فکر و نظر

ہندوپاک کشیدگی: امن اور دوستی کے لیے نئی پہل ضروری

امن کا راستہ بہت کٹھن ہے اور ہوگا۔ ہمارا ہمسایہ بھی آسانی سے اس راستے  پر چلنے کوراضی نہیں ہوگا کیونکہ وہ فوج کے زیر انتظام  ملک ہے۔ لیکن یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں تباہی اور بربادی سے بچا سکتا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے ہندوستانی سیاحوں کی بیویوں کے جذبات پر، لگتا ہے  کہ لوگوں نے  دھیان دیا اور حکمرانوں کے اکسانے کے باوجود اسے ہندو-مسلم تنازعہ نہیں بنایا اور جب ہندوستان کے بدلے کی کارروائی میں  پاکستان کےدہشت گردوں کےبعض ٹھکانوں پر حملہ کیاگیاتو پورے ملک نےاس کی حمایت کی۔ کئی لوگوں کے دنگے کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ زہر بہت پھیلایا گیا ہے اور اس میں اقتدار-مذہب-میڈیا-بازار نے بہت فعال کردار ادا کیا ہے، لیکن ہندوستانی عوام نے گویا اس زہر کو اور پھیلنے سے روک دیا۔

شاید اس سے بے زارہو کر بی جے پی کے ہی کچھ لیڈروں نے اب فوج کے خلاف زہر اگلنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ اس کی شروعات مدھیہ پردیش سے ہوئی، جو بی جے پی مقتدرہ ریاست ہے۔پہلے ایک وزیر نے ہندوستانی حکومت کی طرف سے تعینات ہندوستانی فوج کی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف زہر اگلتے ہوئے انہیں  ان کے مذہب کی بنیاد پر ‘دہشت گردوں کی بہن’ قرار دیا ۔ پھر اسی ریاست کے نائب وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہندوستانی فوج وزیراعظم کے قدموں میں جھک گئی ہے۔ یہ بیک وقت ہندوستانی فوج کی توہین اور اس پرسیاست ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں اس طرح کی اورکتنی  کجی سامنے آئے گی۔ لیکن چونکہ بہار میں انتخابات ہیں اس لیےاس کا امکان بہت زیادہ ہے۔

ایسے موقع پر طرح طرح کے الزامات کا سامنا کرنے کا خطرہ اٹھاتے ہوئے یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہندوستانی ریاست ہندوستانی عوام نہیں ہے اسی طرح پاکستانی ریاست پاکستانی عوام نہیں ہیں۔ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتیں۔ دونوں باہمی امن اور خوشحالی چاہتے ہیں؛ دونوں کو بہتر زندگی اورہمہ جہت ترقی کاانتظار ہے۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی اور جنگ ان کی نمائندگی نہیں کرتے اور انہیں امن اور بہتر زندگی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔

ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ 78 سال پہلے ہم ایک ہی ملک  تھے اور اب ہمسائے ہیں۔ ہماری زبانوں پنجابی-اردو-سندھی میں، خوراک، لباس، رہن سہن اور ہمارے سماجی رویوں میں حددرجہ مماثلت ہے۔ جغرافیائی بٹوارہ ہوا، لیکن ثقافتی بٹوارہ  نہیں ہوا۔ پاکستانی  شاعر،جیسے  فیض، احمد فراز، منیر نیازی، کشور ناہید، ان کے افسانہ نگار جیسےانتظار حسین، ان کے گلوکار جیسے مہدی حسن، اقبال بانو، فریدہ خانم، نصرت فتح علی، ان کے کلاسیکی فنکار جیسے روشن آرا بیگم، نزاکت علی-سلامت علی وغیرہ ہندوستان میں اتنے ہی تسلیم شدہ اورمقبول ہیں جتنےپاکستان میں۔

یہ بات بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس عرصے میں ہماری ساجھی اردو میں لکھے گئے بہترین ادب کا بڑا حصہ پاکستان میں لکھا گیا ہے۔ جس طرح ہندوستانی جمہوریت میں زیادہ تر ادب کارپوریٹ مخالف رہا ہے، اسی طرح پاکستان میں ادیب اور فنکارآمریت اور تانا شاہی کے خلاف رہے ہیں۔

معروف سیاسی تجزیہ کار سوہاس پالشیکر نے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں تین طبقے ہیں۔ پہلے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ فیصلہ کن جنگ ، آخری نہیں پہلا آپشن ہے۔ اس میں جنگ کے بارے میں ایک خوفناک رومان ہے۔ دوسرے خطے میں یہ عقیدہ غالب ہے کہ ہندوستان کوایک بار میں بٹوارے کے گناہ سےخود کو آزادکر لینا چاہیے اور پاکستان کو تباہ وبرباد کر دینا چاہیے۔ تیسرےمیں مسلمانوں کے خلاف جنون پیدا کیا جا رہا ہے۔

اسی دوران خبر آئی کہ ہندوستانی حکومت دنیا بھر میں اپنا نقطہ نظر سمجھانے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کئی وفد بھیج رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مختصر جنگ میں ہندوستان کو وہ وسیع خیر سگالی اور حمایت حاصل نہیں ہوئی،جس کی اسے اپنی مبالغہ آمیزسرکاری اور خود ساختہ امیج کے باعث امیدتھی۔ سارے اشتہارات، شور شرابے اور وشو گرو (عالمی رہنما) مانے جانے کے بے بنیادگھمنڈ کے باوجود،  ہندوستان کی سفارت کاری ناکام ثابت ہوئی ہے۔ دنیا اپنے مسائل، کاروبار وغیرہ میں مصروف ہے اور اسے ‘وشوگرو’ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

ہمارے یہاں پاکستان کو ایک ناکام ملک سمجھنے کا جوش بھی خوب ہے۔ یہ صفت ہم نے نہیں ایجاد نہیں کی، مغرب سے آئی ہے۔ لیکن یہی ناکام پاکستان مختلف بنیادوں پر بنائی گئی عالمی فہرستوں میں ہندوستان سے زیادہ نیچے نہیں ہے۔ کچھ میں شاید اوپر بھی ہے۔ اگر ہم اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پاکستان کے بارے میں ہمارا فوجی اور سفارتی اندازہ درست نہیں تھا۔

اس مقام پر، یہ تجویز کرنا اچھی سوچ ہے، چاہے یہ کتنا ہی متنازعہ کیوں نہ ہو، ہمیں امن اور دوستی کے لیے نئی پہل کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو قبول کرنا چاہیے اوربٹوارے کو ختم کرنا چاہیے اور اپنے پڑوسی کو تباہ کرنے کے خیال کو بالکلیہ ترک کر دینا چاہیے۔ امن کا راستہ بہت مشکل ہے اور ہوگا۔ ہمارا ہمسایہ بھی آسانی سے اس پر چلنے کوراضی نہیں ہوگا کیونکہ وہ  فوج کے زیر انتظام  ملک ہے۔ لیکن یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں تباہی اور بربادی سے بچا سکتا ہے۔

(اشوک واجپئی ہندی کےممتاز ادیب اور نقادہیں۔)