ہادیہ اس ملک کی جائیداد نہیں ہے۔ اور سپریم-کورٹ اس کی مرضی کے خلاف اس کا سرپرست نہیں بن سکتا۔ بہتر ہو کہ اس غلطی کی اصلاح کر لی جائے۔ ورنہ اس ملک کے مسلمان اب عدالتوں تک آنے سے بھی ہچکیںگے جن پر اب تک ان کو یقین رہا ہے، بارہا مایوسی کے باوجود۔
” مہربانی کرکے میری مدد کرو “، یہ پکار ہے کیرل کے کوٹّایم کے ٹی وی پورم کے ایک گھر میں قید کر دی گئی ایک بالغ لڑکی کی۔ اس کا قصور یہ ہے کہ اب وہ خود کو ہادیہ کہلانا پسند کرتی ہے جبکہ اس کے والد اشوکن کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی ایک بڑی سازش ہے۔ سازش ہے ان کی بیٹی کو مسلمان بناکر اسلامک اسٹیٹ کے لئے سیریا بھیجنے کی۔
ہادیہ کی یہ پکار اس ملک میں ہرکوئی سن رہا ہے لیکن یہ ملک کی سپریم کورٹ کی دیواروں سے ٹکراکر لوٹ گئی ہے۔ اس ملک کی ایک بالغ لڑکی جو ووٹ دے سکتی ہے، حکومت کا انتخاب کرنے کا دماغ جس کو ہے، اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کو آزاد نہیں۔
ہادیہ اس لئے آزاد نہیں کہ یہ بھی کہ جیسا روایتی طور پر سمجھا جاتا ہے، لڑکی یا عورت کی دانشمندی پر ویسے ہی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، اس کی سوچنے سمجھنے کی طاقت پر یقین نہیں کیا جا سکتا، وہ کمزور دماغ کی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ سے پہلے کیرل کی عدالت عالیہ ہی ہادیہ سے سخت خفاہو گئی کہ اس نے اس سے پوچھے بغیر شادی کیسے کر لی! جبکہ ابھی وہ اس کے اکھلا سے ہادیہ بننے کی جانچ ہی کر رہی تھی۔
وہ بھی ایک مسلمان سے!
عدالتوں کا یہ بھی خیال ہے، جیساعام ہندوستانی ماں باپ یا ان کی کھاپ پنچائتیں مانتی ہیں، شادی جیسا بڑا فیصلہ بغیر ماں باپ کی مرضی کے کیسے کیا جا سکتا ہے۔یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اس شادی کو کیسے مانا جائے جس میں لڑکی کی فیملی کی طرف سے کوئی شامل نہ ہوا۔اور کیرل کی عدالت-عالیہ نے ہادیہ کی شیفن جہاں سے شادی کو ردّ کر دیا۔
کیا یہ حق اس کو تھا؟
کیا یہ حق ہندوستان کے سپریم کورٹ کو ہے کہ وہ ایک بالغ لڑکی کے دل و دماغ پر قبضہ کر لے؟کیا یہ اسے حق ہے کہ وہ اس کو اس کی مرضی کے خلاف اس کے ماں باپ کے گھر نظربند کر دے؟کیا یہ حق سپریم کورٹ کو ہے کہ وہ ہادیہ کو اس کے شوہر سے ملنے سے روک دے؟
اور کیا یہ حق اسے ہے کہ وہ ایک بالغ لڑکی کے خود کے مذہبی رجحان بدلنے اور اپنا ازدواجی رشتہ بنانے کے فیصلے کو اس کے والد کے شک کی وجہ سے ایک بڑی دہشت گرد سازش کا حصہ مانکر اس کی جانچ کرنے کے لئے ایک قومی اجینسی کو لگا دے؟
اور جانچ ہونے تک وہ ہادیہ کو قید کر دے؟کیا یہ اس لئے ہوا کہ اکھلا نے جو مذہب اپنایا ہے، اس کو ہماری عدالتیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں؟یہ بھی اس مذہب سے منسلک جو بھی چیز ہو رہی ہے اس کے تار ضرور کسی عالمی نظام سے منسلک ہوںگے؟ اور وہ سازش ہی ہوگی؟کیا اکھلا، ہادیہ کے بدلے ہرلین کؤر ہو جاتی تو؟اگر ہادیہ بدھ-مت یا جین یا پارسی ہو جاتی تو؟
حالانکہ کیرل کی پولیس بار بار کہہ رہی ہے کہ اس نے ہادیہ کے والد کی شکایت کے بعد جانچکر لی تھی اور اس کے شک کو بے بنیاد پایا تھا۔شیفن جہاں مسقط میں نوکری کرتا تھا۔ یہ بات اس نے چھپائی نہیں تھی۔ مسقط میں نوکری بہت سارے مسلمان اور ہندو کرتے ہیں۔
ہندوستانی آئین میں کسی کو بھی اپنا مذہب بدلنے کی اجازت ہے۔ آئین کی روح کو کچلکر تقریباً ہرجگہ اس حق پر اتنی بندشیں لگا دی گئی ہیں کہ مذہب بدلنے کے پہلے، خصوصاً اگر آپ اسلام یا عیسائی مذہب اپنا رہے ہوں، آپ کو مقامی انتظامیہ کو ہر طرح کی تسلی دینی پڑتی ہے۔ دھیان رہے ہندوستان میں یہ انتظامیہ اکثر ہندو دل و دماغ کی ہوتی ہے۔
اپنی مرضی سے شادی کرنے والی لڑکیوں اور لڑکوں کو معلوم ہے کہ عشق آگ کا دریا ہو نہ ہو شادی رجسٹرار کا دفتر ضرور کانٹوں بھری جگہ ہے جہاں سے لہولہان ہوئے بغی شاید ہی دونوں نکل سکیں۔ سرکاری افسران ہوں یا منصف، خود کو ماں باپ کا نمائندہ اور سماجی اخلاقیات کا پہرےدار مان لیتے ہیں۔اپنی مرضی سے شادی کا رشتہ بنانے والے نوجوان کو ہمارے ملکی نظام کو چلانے والے جس قدر بےعزت کرتے ہیں، اس کا حال وہ مصیبت زدہ ہی بتا سکتے ہیں۔
ابھی حال میں میری ایک طالبہ نے ایک مسلمان سے شادی کی ہے۔ مذہب نہیں بدلا۔ لیکن یہ آسان نہ تھا۔ اس کو اپنی فیملی سے خطرہ تھا اور ابھی بھی ہے۔ اس کو شادی کے بعد فوراً شہر چھوڑ دینا پڑا۔
یہ 2017 ہے۔ 1987 میں پٹنہ میں میرے دوستوں کی اس نوعیت کی شادی کے وقت وشوہندوپریشد کی شکایت پر پولیس آ گئی تھی۔اس کے بعد کی اور ایسی شادیوں میں ہمیں کافی رازداری اور احتیاط برتنی پڑی تھی۔ تقریباً سات سال پہلے دلّی میں یونیورسٹی کے استاد جاوید عالم اور ایک ہندو جینتی کی شادی کے فیصلے پر دلّی بھر میں ان کے خلاف پوسٹر لگا دیے گئے تھے اور دونوں کو جان بچانے کو روپوش ہونا پڑا تھا۔جاوید عالم کے کالج نے ان کی نوکری اس جرم میں ختم کر دی تھی۔اس کے بھی بہت پہلے جب جواہرلال نہرو کی بیٹی نے ایک پارسی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو پورے ملک میں طوفان آ گیا تھا۔خود گاندھی کو اس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی تھی اور دلہن و دلہا کی اپنی زندگی کے بارے میں یہ فیصلہ لیں، ان کے حقوق کے حق میں دلیل دینی پڑی تھی۔اندرا اور فیروز کی شادی قومی سطح پر ہندو غضبناکی کا موضوع بنی تھی۔
سپریم کورٹ کو اس طرح کی تاریخ کی تعلیم دینے کا ارادہ نہیں۔ صرف یہ بتانے کا ہے کہ مسلمانوں کو لےکر ایک اتحاد اس ملک کی اکثریت میں ہے۔ وہ کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ وہ کسی بھی نام پر پڑ سکتی ہے۔ابھی وہ گرہ اور کس جاتی ہے دہشت گردی کے نام پر۔سپریم کورٹ کیا اس سے ناواقف ہے؟ یا، کیا یہ شک وشبہ وہاں بھی دماغ کی کسی تہہ میں ہے؟
” کیا مجھے اس طرح رہنا ہوگا؟ ” یہ چیخ ہے ہادیہ کی۔ عدالت عظمیٰ کو ہندوستانی آدمی کی خلوت نشینی کے حقوق کی طرف سے کھڑے ہونے کے سبب جو واہ واہی مل رہی ہے، اس کے شور میں ایک مسلمان عورت کی یہ چیخ دب گئی ہے۔
سپریم کورٹ کو ملک کے تحفظ کی فکر جو ہے۔ کیا وہ مانتا ہے، جیسا کہ پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ ہندو لڑکیوں کو مسلمان بناکر وہ انھیں دہشت گردوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے؟ ‘کیا اس کو اس پروپیگنڈا میں ذرا بھی دم نظر آتا ہے کہ ہندو لڑکیوں کو ورغلاکر مسلمان بنا لیا جاتا ہے اور سازش کے بطور خوبصورت مسلمان جوان سے ان کا نکاح کرا دیا جاتا ہے؟ ‘
کہ ہندو لڑکیوں پر ڈورا ڈالنے کے لئے کس بل بنائے مسلمان نوجوان موٹرسائیکل لئے چکر کاٹے رہتے ہیں؟ اور ہندو لڈکیاں ان کی مرادنگی سے متاثر ہو کر ان کے جھانسے میں آ جاتی ہیں؟کہ ہندو لڑکیوں کو مسلمان بناکر پھر جسم فروشی میں دھکیل دیا جاتا ہے؟کہ پھر ان کے جسم کا ہر ایک عضو فروخت کر دیا جاتا ہے؟اور اب، ان کو اسلامی اسٹیٹ کے حوالے کر دیا جاتا ہے؟کیا ہماری معزز عدالت عظمیٰ اس پروپیگنڈا میں کچھ سچائی کی بو پانے لگی ہے؟کیا اس نے ہندو لڑکیوں کو اس بین الاقوامی سازشی مذہب سے محفوظ رکھنے کا ذمہ اپنے کندھے پر لے لیا ہے؟اور اپنے قومی فرائض کے زوم میں وہ آئین کی اس دفعہ کو فراموش کر چکا ہے جس کی ایک بھری پوری وضاحت اسی کے نو ممبران نے حال میں کی ہے۔
انسان کچھ بنیادی حقوق سے منسوب ہے۔ ان کے ذرائع ریاست نہیں، آئین بھی نہیں۔ آئین ان حقوق کی نشاندہی کرتا ہے اور ریاست کو بتاتا ہے کہ وہ انسان کی زندگی میں کہاں مداخلت نہیں کر سکتا۔ انسان کے حقوق کے ذرائع وہ خود ہے اور ان کے جواز کے لئے کسی اور کی درکار نہیں۔ہادیہ ایک ہندوستانی شہری ہے۔وہ بالغ ہے۔ اس کو سوچنے سمجھنے، اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا ہر حق ہے۔ وہ کس طرح کا مذہبی رخ اپنائے اس کا بھی۔ کس سے شادی کرے، یہ طے کرنا اس کا حق ہے۔نہ تو ماں باپ، نہ اس کی فیملی، نہ اس کی ذات-پنچایت، نہ اس کا مذہب اس کی طرف سے بولنے کا حقدار ہے۔
ہادیہ اس ملک کی جائیداد نہیں ہے۔ اور سپریم-کورٹ اس کی مرضی کے خلاف اس کا سرپرست نہیں بن سکتا۔
بہتر ہو کہ اس غلطی کی اصلاح کر لی جائے۔ ورنہ اس ملک کے مسلمان اب عدالتوں تک آنے سے بھی ہچکیںگے جن پر اب تک ان کو یقین رہا ہے، بارہا مایوسی کے باوجود۔
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر