کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہوگا کہ ہندو مسلم یکجہتی اور فرقہ وارانہ نیک نیتی کے لئے شہادت دینے والے گاندھی کو ان لوگوں کے برابر کھڑا کر دیا جائے جو مسلمانوں کو ہی ‘مسئلہ’ مانتے تھے۔
‘دیندیال اپادھیائے کی بی جے پی کے لئے ویسی ہی اہمیت ہے جیسی کانگریس کے لئے موہن داس کرم چند گاندھی کی’یہ کہنا تھا راشٹریہ سوین سیوک سنگھ کے ترجمان اخبار’ آرگنائزر ‘ کے سابق مدیر آر بالا شنکر کا،جو ان دنوں بی جے پی کی مرکزی کمیٹی کی تربیتی مہم کے ممبر ہیں’۔حال میں سرحدی صوبے راجستھان میں تاریخ کو نئے سرے سے گڑھا گیا۔اگر ابھی تک ہم یہی جانتے تھے کہ ہلدی گھاٹی کی تاریخی لڑائی میں جو 1571 میں مکمل ہوئی تھی، شہنشاہ اکبر کے ہاتھوں مہارانا پرتاپ کو شکست ملی تھی، مگر اب (کم سے کم ریاست کے گریجویٹ کلاسز کے) طالب علموں کو یہی پڑھایا جائےگا کہ دراصل راناپرتاپ نہیں بلکہ اس لڑائی میں اکبر ہارا تھا۔
خبر ہے کہ راجستھان یونیورسٹی نے حکمراں پارٹی کے ایک ایم ایل اے کے ذریعے اس تعلق میں بھیجیگئی تجویز پر اپنی مہر لگا دی ہے اور ایک مقامی مصنف / مؤرخ کے ذریعے کی گئی ‘کھوجوں’ کی بنیاد پر یونیورسٹی کے نصاب میں تبدیلی کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔یقیناً پیش کردہ ‘ قدم ‘ جس کو خاص طبقہ / تنظیم کی درخواستوں /فکرمندیوں کو ‘مطمئن’ کرنے یا ‘خطاب’ کرنے کا نام پر اٹھایا گیا۔ ا سے لے کربحث طویل عرصے تک چلتی رہے گی کیونکہ تاریخ ایسا موضوع نہیں ہے کہ اسے سیاستدانوں کے حکم پر ‘گڑھا’ جا سکے، بلکہ وہ علم کا ایک نظام ہوتا ہے جو لمبے عرصے میں جمع یا مرتب کئے گئے حقائق پر مبنی ہوتا ہے۔زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ کتنے خاموش طریقے سے مہاتما گاندھی- جنہیں پیار / عزّت کے تحت ‘ بابائے قوم ‘ کہا جاتا ہے، کو حکمراں پارٹی کے ایک دوسرے رہنما کے برابر کھڑا کیا جا رہا ہے۔نو منتخب صدر کی پہلی تقریر میں اس کی جس طرح جھلک دکھائی دی اس کی وجہ سے اٹھا تنازعہ فی الوقت تھم گیا دکھائی دیتا ہو، مگر خدشات گہرے ہو رہے ہیں۔
بےشک مرکز میں اور کئی ریاستوں میں حکمراں پارٹی کے لئے دیندیال اپادھیائے (25 ستمبر 1916–11 فروری 1968)، جن کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی پیشرو ہندوستانی جن سنگھ کا معمار کہا جاتا ہے، کی بےشمار اہمیت ہے۔ اور اسی وجہ سے ان کی صد سالہ سالگرہ منانے کا کام اس نے زور شور سے ہاتھوں میں لیا ہے۔
مودی حکومت نے اس کے لئے دو کمیٹیوں کی تشکیل بھی کی ہے۔ اگر جناب مودی 149 ممبروں والی قومی کمیٹی کی صدارت کر رہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ 23 رکنی انتظامیہ کمیٹی کی صدارت کر رہے ہیں (دی ہندو، 24 ستمبر2016)۔
مختلف اسکیموں اور پروگراموں کے ذریعے جاری ان کی شان بڑھانے کے تمام کوششوں کے علاوہ دیندیال اپادھیائے کی مرتب تخلیقات کے 15 حصہ بھی ان ریاستوں کے اسکولوں کو بھیجے جا رہے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت میں ہے، جس کے لئے ان حکومتوں کو کروڑو روپیے دینے پڑ رہے ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ دیندیال اپادھیائے کی شان بڑھانے کے لئے کی جا رہی یہ تمام کوششیں وسیع ترعوام کے درمیان ان کی اپنی زندگی کے تمام پہلووں اور عالمی نقطہٴ نظر کو لے کر راتوں رات چنندہ میموری ڈیولپ کرنے میں مددگار ہوگی تاکہ عام لوگ ‘اپادھیائے جی کے خوابوں’ کا منصفانہ معاشرہ بنانے کی سمت میں آگے بڑھے گی۔
ان کے سيرت نگار بتاتے ہیں کہ دین دیال اپادھیائے 21 سال کی عمر میں سماجی و سیاسی طور پر سنگھ کارکن / پرچارک کے طور پر 1937 میں سرگرم ہوئے، مگر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ آزادی کے پہلے کی ایک دہائی میں ان کی سرگرمیوں کو لے کر یعنی 1937 سے 1947 کے درمیان کی سرگرمیوں کو لےکر عجیب سی خاموشی برتتے ہیں اور اچانک 1947 پہنچ کر بتانے لگتے ہیں کہ کس طرح اس سال راشٹریہ سوین سیوک سنگھ نے ‘ راشٹردھرم پرکاشن ‘ کی شروعات کی اور سنگھ پرچارک دیندیال اپادھیائے کو دو اشاعتوں کی ادارت کا ذمہ سونپا۔
ہم آزادی کے پہلے کی اس طوفانی دہائی کو یاد کر سکتے ہیں جو معلومہ ہندوستانی تاریخ کا سب سے اتھل پتھل بھرا دور تھا، جب لاکھوں کروڑوں عوام برطاانوی حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ 1942 کو ہندوستان چھوڑو تحریک برٹش حکومت کے لئے اتنی بےقابو ہو چلی تھی کہ اس کو تحریک کار عوام کو کچلنے کے لئے تمام مقامات پر مشین گنوں اور ہوائی بمباری کا استعمال کرنا پڑا تھا اور ہندوستان کے کچھ حصوں پر اس کا قابو کچھ وقت تک کے لئے ختم ہوا تھا۔اس تحریک میں لاکھوں لوگ جیلوں میں ٹھونس دئے گئے تھے اور ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ اتناہی نہیں اس دور میں مزدوروں اور کسانوں کی انتہاپسند تحریک چلی تھی، پھر چاہے کل کارخانوں کے مزدور ہوں یا تیبھاگا تیلنگانہ کے جری کسان ہوں۔ اتناہی نہیں رایل انڈین نیوی کے جاں باز فوجیوں نے برٹش حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی اور ان کی حمایت میں تمام شہروں میں لاکھوں لوگ کھڑے ہوئے تھے۔
اور سنگھ کے حیات آفریں دین دیال اپادھیائے اور ان کے جیسے تمام پرچارک / سویم سیوک اس طوفانی دور میں کہاں تھے؟
دراصل ان کے سیرت نگار اس سچائی کو نشان زدہ نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ اپادھیائے اپنے تمام سویم سیوک ساتھیوں کی طرح اس تحریک سے دور کھڑے تھے اور ہندو راشٹر کے لئے ‘ تنظیم کی تخلیق ‘ پر اپنے آپ کو مرکوز کئے تھے۔ یہ ایسی سچائی ہے جس کی برٹش حکومت کے جاسوسی محکمہ کی رپورٹوں میں بھی تائید کی جا سکتی ہے۔
ایک ایسی رپورٹ کے مطابق،
‘۔۔سنگھ نے دانستہ طور پر اپنے آپ کو قانون کے دائرے میں رکھا ہے اور خاص طورپر،اگست 1942 میں اٹھی بغاوتوں میں شامل ہونے سے الگ کیا ہے۔ ‘ (اینڈرسن،والٹر اینڈ داملے،شری دھر ؛ د بردرہوڈ اِن سیفران : د راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اینڈ ہندو روائولزم،ویسٹ ویو پریس،1987،صفحہ 44)۔
یہ ظاہر تھا کہ ہندوتوا کے یہ تمام پُر جوش سپاہی سنگھ کے سپریمو گولولکر کے ذریعے طئے کی گئی لائین کی ہی تقلید کر رہے تھے، جس میں انہوں نے کہا تھا،
‘1942میں بھی تمام لوگوں کے دلوں میں جذبات کا زبردست ابال تھا۔ اس دوران بھی سنگھ کا روزانہ کام چلتا رہا۔ ۔سنگھ نے طئے کیا کہ وہ سیدھے کچھ نہیں کرےگا۔ حالانکہ سنگھ کے سویم سیوکوں کے دلوں میں اتھل پتھل چلتی رہی۔ سنگھ غیر فعال لوگوں کا ادارہ ہے، ان کی باتیں بےکار ہیں، نہ صرف باہری بلکہ ہمارے سویم سیوک بھی ایسی باتیں کرتے تھے۔ اوروہ کافی مایوس تھے۔ ‘(مادھو سداشیو گولوالکر، شري گروجی سمگر درشن ، ہندی میں گولوالکر کی مرتبہ تخلیقات، سیکشن 4، بھارتیہ وچار سادھنا، ناگپور، صفحہ 40)۔
زیادہ بےچین کرنے والی بات یہ ہے کہ تنظیم کے ذریعے برٹش حکومت کے خلاف چلی جدو جہد میں شریک نہ ہونے یا اس کی مخالفت کرنے کو لےکر، بعد میں خود احتسابی پر مبنی رُخ اختیار کرنے کے بجائے دیندیال اپادھیائے بعد میں اس کو جواز پیش کرتے دکھتے ہیں اور اس دوران آزادی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کئے تمام معلوم نامعلوم شہیدوں کو ایک طرح سے ذلیل کرتے دکائی دیتے ہیں:۔
‘ہم لوگ دراصل اس گمراہ کرنے والے نظریہ کا شکار تھے کہ آزادی کا مطلب غیر ملکی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا۔ غیر ملکی حکومت کی مخالفت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مادر وطن کے لئے آپ صحیح معنوں میں پیار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آزادی کے لئے چلی جدو جہد میں برٹش حکومت کے متعلق مخالفت پر زور دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ مانا جانے لگا کہ جس نے بھی برٹشوں کی مخالفت کی وہ وطن پرست ہے۔ ان دنوں ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ برٹش حکومت کے خلاف زبردست ناآسودگی پیدا کی جائے اور اس ملک کے لوگوں کے سامنے کھڑے ہر مسئلہ اور پریشانی کے لئے انہیں ہی زمہ دار ٹھہرایا جائے’۔ (سی پی بھشیکر، پنڈت دیندیال اپادھیائے : آئڈیولاجی اینڈ پرسیپشن– کانسیپٹ آف دی راشٹ، والیوم 5، سروچی، دلّی، صفحہ 169)۔)
استعماریت مخالف جدو جہد میں شریک نہ ہونا یا اس کی مخالفت کرنے کے علاوہ ہندو مسلم یکجہتی پر دین دیال کا نقطہٴ نظر بہت دشوار کن دکھتا ہے، جس مقصد کے لئے مہاتما گاندھی نے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ دین دیال نے ایسے لوگوں کو مسلم پرست کہہ کر خطاب کیا اور ‘ یکجہتی ‘ کی کانگریس پالیسی کی مخالفت کی۔
‘سنگھ کے ایک ترجمان اخبار’ راشٹردھرم ‘ میں شائع ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سنگھ کے مفکر دیندیال اپادھیائے ‘ ہندو مسلم یکجہتی ‘ کے خلاف تھے اور مانتے تھے کہ یکجہتی کا مدعا ‘ غیر مناسب ‘ ہے اور مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے ہے’۔
‘مسلم مسئلہ : دین دیال جی کی نظر میں’عنوان سے مندرجہ بالا مضمون راشٹردھرم کی خاص اشاعت میں شائع ہوا جس کا اجرا اتوار کو مرکزی وزیر کلراج مشر نے کیا۔ ماہانہ رسالے کا مندرجہ بالا شمارہ اپادھیائے کو وقف کیا گیا ہے اور اس میں ان کے بارے میں اور ان کے نظریہ کے بارے میں مضمون ہے۔
ڈاکٹر مہیش چندر شرما کے ذریعے لکھا گیا مندرجہ بالا مضمون یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اپادھیائے نے کہا تھا کہ ‘ مسلمان ہونے کے بعد کوئی آدمی ملک کا دشمن بن جاتا ہے۔ ‘ اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے ‘ اگر ملک کا کنٹرول ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ملک میں پیدا ہوئے ہیں مگر وہ قطب الدین، علاء الدين، محمّد تغلق، فیروز شاہ تغلق، شیرشاہ، اکبر اور اورنگ زیب سے الگ نہیں ہیں، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی محبت کے مرکز میں ہندوستانی زندگی نہیں ہے’۔
پیش کردہ مضمون لکھنے والے ڈاکٹر مہیش چندر شرما کا تعارف یہ ہے کہ وہ 15 حصوں میں شائع دین دیال اپادھیائے کی مرتب تخلیقات کے مدیر ہیں جس کا اجرا جناب مودی نے گزشتہ سال کیا تھا۔
دیگر مقامات پر بھی مسلمانوں کے ایک ‘ پیچیدہ مسئلہ ‘ ہونے کی بات دین دیال دوہراتے دکھتے ہیں۔
‘آزادی کے بعد حکومت، سیاسی پارٹیوں اور لوگوں کو کئی اہم مسائل کا مقابلہ کرنا پڑا۔۔لیکن مسلم مسئلہ ان میں سب سے پرانا،سب سے پیچیدہ ہے اور نئی نئی شکلوں میں موجود ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ 1200 سالوں سے اس مسئلہ سے ہم لڑ رہے ہیں’۔
(BN Jog, Pandit Deendayal Upadhyaya: Ideology & Perception-Politics for Nation’s Sake, vol. vi, Suruchi Prakashan, Delhi, 73)
کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ دین دیال اپادھیائے جس طرح مسلمانوں کو ‘ مسئلہ ‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، اس میں وہ گولولکر کے خیالات کے ساتھ بالکل ہم آہنگی لئے دکھتے ہیں، جو اپنی کتاب ‘ بنچ آف تھاٹس ‘ یعنی وچار سمن میں مسلمانوں کو ‘ اندرونی خطرہ ‘ کے طور پر نشان زد کرتے ہیں۔
یہ بات بھی اب تاریخ ہو چکی ہے کہ نو خود مختار ہندوستان جو ذاتی حقوق کی خلاف ورزی اور سماجی طور پر غیر محروم ستائے ہوئے کروڑوں ہندوستانیوں کے لئے خاص مواقع پر مبنی آئین بنا رہا تھا، تب گولولکر کی رہنمائی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے مانگ کی کہ آزاد ہندوستان کے لئے منوسمرتی کو ہی آئین اعلان کیا جائے۔
سنگھ کے ترجمان اخبار ‘ آرگنائزر ‘ (30 نومبر 1949، صفحہ 3) میں شکایت کی گئی کہ:
But in our constitution there is no mention of the unique constitutional developments in ancient Bharat. Manu’s laws were written long before Lycurgus of Sparta or Solon of Persia. To this day laws as enunciated in the Manusmriti excite the admiration of the world and elicit spontaneous obedience and conformity. But to our constitutional pundits that means nothing.
یقیناً دین دیال اپادھیائے جو اپنی تنظیم کے منظم مبلغ تھے وہ اس تمام واقعات کے نہ صرف گواہ تھے بلکہ ان میں مختلف سطحوں پر حصےدار بھی تھے، جس کی وجہ سے وہ سنگھ کے سپریمو کے قریبیوں میں شامل ہوئے تھے۔ بعد کے دنوں میں وہ طبقاتی رواج(ذات پر مبنی اونچ نیچ )کی حمایت میں زیادہ فلسفانہ دلیل دیتے دکھتے ہیں، یہاں تک کہ اس کا مقابلہ خود کے مذہب سے کرتے دکھتے ہیں:۔
‘حالانکہ جدید دنیا میں یکسانیت کے نعرے اٹھتے ہیں،یکسانیت کے نظریہ کو سوچ سمجھ کر تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا حقیقی تجربہ یہی بتاتا ہے کہ عملی اور دنیاوی نظریہ سے دیکھیں تو کوئی بھی دو لوگ یکساں نہیں ہوتے بہت ساری تندی سے بچا جا سکتا ہے اگر ہم ہندو مفکروں کے ذریعے پیش کئے گئے یکسانیت کے نظریہ پر سنجیدگی سے غور کریں۔ سب سے پہلا اور بنیادی رواں نقطہ یہی ہے کہ بھلے ہی لوگوں کی الگ الگ خوبیاں ہوتی ہیں اور ان کو ان کی خوبیوں کے حساب سے الگ الگ کام مختص ہوتے ہیں،مگر تمام کام یکساں طور پر قابل احترام ہوتے ہیں۔ اس کو ہی خود کا مذہب کہتے ہیں اور اس میں ایک واضح گارنٹی رہتی ہے کہ خود کے مذہب کی تعمیل خدا کی عبادت کے مساوی ہوتی ہے۔ اس لئے خود کے مذہب کی تکمیل کے لئے انجام دئے گئے کسی بھی فرض میں،اونچ اور نیچ اور عزّت دار اور غیر عزّت دار کا سوال اٹھتا ہی نہیں ہے۔ اگر فرض کو بغیر غرض کے پورا کیا جائے،تو کرنے والے پر کوئی الزام نہیں آتا۔’
(C. P. Bhishikar, Pandit Deendayal Upadhyaya: Ideology and Perception: Concept of the Rashtra,vol. v, Suruchi, Delhi, 169)
ہندوستانی جن سنگھ نے سال 1965 میں ‘ مفرد انسانیت ‘ کو اپنے پیش رو اصول کے طور پر قبول کیا جس کو بعد میں سال 1980 میں بی جے پی نے بھی اپنایا۔ مفرد انسانیت کے دین دیال اپادھیائے کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کرسٹوف جافرلو (Christophe Jafferlot) ذات پات کے نظام کے متعلق ان کی گفتگو کااظہارکرتے ہیں جو ان کےلئے وہ ‘سماجی یکجہتی / تعلقات کا ایسا ماڈل تھا جس کی ہر ذات تعمیل کرتی تھی جس میں‘ اچھوت’ بھی شامل تھے۔
‘ اپادھیائے بھی اسی ڈھنگ سے سوچتے تھے۔ ‘ مفرد انسانیت ‘ جس کو سنگھ پریوار کے علمبرداروں کے ذریعے ان کے نظریہ کی بنیاد کہا گیا ہے۔ اس کا بنیادی تصور ذات پات کے نظام کی نامیاتی یکجہتی پر ٹکا ہے۔
سال 1965 میں انہوں نے لکھا :
‘چار ذاتوں کے ہمارے نظریہ میں،وہ عظیم انسان– قدیم انسان جس کی قربانی نے، جیسا کہ رگ وید کا کہنا ہے، ذات پات کے نظام کی شکل میں معاشرہ کو جنم دیا ‘ کے چار اجزاءکے برابر ہیں۔ ‘ ان کے حساب سے ذات پات کے نظام میں وہ نامیاتی یکجہتی ہوتی ہے جو قوم کی تعمیر کے عمل کو جاری رکھ سکتی ہے۔
آخر کیا تھا‘ مفرد انسانیت‘(کا تصور) جس کی بات بی جے پی کرتی ہے؟ ڈینش دانشور تھامس بلام ہانسین لکھتے ہیں:
دین دیال اپادھیائے نے۔ ‘ مفرد انسانیت ‘ کے نام پر ان نظریوں کووسعت دی، جس کو جن سنگھ نے اپنے سرکاری اصول کے طور پر 1965 میں اپنایا۔ مفرد انسانیت کہیں سے بھی گولولکر کی غوروفکر سے ہٹا نہیں، البتہ اس نے گاندھی وادی صلاح مشورہ کے اہم عناصر کو اپنے میں ضم کرکے اس کو ہندو راشٹرواد کے ایک ایسے ورژن میں پیش کیا جس کا مقصد تھا کہ جن سنگھ کی فرقہ وارانہ تصویر کو مٹاکر اس کو ایک خیر اندیش، روحانی، غیر حملہ آور تصویر عطا کرنا جو سماجی یکسانیت پر، ‘ ہندوستانی بنانے ‘ اور سماجی ہم آہنگی پر زور دیتی ہو۔
اس نئےنظریے کی تعمیر ایک طرح سے ہندوستان میں ساٹھ اور ستّر کی دہائی کے سیاسی شعبوں کی چنوتیوں (problematics) اور غالب خیالات کے مطابق تھی۔ پارٹی اور وسیع ہندو وطن پرست تحریک کو سیاست کے مرکزی دھارے کے قدامت پسند حاشیے سے اونچی سطح پر لے جانا بھی اس کا مقصد تھا، جس کو 1967 کے عام انتخابات کے بعد شہری درمیانی طبقے میں اچھی خاصی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ گولولکر کی تحریروں سے اہم تبدیلی ‘ بھارتیہ ‘ لفظ کے استعمال میں نظر آیا جس کو رچرڈ فاکس نے ‘ ہنڈیئن ‘ یعنی ‘ ہندو اور انڈین ‘ کے مرکب کے طور پر ابھارا ہے۔
(The Saffron Wave: Democracy and Hindu Nationalism in Modern India, Oxford University Press, pages 84-85)
دلّی میں واقع عالم پرلئے قانون گو، اسی قسم کے خیالات کو ظاہر کرتے ہیں:
‘دیندیال اپادھیائے گولولکر کی ثقافتی قوم پرستی کے اصول کو ‘ مفرد انسانیت ‘ کے اپنے اصول سے تبدیل کرتے ہیں۔ یہ نیا اصول راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا ہندو راشرٹ کے نظریہ کو تھوڑا نئے اندازے میں پیش کرتا ہے اور اس کی نظریاتی قناعت پسندی کو افزودگی دیتا ہے۔
(RSS’ Tryst with Politics; Manohar, page 118)
یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ دین دیال اپادھیائے سیکولرازم کے نظریہ کو ناپسند کرتے تھے، اس نظریہ سے نفرت کرتے تھے۔ علی گڑھ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی اجلاس میں انہوں نے صاف کہا :
‘ہندوستان کو سیکولر ملک اعلان کرنے سے ہندوستان کی روح پر حملہ ہوا ہے۔ ایک سیکولر ملک میں تو پریشانیوں کا پہاڑ کھڑا رہتا ہے۔حالانکہ راون کی لنکا میں واقع مذہب سے عاری ریاست میں بہت سارا سونا تھا،مگر وہاں رام راج نہیں تھا۔’
اپنے ایک دیگر دستاویز میں وہ لکھتے ہیں
‘اگر ہم یکجہتی چاہتے ہیں،تو ہمیں یقیناً ہندوستانی قوم پرستی کو سمجھنا ہوگا،جو ہندو قوم پرستی ہے اور ہندوستانی تہذیب ہندو تہذیب ہے۔
وہ آئین کو ریڈکل طریقے سے بدلنے کی بات کرتے تھے کیونکہ ان کے مطابق
‘وہ ان کے مطابق وہ ہندوستان کی یکجہتی اور اتحاد کے خلاف پڑتا ہے۔ اس میں بھارت ماتا،جو ہماری مقدس مادر وطن ہے اور جو ہمارے لوگوں کے دلوں میں بسی ہے، کے خیال کی کوئی قبولیت نہیں ہے۔ آئین کے پہلے آرٹیکلکے مطابق، انڈیا جس کو ہندوستان بھی کہا جاتا ہے،وہ ریاستوں کا سنگھ ہوگا یعنی بہار ماتا،بنگ ماتا،پنجاب ماتا،کنّڑ ماتا،تمل ماتا،سبھی کو ملاکر بھارت ماتا کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہ عجیب ہے۔ ہم لوگوں نے ان صوبوں کو بھارت ماتا کے اجزاءکی شکل میں دیکھا ہے،اور نہ ذاتی ماتا کے طور پر۔ اس لئے ہمارے آئین کو وفاقی کے بجائے وحدانی ہونا چاہئے۔ جن سنگھ کا ماننا ہے کہ ہندوستانی تہذیب کی طرح ہندوستان بھی ایک ہے اور غیر منقسم ہے۔ ساجھا تہذیب کی کوئی بھی بات نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ خطرناک بھی ہے،کیونکہ وہ قومی یکجہتی کو کمزور کرتی ہے اور تفرقہ انگیز رجحانوں کو پرجوش کرتی ہے۔ ‘
(‘ جن سنگھز پرنسپلس اینڈ پالسیز، جنوری 25،1965، صفحہ ۔10)
آخرمیں، سنگھ-بی جے پی کنبے میں دین دیال اپادھیائے کی ستائش کو سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ‘ گولولکر کی غور و فکر ‘ پر ثابت قدم رہے مگر انہوں نے ضمیمہ کے طور پر گاندھیوادی نظریہ کی زبان کو بھی اپنایا اور سنگھ کے نظریوں کو زیادہ مقبول عام بنایا۔ مگر کیا یہ مناسب ہوگا کہ مہاتما گاندھی کے زمرے میں ان کو پارلیمان کے پینل پر بھی وہی مقام ملے۔
کیا یہتضادسے پُر نہیں ہوگا کہ ایک ساتھ آزادی کی جدو جہد کے رہنما مہاتما گاندھی ایسی شخصیتوں کے ساتھ ساتھ کھڑے کر دئے جائیں جو ان کے خیالات کے بالکل خلاف کھڑے تھے۔ کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہوگا کہ ہندو مسلم یکجہتی کےلئے، فرقہ وارانہ نیک نیتی کےلئے شہادت دئے مہاتما گاندھی ان لوگوں کے مساوی پیش کر دئے جائیں جو مسلمانوں کو ‘ مسئلہ ‘ مانتے تھے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکز میں بی جے پی کے برسر اقتدار ہونے کے بعد نئے ہندوستان کی مستقبل بینی (وژن) کو لے کر بہت کچھ بدل گیا ہے۔ گاندھی، نہرو، مولانا آزاد، امبیڈکر اور آزادی کی تحریک کے تمام علمبرداروں نے نوخود مختار ہندوستان کے لئے جس شمولیتی، ترقی پر مبنی معاشرہ کا تصورپیش کیا تھا، اس کے مقام پر اکّیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جو نیا ہندوستان گڑھا جا رہا ہے وہ غیر شمولیتی مستقبل بینی پر منحصر ہے۔ اور جیسا عالم فی الوقت موجود ہے، اس میں ان کو جلد کوئی مضبوت چنوتی ملنے کے آثار بھی نہیں دکھتے۔
Categories: فکر و نظر