انڈیا کی چیئرپرسن اندو جین دیر سے پہنچیں۔ بھارتیہ کو اپنے بال خشک کرنے میں کافی وقت لگا، اور جین کو صبح کی پوجا کرنی تھی۔ اس کے بغیر وہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھتی ہے۔
پہلے پانچ سالہ دور میں سونیا گاندھی نے ان کی عزت نفس کا خیال رکھ کر حکومت کے کام کاج میں دخل اندازی سے پرہیز کیا۔ وہ کسی بھی وزیر کو وقت نہیں دیتی تھی، بلکہ ان کو وزیر اعظم سے مشورہ کرنے کی ہدایت دیتی تھیں۔ خود بھی وزیر اعظم کے گھر پہنچ کر ہی ان سے صلاح و مشورہ کرتی تھیں۔
ان کے اس طرز عمل نے وزیروں اور پارٹی کارکنان تک پیغام پہنچا دیا تھا کہ حکومت کے باس کلی طور پر سنگھ ہیں۔
مگر کانگریس پارٹی کے دیگر لیڈران ان سے ہمیشہ ہی خائف رہے۔ بطور قومی سلامتی مشیر انہوں نے جے این دکشٹ کو منتخب کیا تھا۔ مگر کانگریس پارٹی کا اصرار تھا کہ انٹلی جنس بیورو کے سابق سربراہ ایم کے نارائنن کو یہ عہدہ دیا جائے۔ اب سمجھوتہ اس پر ہوگیا کہ دکشت کو بیرون سلامتی کا اور نارائنن کو اندرون سلامتی کا مشیر بنایا جائے۔ مگر دونوں وزیر اعظم کی موجودگی میں آپس میں لڑ پڑتے تھے۔
ایک موقع پر ایک حساس موضوع پر میٹنگ کے دوران نارائنن نے دکشت کو کہا کہ ”آپ ایک سفارت کار ہیں جو دنیا کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ہندوستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔“ دکشت نے جواب دیا کہ ”انہوں نے (نارائنن) نے تو کبھی پولیس افسر کی بھی نوکری نہیں کی، بلکہ لوگوں کو فائلیں بناکر ڈرایا دھمکایا ہے۔“
نارائنن نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ آئی بی میں گزارا تھا اور فیلڈ میں نہیں رہے تھے۔ جنوری 2005 میں دکشت کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد یہ پوسٹ پوری طرح نارائنن کے پاس آگئی، جس نے 2009 تک منموہن سنگھ کی پاکستان کے ساتھ امن مساعی میں ہرممکن روڑے اٹکائے۔
روس کے شہر قطرینہ برگ میں 2009 میں برکس کے پہلے سربراہی اجلاس اور شنگھائی کوآپریشن یعنی ایس سی او کی میٹنگ میں شرکت کر نے کے لیےمنموہن سنگھ کے ساتھ میڈیا وفد میں، میں بھی شامل تھا۔ واپسی پر جہاز میں ان کی پریس کانفرنس طے تھی۔ کشمیر ان دنوں شوپیاں قصبہ کی دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کے مبینہ قتل اور آبروریزی کے واقعہ سے مشتعل تھا۔
عمر عبداللہ جو حال ہی میں کانگریس کی مدد سے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہو ئے تھے، نے اپنی ناتجربہ کاری کے باعث آگ میں کچھ زیادہ ہی گھی ڈالنے کا کام کیا تھا۔ میں نے اسی واقعہ کے حوالے سے ان سے استفسار کیا۔ اس کا انہوں نے جواب تو دیا، مگر سبھی کو لگا کہ جواب تسلی بخش نہیں تھا۔ پریس کانفرنس کے ختم ہوتے ہی میں نے ٹیپ ریکارڈراور نوٹ بک بیگ میں رکھ کر اس کو اپنی سیٹ کے اوپر کے کیبن میں رکھ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
مڑ کر دیکھا تو وزیر اعظم منموہن سنگھ تھے۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور خود بھی میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور کہا کہ”ہم نے کشمیر کے سلسلے میں امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔“ اس دورے کے دوران انہوں نے میڈیا کی موجودگی میں پاکستانی صدر آصف زرداری کو خوب کھری کھوٹی سنائی تھی۔
سبھی افسران اور میڈیا کے افراد ہمارے سیٹ کے اردگرد جمع ہوگئے۔کچھ منٹ بیٹھ کر وہ پھر اپنے کیبن کی طرف روانہ ہوگئے۔ اگلے روز دی ہندو اور دیگر اخبارات میں یہ صفحہ اول کی خبر تھی۔
نومبر 2004 میں ڈاکٹر سنگھ نے جموں و کشمیر کا اپنا پہلا سرکاری دورہ کرنا تھا۔ وہ ستمبر 2004 میں صدر مشرف کے ساتھ ایک مفید ملاقات کے بعد نیویارک سے واپس آئے تھے اور انہیں لگا تھا کہ کشمیر پر ایک نئی پہل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ شیرکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے طلباء اور فیکلٹی سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے ایک نئے کشمیر (نیا کشمیر) کے اپنے وژن کی بات کی اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کشمیر اور کشمیری عوام کے لیے ایک نیا بلیو پرنٹ، ایک نیا وژن پیش کیا جائے، جو جنگ کے خوف اور استحصال سے پاک ہو۔
اس تقریر کا مسودہ جے این دکشٹ اور جموں یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر امیتابھ مٹو نے تیار کیا تھا۔ سری نگر مظفرآباد بس سروس کا آغاز اعتماد سازی کی ایک بڑی مشق تھی۔
ستمبر 2005 میں مشرف سے اپنی تیسری ملاقات سے پہلے، وہ کشمیر کے لیڈروں اور سماجی کارکنان سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ اپنی پہلی میٹنگ میں انہوں نے سابق ہوم سکریٹری کے سبرامنیم، جموں و کشمیر کے بارے میں حکومت کے خصوصی نمائندے این این ووہرا، صحافیوں بی جی ورگیز، منوج جوشی، بھارت بھوشن، کشمیری ماہر اقتصادیات حسیب درابو اور امیتابھ مٹو کو بلایا۔ نارائنن اس میٹنگ سے ناخوش تھے۔
ڈاکٹر سنگھ نے سبرامنیم کی تجویز کو پسند کیا کہ وزیر اعظم کو جموں و کشمیر کے مستقبل پر ایک گول میزکانفرنس بلانی چاہیے۔ 25 فروری 2006 کو، بجٹ سیشن سے قبل پہلی گول میز کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں نوے کے قریب افراد نے شرکت کی۔
پورے نو گھنٹے تک چلنے والی اس کانفرنس میں منموہن سنگھ پورے وقت موجود رہے اور نوٹس بھی لیتے رہے۔ ستمبر 2004 میں، ڈاکٹر سنگھ نے صدر پرویز مشرف کے ساتھ اپنی ملاقات سے قبل سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے پاکستانی ماہرین تعلیم، تاجروں اور بزرگ شہریوں کے لیے ویزا نظام کو یکطرفہ طور پر سہل کرنے کا اعلان کیا۔
اپنے وزیر اعظم بننے کے موقع پر، مئی 2004 میں، ڈاکٹر سنگھ نے صحافی جوناتھن پاور (اسٹیٹس مین، 20 مئی 2004) کو ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں بتایا تھا کہ علیحدگی پسندی کو چھوڑ کر ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی بھی صورتحال قابل قبول ہوسکتا ہے۔
انہوں نے سرحدوں کو اس حد تک نرم کرنے پر زور دیا تاکہ ان کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ 2005 کے اوئل میں مشرف نے دہلی میں ہونے والے ہندوستان پاکستان کرکٹ میچ کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ گو کہ خارجہ سکریٹری شیام سرن خارجہ پالیسی کے حوالے سے ڈاکٹر سنگھ کے نقطہ نظر سے متفق تھے، مگر پاکستان کے حوالے سے نارائنن کی طرح سخت گیر تھے۔
وزیر اعظم نے ان کو مشرف کو دعوت نامے کا مسودہ تیار کرنے کو کہا۔مگر نارائنن کے کہنے پر وہ آنا کانی کررہے تھے، جس کا سنگھ کو جلد ہی ادراک ہوگیا۔
اگلی صبح لوک سبھا میں ڈاکٹر سنگھ کو پارلیامانی بحث کا جواب دینا تھا۔ بحث کے دوران متعدد اراکین کی طرف سے کیے گئے نکات کا جواب دینے کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ صدر مشرف کو دونوں ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی جائے۔
میری دلی خواہش ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک کے لوگ اور ان کے لیڈر جب چاہیں بلا جھجک ہم سے ملیں۔ کرکٹ میچ دیکھنا ہو؛ کچھ شاپنگ کرنا ہو یا دوستوں اور خاندان سے ملنا ہو ہندوستان کو ایک کھلا معاشرہ اور کھلی معیشت ہونے پر فخر ہے۔ مجھے امید ہے کہ صدر مشرف اور ان کا خاندان ہمارے ملک کے دورے سے لطف اندوز ہوں گے۔
آفیشلز گیلری میں، نارائنن اور سرن سمیت سبھی دنگ تھے۔ دفتر پہنچ کر ان کو دعوت نامہ کا مسودہ بنانا پڑا۔
اسی طرح سری نگر مظفر آباد بس سروس کے آغاز سے قبل نارائنن نے دوبارہ اس میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی۔ 7 اپریل 2005 کواس کے آغاز سے ایک روز قبل عسکریت پسندوں نے سری نگر میں ریاستی سیاحت کے دفتر پر حملہ کیا، جہاں سے یہ بس سروس شروع کی جانی تھی۔
دن کے اختتام تک، قومی سلامتی اور انٹلی جنس ایجنسیاں وزیر اعظم کو اگلی صبح سری نگر کا دورہ منسوخ کرنے کا مشورہ دے رہی تھیں۔ حتمی جائزہ اجلاس رات 9 بجے ختم ہوا، جس میں وزیر اعظم کو اپنا دورہ منسوخ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ تقریباً سب ہی کمرے سے نکل چکے تھے۔ ڈاکٹر سنگھ سوچ میں بیٹھ گئے، ان کے چہرے پر غصہ اور تشویش نمایاں تھی۔
اچانک وہ کھڑے ہوگئے اور کہا کہ ”میں جاؤں گا!“ باہر جاتے ہوئے افسران کو واپس بلایا گیا۔ وزیر اعظم نے سونیا گاندھی کو فون کرکے بتایا کہ انہوں نے سری نگر کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے ان کے فیصلے کی تائید کی اور کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ سفر کریں گی۔
اگلی صبح دونوں سخت سیکورٹی کے درمیان سری نگر کے لیے روانہ ہوئے اور پہلی بس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔ اکتوبر 2005 کو دہلی بم حملوں کی ایک سیریز سے لرز اٹھا۔ سروجنی نگر اور پہاڑ گنج میں بھیڑ بھاڑ والے بازاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ہر بار جب عمل میں خلل پڑتا تھا، ڈاکٹر سنگھ کوشش کرتے اور دھاگا اٹھاتے اور ایک معقول وقفہ کے بعد آگے بڑھتے رہے۔ شاید ان کو ان ہاتھوں کے بارے میں علم تھا جو رخنہ ڈالنے پر بضد تھے۔
اپریل 2005 کو مشرف نے دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر سنگھ سے باضابطہ بات چیت کے لیے حیدرآباد ہاؤس آگئے۔ ”ڈاکٹر صاحب، اگر آپ اور میں فیصلہ کریں تو ہم لنچ سے پہلے اپنے تمام تنازعات حل کر سکتے ہیں اور پھر میچ دیکھنے واپس جا سکتے ہیں،“ مشرف نے کہا۔ سنگھ نے جواب دیا: ”جنرل صاحب، آپ ایک فوجی ہیں اورمجھ سے عمر میں جوان ہیں لیکن میری عمراس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔“اگلے دو سالوں میں، مشرف نے ڈاکٹر سنگھ کے فارمولے پر مبنی کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ایک روڈ میپ کا خاکہ پیش کیا، جس کا بنیادی مرکز تھا کہ سرحدوں کو تبدیل کیے بغیر غیر متعلقہ بنایا جا ئے۔انہوں نے سابق سفارت کار ستیندر لامبا کو بیک چینل کے لیےمنتخب کیا۔ سنگھ کے ساتھ ان کی ملاقاتیں درج نہیں ہوتی تھیں۔
ان کی مدد وزیر اعظم کے دوسرے پرسنل سکریٹری، جیدیپ سرکار کرتے تھے، جو میٹنگ کے دوران نوٹس لیتے تھے۔ جب بھی جے دیپ بیمار ہونے کی اطلاع دیتا یا یہ کہتا کہ وہ اپنے بیٹے کو امتحانات کی تیاری میں مدد کر رہا ہے، تو وزارت اعظمیٰ کے دفتر میں لوگ جانتے تھے کہ وہ لامبا کے ساتھ دورہ پر ہیں۔لامبا کی مشرف کے مقرر کردہ افسر طارق عزیز کے ساتھ میٹنگ میں طے پایا گیا کہ پہلے قدم کے طور پر لائن آف کنٹرول کو نقشے پر صرف ایک لائن بنانا ہے۔
اس کے لیے آزادانہ سفر اور تجارت ہو اور کشمیری عوام کے لیے تقسیم سے پہلے کا دور لوٹ آئے جب وہ ایک دوسرے علاقہ میں آسانی کے ساتھ سفر کر تے تھے۔دوسرا قدم یہ ہوگا کہ کنٹرول لائن کے دونوں جانب مقامی خود اختیاری کو مضبوط کیا جائے، تاکہ بین الاقوامی نگرانی میں ضرورت پڑنے پر دونوں اطراف کے کشمیر کے عوام اپنی حکومت خود منتخب کریں۔ تیسرا مرحلہ سب سے مشکل ہوگا۔
اس میں مشترکہ مفادات کے معاملات پر پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے کشمیری رہنماؤں کی ذمہ داری میں مشترکہ یا کوآپریٹو اداروں کی تشکیل کی ضرورت ہوگی۔ خارجہ پالیسی اور دفاع کے علاوہ ہر چیز مقامی اور مشترکہ طور پر چلائی جائے گی۔ امن فارمولے کا چوتھا اور آخری عنصر دونوں طرف سے فوجیوں کی متفقہ واپسی ہو گی۔
ڈاکٹر سنگھ نے جون 2005 میں سیاچن گلیشیئر کے دورے کے ساتھ اعلان کیا کہ سیاچن تنازعات کے بجائے امن کی علامت ہوگا اور اس سے اعتماد سازی کا آغاز ہوگا۔ان کا خیال تھا کہ ہندوستان میں وہ اس حل کے سلسلے میں رائے عامہ کو ہموار کر پائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپوزیشن صرف بی جے پی کی طرف سے آئے گی۔ مگر بقول سنجے بارو کے ڈاکٹر سنگھ نے اپنی پارٹی کانگریس کی طرف سے مزاحمت کی توقع نہیں کی تھی۔ نارائنن کے علاوہ پرنب مکھرجی، وزیر دفاع اے کے انٹونی، سیاچن پر معاہدے پر ناخوش تھے۔
ستمبر 2006 میں ہوانا میں، ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس سے ایک ماہ قبل جولائی 2006 میں ممبئی میں بم دھماکے ہوئے۔ پاکستان کے تئیں ڈاکٹر سنگھ کی پالیسی پر کانگریس کے برہم لیڈروں کو اب سونیا گاندھی کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ مگر سنگھ ابھی بھی پر امید تھے۔ ہوانا میں مشرف کے ساتھ ان کی ملاقات ایک ولا میں طے تھی، جو کیوبا کی جانب سے دستیاب کرایا گیا تھا۔
جب سنگھ مشرف کو ریسیو کرکے اندر لے گئے، تو دروازہ آناً فاناً بند کر دیا گیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری اور نارائنن کو دروازہ کے باہر رکھا گیا۔ بقول بارو، قصوری تھوڑی دیر کے بعد نارمل ہوکر پاس کے کمرے میں بیٹھ گئے، مگر نارائنن چہل قدمی کرتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے۔ ان کی بے چینی واضح تھی کہ ان کو ایک پلان کے تحت میٹنگ سے باہر رکھا گیا تھا۔
اس ایک گھنٹہ کی میٹنگ میں طے پایا گیا کہ سیاچن کے مسئلے کے جلد حل اور سر کریک اور اس سے ملحقہ علاقے کے مشترکہ سروے کے لیے ماہرین کی خدمات لی جائیں۔ اس میں کہا گیا، سروے نومبر 2006 میں شروع ہونا چاہیے اور سال کے اندر ان ددنوں تنازعات سے جان چھڑانی ہے۔
فروری 2007کو پاکستان کے سکریٹری دفاع طارق وسیم غازی جب معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے دہلی وارد ہوئے اس سے چند روز قبل الیکشن کمیشن نے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابا ت کا اعلان کردیا تھا۔ مذاکرات سے ایک روز قبل سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتر پردیش میں امیدوار طے کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔
مگر اس میں سونیا گاندھی کی موجودگی میں احمد پٹیل نے منموہن سنگھ کو سیاچن پر مذاکرات اور وہاں سے فوجوں کے انخلا کے سوال پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ میٹنگ میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں سونیا گاندھی اکثر منموہن سنگھ کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی تھیں، مگر اس وقت و ہ خاموش رہیں۔
احمد بھائی نے منموہن سنگھ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ کسی ایگرمینٹ کرنے سے اتر پردیش میں پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اجلاس جاری تھا کہ معلوم ہوا کہ شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل جے جے سنگھ نے سیاچن سے فوجوں کے انخلا کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ چند روز قبل کابینہ کی سلامتی سے امور کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اس معاہدے کو منظوری دی تھی۔
احمد پٹیل کی یہ مخالفت پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اس کے فوراً بعد پاکستان میں وکلا ء کی ایجی ٹیشن نے مشرف کو داخلی طور پر الجھائے رکھا۔
کانگریس کے اندرون ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے منموہن سنگھ کو چوائس دی تھی کہ پاکستان کے ساتھ امن مساعی یا امریکی کے ساتھ نیوکلیر ڈیل میں کسی ایک ایشو پر ہی وہ عوامی سطح پر رائے عامہ بنائے گی۔ اور وزیر اعظم نے نیوکلیر ڈیل کو ہی ترجیح دی۔
بازی اب پلٹ چکی تھی۔ سونیا گاندھی جو 2004 سے مسلسل ڈاکٹر سنگھ کی عزت نفس کا خیال رکھ کر ان کو حوصلہ افزائی کرکے حکومتی معاملات میں مداخلت سے گریز کر تی تھیں، اب اپنے صاحبزادے راہل گاندھی کے لیے فضا سازگار کرنے پر تلی تھیں۔
وہ کسی ایسے قدم کی حمایت سے گریزاں تھیں، جس سے راہل کے وزیر اعظم بننے میں رکاوٹ ہو۔ 2009 کے انتخابات میں منموہن سنگھ امرتسر سے بطور امیدوار قسمت آزمائی کرنے کی سعی کر رہے تھے۔
اکالی دل سمیت پنجاب کی سبھی پارٹیاں ان کی حمایت میں ڈٹ گئی تھیں۔ مگر ان کو براہ راست انتخاب لڑنے سے منع کر دیا گیا، تاآنکہ وہ سیاسی قوت حاصل کرکے راہل گاندھی کے لیے کوئی چیلنج پیدا نہ کرسکیں۔ 2009کے انتخابات میں جب کانگریس کو واضح برتری حاصل ہوئی، تو یہ صرف منموہن سنگھ کی دین تھی۔
ہندوستان کے مڈل کلاس اور دیہی روزگار قانون سے فائدہ اٹھانے والوں نے ان کو کھل کر ووٹ دیے تھے۔ بجائے ستائش کے کانگریس نے اس کو راہل گاندھی کے لیے خطرہ کی گھنٹی قرار دیا۔ خوشامدی ٹولہ اس جیت کو راہل گاندھی کے سر باندھنا چاہتا تھا۔ مگر دستار کے نیچے کا سر کافی چھوٹا تھا۔اس لیے یہ بیل منڈھے چڑھ نہ سکی۔
ڈاکٹر سنگھ نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں شکوہ کیا تھا کہ پاکستان نہ جانے کا ان کو افسوس ہے۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ وہاں صرف اپنے آبائی گاؤں کو دیکھنے کے لیے نہیں، بلکہ امن مساعی کے لیے کسی ٹھوس قدم پر مہر ثبت کرنے کے لیے جانا چاہتے تھے۔
شاید کم افراد کو معلوم ہے کہ وہ دوبار وہاں گئے ہیں۔ ان کی صاحبزادی دمن سنگھ کے مطابق انہوں نے 1984 میں پاکستان میں منعقد ایشیائی مرکزی بینکوں کے گورنروں کی میٹنگ میں شرکت کی۔
اس سے قبل بھی وہ 1968 میں محبوب الحق سے ملنے گئے تھے۔اس دورہ کے دوران وہ پنجہ صاحب گردوارے گئے، جہاں ان کا نام کرن ہوا تھا۔
اس کے علاوہ راولپنڈی میں وہ اردو کی کچھ کتابیں خریدنے گئے۔ ان کی پگڑی دیکھ کر اور یہ معلوم کر کے کہ وہ ہندوستان سے آئے ہیں، کتاب والوں نے پیسہ لینے سے منع کردیا تھا۔ اس کا وہ ہمیشہ تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ لندن میں اپنے ہم جماعت یاسمین اور سہیل لہڑی نے ان کو کراچی آنے کی دعوت دے دی تھی اور ان کو شہر گھمایا۔
یہ بھی بہت کم افراد کے علم میں ہے کہ 1984 میں ریزرو بینک کے گورنر ہونے کے باوجود منموہن سنگھ کو سکھ ہونے کے باعث کرب سے گزرنا پڑا۔ ان کی اہلیہ کی چچا زاد بہن بھی ان افراد میں تھی، جن کو آپریشن بلیو اسٹار کے دوران دربار صاحب سے حراست میں لیا گیا تھا۔
ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے فوج پر فائرنگ کی۔ وہ چار پانچ سال جودھ پور جیل میں رہیں۔ ان کی اہلیہ نے کئی بار وزیر داخلہ بوٹا سنگھ سے مداخلت کی اپیل کی۔ ان کی اس بہن کا ایک سال کا بچہ گھر پر ماں کے لیے تڑپتا تھا۔
وہ جب رہا ہوئیں تو ایک آنکھ سے محروم ہو گئی تھیں۔ اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد جو طوفان بدتمیزی اٹھا، ان کے ایک قریبی رشتہ دار گوپال سنگھ کا دہرا دون میں پٹرول پمپ جلادیا گیا۔ کانپور میں رہنے والے ایک اور رشتہ دار کا گھر اور دکان جلائے گئے۔
خود منموہن سنگھ ریزرو بنک آف انڈیا کے گورنر کے ناطے اندرا گاندھی کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بمبئی سے دہلی روانہ ہوئے۔نہرو کے وقت وزیر اعظم کی رہائش گاہ تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی کی باقیات پر پھول رکھ کر وہ اشوک وہار اپنے فلیٹ پر پہنچے اور اپنی بڑی بیٹی دہلی یونیورسٹی میں استاد اوپیندر سنگھ اور ان کے شوہر وجے تنخواہ کو بھی گھر پر بلایا۔
رات کو ایک ہجوم گھر کو جلانے کے لیے آگیا۔ مگر وجے نے ان کو قائل کیا کہ یہ گھر ایک سکھ کا تھا، مگر انہوں نے اس کو اب خریدا ہے اور وہ ایک ہندو ہیں۔ حیرت کی بات تھی کہ گھر کے سامنے رہائشی ایک پنڈت جی بھی اس ہجوم کے ساتھ تھے، اور ان کو بتا رہے تھے کہ یہ گھر ایک سکھ کا ہے۔
اس واقعہ کے بعد ان کو تاریکی میں نکال کر ایرپورٹ پہنچادیا گیا، جہاں سے وہ اگلی صبح واپس بمبئی پہنچ گئے۔ریزرو بینک کا صدر دفتر بمبئی میں ہے۔
دمن کے مطابق انتہائی سنجیدہ ہونے کے باوجود منموہن سنگھ میں حس مزاح بھی موجود تھی، جس کا مظاہرہ وہ بسا اوقات پارلیامنٹ میں مخالفیں پر چوٹ کرتے وقت کرتے تھے۔
بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ آواز بھی بڑی سریلی تھی، اور وہ ”لگتا نہیں ہے جی میرا’ اور امریتا پریتم کی نظم ‘آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول“ بڑی ہی پرسوز آواز میں گاتے تھے۔
اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اردو ادب اور شاعری کا بھی ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے پاس اقبال، غالب، فیض اور فراق جیسے شاعروں ادبی کا ذخیرہ موجود تھا۔
منموہن سنگھ کی خاموشی، کسر نفسی اور شرافت کو ان کی کمزوری سمجھ کر ان پر خوب وار کیے گئے۔ ان پر کورپشن کے بھی داغ لگائے گئے۔کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (جن کو بعد میں بی جے پی نے کئی عہدوں سے نوازا) نے ان کو خزانہ عامرہ کو ہوئے تصوراتی نقصانات پر کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیا تھا، جن کو برسوں بعد عدالت نے دور پھینک دیا۔
جب ان کے بچپن کے کلاس فیلو راجہ محمد علی دہلی آکر این ایچ پی سی کے گیسٹ ہاوس میں ٹھہرے تھے، تو رگ صحافت پھڑکنے کی وجہ سے میں ایک بار پھر وہاں گیا، تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان کے ٹھہرنے وغیرہ کا خرچہ کس نے ادا کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہدایت تھی کہ بل پرائم منسٹر ہاوس یا دفتر بھیجنے کے بجائے براہ راست منموہن سنگھ کو بھیجی جائیں۔ انہوں نے اس کی خود پے منٹ کی تھی۔ سفر کے ٹکٹ کا خرچہ ان کی بڑی صاحبزادی نے اٹھایا تھا۔
منموہن سنگھ ہندوستان کے ایسے سیاست دانوں کی آخری لائن میں تھے، جو پاکستان میں پیدا ہو ئے تھے۔اب ان میں بس لال کرشن اڈوانی بچے ہیں۔
ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے، اس پر شاد عظیم آباد کے یہ شعر یاد آتے ہیں؛
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم
Categories: فکر و نظر